عالمی ثالثی عدالت میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی اہم کامیابی

اطہر مسعود وانی

پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پور میں تعمیر کردہ متنازعہ کشن گنگا پراجیکٹ کے معاملے میں ہندوستان کے خلاف ایک اہم کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کے تحت ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت ( پی سی اے) نے ہندوستانی موقف کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی شکایت کو سماعت کے لئے منظور کر لیا ہے۔ہندوستانی اعتراض مسترد کیے جانے کے بعد بین الاقوامی عدالت پاکستان کے اس دعوے کی میرٹ پر سماعت شروع کرے گی کہ مذکورہ بالا دونوں منصوبوں کے ڈیزائن 1961 کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔ریاستوں کے درمیان ثالثی اور تنازعات کے حل کی دیگر اقسام کی سہولت کے لیے 1899 میں قائم کی گئی ثالثی کی مستقل عدالت غیر اقوام متحدہ بین الحکومتی ادارہ ہے جو بین الاقوامی برادری کی تنازعات کے حل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک فورم کے طور پر کام کرتا ہے۔

پاکستان اورہندوستان کے درمیان کشن گنگا پراجیکٹ کے حوالے سے تنازعہ سال 2007 میں اس وقت شروع ہوا جب بھارت میں کشن گنگا ڈیم پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شروع ہوا تو پاکستان کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی جس پر پاکستان نے پانی کی فراہمی کے معاملے پر بھارت کے خلاف عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کی وجہ سے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ہیگ کی مستقل ثالثی عدالت ( پی سی اے) نے بھارت کے 6 اعتراضات مسترد کر دیے ہیں ۔ ان اعتراضات میں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ثالثی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں جہلم اور چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے بالترتیب 330 میگاواٹ کے کشن گنگا اور 850 میگاواٹ کے رتلے ڈیم کے متنازع ڈیزائنوں کے حوالے سے مقدمہ سنے۔ عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس تنازع پر پاکستان کی جانب سے دائر ہونیوالی درخواست کو سننے اور فیصلہ کرنے کی مجاز ہے اور یہ ان تمام معاملات پر غور کرنے اور ہدایات دینے کا حق محفوظ رکھتی ہے جن کا فیصلہ( پانی کے استعمال کے حوالے سے) ایوارڈ میں نہیں ہوا ۔عدالت نے اپنے تفصیلی ایوارڈ دے ایدرر کے حوالے سے پاکستان کا موقف تسلیم کرتے ہوئے اس پر بھارتی اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔عالمی ثالثی عدالت نے 2013 میں بھارت کو کشن گنگا پراجیکٹ ڈیزائن میں مشروط تبدیلی کی اجازت دی تھی۔پاکستان کا موقف تھا کہ شمالی کشمیر کے خطے میں واقع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی طرف پانی کے بہائو میں غیر معمولی اثر پڑے گا۔پاکستان نے دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم اور دریائے چناب پر 850 میگا واٹ رتلے پن بجلی منصوبے کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔جب کہ بھارت نے کشن گنگا ڈیم کیس کو عالمی ثالثی عدالت کے دائرہ اختیار سے نکالنے کی درخواست کی تھی۔

پاکستان نے اپنے حصے کے دریائوں پر بھارتی ڈیموں کے ڈیزائن پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کے مطابق کشن گنگا جھیل 7.5 ملین کیوبک میٹر کے بجائے 1ملین کیوبک میٹر اور رتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی گنجائش24ملین کے بجائے80لاکھ کیوبک میٹر ہونی چاہیے۔ عدالت میں بھارت کی جانب سے پیش نہ ہونے کے حوالے سے پی سی اے نے فیصلہ دیا کہ کسی بھی فریق کی جانب سے عدالت میں پیش نہ ہونے سے عدالت کے مجاز ہونے پر فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اس کا عدالت کے وجود یا وظائف بشمول اس کے حتمی اور لازمی عملدرآمد والے فیصلے پر اس کا کوئی اثر پڑے گا۔ بھارت کی جانب سے پیش نہ ہونے کا فیصلہ عدالت کے مجاز ہونے کے استحقاق کو کسی طور سے کم نہیں کرتا ۔ پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ بھارت کیساتھ اس کے تنازعات ثالثی عدالت طے کرائے ۔ بھارت نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس عمل کو روکنے کی خاطر ایک متوازی درخواست دائرکی تھی کہ ایک غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیاجائے۔ بھارت نے اپنی متوازی درخواست دائر کرنے کے بعد ثالثی عدالت میں اور درخواست دائر کر دی کس میں کہا گیا کہ معاہدے کے تحت متوازی سماعتیں نہیں چل سکتیں اس لیے پاکستان کی درخواست خارج کی جائے۔ بھارت چاہتا تھا کہ ثالثی عدالت اپنے آپ کو غیر قانونی قرار دے۔ اب عدالت نے پاکستان کا موقف تسلیم کرتے ہوئے بھارت کے 6 اعتراضات مسترد کر دیے ہیں اور ثالثی عدالت کی جانب سے پاکستان کے اس دعوے پر سماعت کی راہ ہموار ہوگئی ہے کہ دونوں پراجیکٹس کے ڈیزائن 1961کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت کی سرکاری و یب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے اعتراضات کے حوالے سے جوفیصلہ کیا گیا ہے وہ عدالت نے اتفاق رائے سے کیا ہے اور قرار دیا ہے، اور اس میں بھارت کی جانب سے سماعت میں پیش نہ ہونے کا معاملہ بھی شامل ہے کہ عدالت کے مجاز ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ثالثی عدالت کی مجاز ہونا سندھ طاس معاہدے1960کے پیراگراف نمبر 16 کے ضمیمہ جی کے تحت ثابت ہے اور اس سے عدالت کے مجاز ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ عدالت نے یہ نتیجہ بھی نکالا کہ پاکستان کی جانب سے ثالثی عدالت سے شق IX(2)کے تحت تنازعات اٹھائے گئے ہیں اور موجودہ سماعت سندھ طاس معاہدے کی شقوں IX(3), (4),(5) کے تحت شروع کیے گئے ہیں ۔

