قاضی بنام قاضی القضاۃ

فقہ اسلامی کی اصطلاح میں چیف جسٹس کو قاضی القضاۃ کہا جاتا ہے۔ امام ابویوسف تاریخ اسلام میں پہلے شخص ہیں جنہیں قاضی القضاۃ بنایا گیا تھا۔ یقینی طور پر چیف جسٹس کا عہدہ بہت ہی اہمیت و احترام کا متقاضی ہے۔ پاکستان میں چیف جسٹس صاحبان کی تاریخ نہ تو اتنی روشن ہے اور نہ ہی اتنی تاریک۔ اس عظیم منصب پر براجمان کئی افراد نے آئین و قانون کی پاسداری میں اپنا نام منوایا ۔ وہیں پر کئی نظریہ ضرورت کے بانی جسٹس منیر کی طرح بدنامی کے استعارے کے طور پر تاریخ رقم کرگئے۔ماضی قریب میں بابا رحمتا فیم یعنی جسٹس ثاقب نثار نے تو جوڈیشل ایکٹویزم کی انتہا ہی کردی۔ آئین و قانون کی حکمرانی پر یقینی رکھنے والے حلقوں کے نزدیک سب سے سینئر اور نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اک نئی اُمید سحر بن کر سامنے آئے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں دیئے گئے فیصلے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چاہے سال 2015 میں ملٹری کورٹس کا اختلافی فیصلہ ہو یا پھر سال 2017 میں فیض آباد دھرنا کے مقدمہ کا فیصلہ ۔ ان فیصلوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے غیر سیاسی قوتوں کے آئین و قانون کے برخلاف سیاسی و عدالتی کردار پر سوالیہ نشانات اُٹھائے تھے۔ اور تجزیہ کاروں کے نزدیک شاید انہی وجوہات کی بناء پر قاضی فائز عیسیٰ کافی عرصہ سے زیر عتاب ہیں۔ موجود ہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں قاضی فائز عیسیٰ کیساتھ عدالتی فورم میں جس طرح کا ناروا سلوک رواں رکھا گیا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جس کا اظہار قاضی فائز عیسیٰ نے متعدد مواقع پر بھی کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں 9 مئی کے تناظر میں سول افراد کے ملٹری کورٹس کاروائی کے خلاف آئینی پٹیشنز کے تحت ہونے عدالتی کاروائی میں بھی قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک ، پارلیمنٹ اور اعلی عدلیہ کے درمیان ہونے والی کھینچا تانی کا نہ صرف برملا اظہار کیا بلکہ چار صفحات پر مشتمل نوٹ بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کردیا۔بظاہر یہ نوٹقاضی بنام قاضی القضاۃہے۔ اور یہ نوٹ چند منٹس کے بعد ہی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔ یہ نوٹ کس کے حکم کے تحت ہٹایا گیا اس سوال کا جواب قارئین کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ۔اس تحریر میںقاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ میں درج تمام آٹھارہ نکات کا اندارج بہت مشکل ہے بہرحال حوالہ کے طور پر چند نکات کا تذکرہ کیا جائے گا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ عدالت عظمی میں رواج رہا ہے کہ بینچ کی تشکیل اور دیگر امور میں سینئر جج سے مشورہ لیا جاتا تھا اور اسی طریق کار کے مطابق پچھلے چیف جسٹس گلزار احمد چلتے رہے اور متواتر معزز جسٹس عمر عطا بندیال سے نہ صرف مشاورت کرتے تھے بلکہ تقریبا ہر آئینی اور اہم مقدمے میں بینچ کی سربراہی کی ذمہ داری انکو دی یا انہیں بینچ کا حصہ ضرور بناتے۔ تاہم جب سے جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا، تو اس روایت کو ترک کردیا اور نہ صرف مجھ سے، بلکہ اگلے سینئرجج جسٹس سردار طارق مسعود سے مشاورت کے بغیر تمام ضروری معاملات اپنی ہی مرضی سے یا اپنے چنیدہ اہلکاروں کے ذریعے چلائے۔ باقی ججوں کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ اپنے دور منصبی میں ایک بار بھی فل کورٹ یعنی تمام ججوں کی میٹنگ نہیں بلائی مگر مدعیان اور انکے وکلاء کو ترجیح بھی دی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ معزز چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے معزز ساتھی ججوں کو بلاوجہ ایک غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا انکے مطابق سپریم کورٹ کے سربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نہایت احترام سے مجھے یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ عدالت عظمی جیسا آئینی ادارہ کسی فرد واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں بار بار سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کا حوالہ دیا جسکے تحت سپریم کورٹ کے بینچ بنانے کے لئے اس قانون کی دفعہ 2 کا اطلاق چیف جسٹس اور دو سیئنر ترین ججوں پر ہوتا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر حکم امتنائی جاری کیا ہوا ہے۔ نہایت احترام سے مجھے یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ عدالت عظمی جیسا آئینی ادارہ کسی فرد واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض ججوں کے فیصلوں کو رجسٹرار مسترد کردیتے ہیں۔ جیسا کہ رجسٹرار عشرت علی نے 31 مارچ کو ایک سرکلر جاری کیا جس میں قراد دیا کہ ایک فیصلہ جس کا منصف میں تھا نظر انداز یعنی disregard کیا جائے۔ تذلیل کے لئے رجسٹرار نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن، پاکستان بار کونسل اور تمام ایڈوکیٹ آن ریکارڈ سمیت 21 افراد اور اداروں کو اپنے جاری کردہ سرکلر کی نقول بھیج دیں اور یہ کہ سپریم کورٹ کی ہر رجسٹری میں نوٹس بورڈ پر لگایا جائے۔ اسی طرح پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے ملٹری کورٹس کے حوالہ سے ایک ہی طرح کے معاملات میں بطور وزیر اعظم اور بطور اپوزیشن لیڈر انتہائی مختلف انداز کو بھی اجاگر کیا ۔ انہوں نے لکھا کہ اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ موجودہ آئینی درخواستوں سے ملتے جلتے اُمور 26مقدمات عدالت عظمی کے سامنے پہلے سے دائر شدہ ہیں۔جنکے فیصلے ہونا ابھی بھی باقی ہیں۔مقدمات پشاور ہائیکورٹ کے 17اکتوبر 2019کے فیصلے کے خلاف دائر کئے گئے تھے۔ پشاور ہائیکورٹ فیصلہ کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی جب موجودہ مقدمے میں درخواست گزار نمبر 4یعنی عمران خان اُس وقت وزیراعظم کی حیثیت سے وفاقی حکومت کے سربراہ تھے۔ یاد رہے پشاور ہائیکورٹ نے ملٹری کورٹس میں دی جانے والی سزاوں کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلہ کے خلاف عمران خان حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور آج عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر ملٹری کورٹس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کئے ہوئے ہیں۔بطور قانون کے طالب علم قاضی فائز عیسیٰ کا آٹھارہ نکات پر مشتمل نوٹ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.