پاکستان نے 19 اگست 2016 کو سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے مطابق ثالثی کی ایڈہاک عدالت کے قیام کی درخواست کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔یہ قدم 2006 میں کشن گنگا پروجیکٹ اور 2012 میں رتلے پروجیکٹ کے لیے مستقل انڈس کمیشن کے سامنے اپنے خدشات اٹھائے جانے کے بعد اٹھایا گیا تھا۔اس کے بعد پاکستان نے جولائی 2015 میں نئی دہلی میں ہونے والے حکومتی سطح کے مذاکرات کے ذریعے حل کی کوشش کی اور کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ بھارت کی جانب سے اٹھائے جانے والے خدشات کو دور کرنے سے مسلسل انکار کے جواب میں کیا۔سندھ طاس معاہدہ تنازعات کے حل کے لیے دو فورم فراہم کرتا ہے، ایک ثالثی عدالت، جو قانونی، تکنیکی اور نظاماتی مسائل کو حل کرتی ہے، دوسرا غیر جانبدار ماہر، جو صرف تکنیکی مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے ثالثی عدالت کے قیام کی درخواست کی۔

کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں864 ملین امریکی ڈالرمالیت کا ہندوستانی منصوبہ ہے جس کی اونچائی 37 میٹر (121) فٹ ہے اور اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی کل صلاحیت 18,350,000 m3 (648,000,000 cu ftفٹ ہے۔سندھ آبی معاہدے کے تحت پاکستان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے اسے 2011 میں روک دیا گیا تھا، جو ثالثی کی عدالت میں چلا گیا تھا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر میں دریائے کشن گنگا کے بہائو پر اس منصوبے کے مہلک اثرات پر احتجاج کیا۔ دسمبر 2013 میں، عدالت نے فیصلہ دیا کہ بھارت بجلی کی پیداوار کے لیے پانی کا رخ موڑ سکتا ہے جب کہ کم از کم 9 کیومیکس (m3/s) بہا کو پاکستان کی طرف بہا ئویقینی بنائے۔اس کے تینوں یونٹ 30 مارچ 2018 تک بجلی کے گرڈ کے ساتھ چلائے گئے اور 19 مئی 2018 کو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس منصوبے کا افتتاح کیا۔پاکستان کا موقف ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہندوستان دریا، معاون ندی کا پانی دوسری طرف موڑنے کا اختیار نہیں رکھتا۔معاہدے کی رو سے پانی کا رخ موڑنا ممنوع ہے۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کشن گنگا منصوبے سے جہاں کشن گنگا دریا کے آزاد کشمیر داخلے کے وقت دریا میں پانی کی مقدار میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے وہاں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں بھی اس منصوبے کے ماحولیاتی حوالے سے بھی تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پور کی مقامی آبادی نے اس منصوبے سے پیدا ہونے والی مستقل آلودگی کے خلاف احتجاج کیا جس کے بعد ہندوستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (NIT) کے ہائیڈرولوجی ڈیپارٹمنٹ نے علاقے میں ٹیسٹ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس منصوبے سے شدید آلودگی پیدا ہورہی ہے اور پانی میں کیمیائی خلل پیدا ہوا ہے جس سے پانی میں غیر محفوظ الکلائن کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس سے یہ آلودہ پانی نہ تو انسانی استعمال کے لئے محفوظ ہے اور نا ہی صفائی کے مقصد سے قابل استعمال رہا ہے۔

اطہر مسعود وانی
03335176429
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614337 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More