نوجوانوں کی سیاست

جناب بلاول بھٹو زرداری فرماتے ہیں کہ ہم نفرت اور تقسیم کی سیاست نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اچھے دن شروع ہونے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب بھی ایمپائر کی مداخلت نہیں ہوتی پیپلز پارٹی کلین سویپ کرتی ہے۔ہمیں معاشی اور دیگر چیلنجز در پیش ہیں۔ہمیں سیاست سے نفرت اور تقسیم ختم کرنا ہو گی، بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔ہماری سیاست شخصیات کے خلاف نہیں ہونی چائیے، ہماری منزل ترقی اور خوشحالی ہونا چائیے۔پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ ملک سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ سب کو مل کر کرنا ہو گا۔پاکستان میں قیادت کے لئے نوجوان نسل کو آگے بڑھنا ہو گا۔ نوجوان نسل کا اپنا مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کا وقت آ گیا ہے۔ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے۔ہم نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست کو قبول کیاور نفرت کی سیاست کو مسترد کیا ہے۔ہماری سیاست کا محور لڑائی نہیں ہونا چائیے، ہم ایک ایسی قوم بنانا چاہتے ہیں جوسب کی ہو۔

جناب بلاول بھٹو صاحب کے ارشادات انتہائی خوش آئند ہیں مگر اس پر عمل بہت ضروری ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کسی زمانے میں ایک قومی پارٹی تھی۔ اس کے ممبران بڑی تعداد میں ملک کی ساری اسمبلیوں میں موجود تھے۔ہر صوبے میں کارکن بہت متحرک تھے۔وہ کارکن اب بھی موجود ہیں مگر پیپلز پارٹی کو ایک دفعہ پھر اپنے ان کارکنوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔اگر پارٹی تمام صوبوں میں اپنی تنظیم کی تجدید کرنے اور اپنے کارکنوں کو ایک بار پھر متحرک کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ ایک بڑا کام ہو گاجو بہت مشکل نہیں الیکشن سے پہلے اس کی شدید ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو نوجوان اور ایک متحرک شخصیت کے مالک ہیں ۔ نوجوانوں میں ان کے لئے ایک جاذبیت ہے مگر پارٹی کی تنظیم نو کے لئے ا نہیں ان تھک محنت کی ضرورت ہے۔ کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جو لگاتار محنت کرتے، کارکنوں سے مسلسل رابطہ رکھتے اور ثابت قدم رہتے ہیں۔

لاہور میں مزنگ میرا آبائی علاقہ ہے۔ مجھے اس علاقے کو چھوڑے پچاس سال ہو گئے مگر پھر بھی ایک عادت ہے کہ جب بھی فارغ ہوں، کبھی کبھار وہاں کا چکر لگالیتا ہوں۔ بہت کم لوگ واقف رہ گئے ہیں مگر ان گلیوں اور اس محلے میں جہاں میرا بچپن گزرا ، ایک خاص کشش ہے جو مجھے وہاں کھینچ لے جاتی ہے۔کوئی جاننے والا ہو نہ ہو، وہ راستے ، وہ گلیاں اور بازار تو میرے بچپن کے سنگی ساتھی ہیں ۔ میں ان میں پھرتا، اپنی گزری یادوں کو ذہن میں لاتا اور ان سے لطف اٹھاتا ہوں۔اس لئے میں بس ایک آدھ تسکین بھرا وہاں کا چکر لگاتا ہوں اور واپس آ جاتا ہوں۔ د دن پہلے میں وہاں گیا۔ دور دور تک کوئی واقف نہیں تھا۔ میں اپنے پرانے محلے میں کھڑا تھا کہ پندرہ بیس لڑکوں کا جلوس موٹر سائیکل پر کہیں جا رہا تھا۔ میں نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ یہ بچے کہاں جا رہے ہیں۔ہنس کر کہنے لگا، سارے کھلنڈرے ہیں ۔ کھیل نام کی کوئی چیز میسر نہیں۔ سڑکوں پر آوارگی کریں گے۔بعض ون ویلنگ کے شوقین ہیں ۔ بعض سائیلنسر کے بغیر موٹر سائیکل چلانا قابل فخر جانتے ہیں ،سو سارے اپنا اپنا کام کریں گے اور یہی ان کا شغل ہے ۔ کاش اس علاقے میں کچھ گراؤنڈیں ہوتیں تو یہ اس طرح کے الٹے سیدھے شغل نہ کرتے۔میں یاد کرنے لگا، میرے بچپن میں بڑی وسیع یونیورسٹی گراؤنڈ ہوتی تھی۔پھر اس کے ارد گردد سڑکیں بننا شروع ہوئیں۔پہلے ریواز گارڈن والی سڑک کی توسیع نے اسے کم کیا۔ پھر ہیلی کالج کی طرف توسیع ہوئیتو گراؤنڈ سمٹی۔ لیک روڈ نے بھی یونیورسٹی گراؤنڈ کو نگلا اور آخری رہی سہی کسر میٹرو ٹرین نے پوری کردی۔ اب وہ ایک ننھی منی گراٗونڈ ہے ۔ اپنے اصل رقبے سے آدھی سے بھی کم ،جو بڑھتی آبادی کی ضرورت کے لئے بہت ناکافی ہے۔

ہمارے بچپن میں مزنگ کے گردونواح میں بہت گراؤنڈیں تھیں۔فرید کورٹ ہاؤس جہاں آجکل انٹی کرپشن، بورڈ آف ریونیو، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور بہت سے دفاتر ہیں، کبھی بہت اچھی گراؤنڈ تھی۔ ہم وہاں کرکٹ اور کبڈی کھیلا کرتے تھے۔سٹیٹ لائف بلڈنگ جب زیر تعمیر تھی تو اس کے کچھ حصے میں ریت کے انبار لگا کر تعمیر بہت عرصہ ا لتوا کا شکار رہی۔ ہم اسے ریت والی کوٹھی کہتے اور وہاں پہروں کھیلا کرتے۔ بیگم روڈ کی کوٹھیوں کے پیچھے بہت کھلی جگہ تھی۔ اب عمارتوں کا دور ہے۔ خالی جگہ نظر ہی نہیں آتی۔ذاتی جگہ پر گھر بن چکے جو سرکاری تھیں یا تو حکومتوں نے ان کا حلیہ بگاڑ دیا ہے یا قبضہ گروپ انہیں کسی نہ کسی طرح سمیت گئے ہیں۔آج بچوں کو کھیلنے کے لئے سازگار ماحول اور کھلی گراؤنڈیں میسر ہی نہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما اگر جان جائیں کہ ایک اچھی گراؤنڈ چار ہسپتالوں کا متبادل ہوتی ہے تو وہ یقیناً اپنے اپنے علاقوں میں نوجوانوں کو اچھی گراؤنڈیں مہیا کر یں تاکہ نوجوان اپنی توجہ کھیلوں کی طرف سمیت لیں۔ کھیلیں صحت اور تندرستی دیتی اور آپ کی ہسپتال کی ضروریات کو کم کرتی اور آپ کو بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہیں۔

پنجاب کی حکومت نے چار ماہ کے لئے بجٹ پیش کر دیا ہے۔ یہ بڑا اچھوتا بجٹ ہے۔ باقی سارے صوبوں اور مرکز سے ہٹ کر اس میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں فقط پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جب کہ باقی تمام صوبوں اور مرکز میں یہ اضافی ساڑھے سترہ فیصد ہے۔بزرگ شہریوں کے ساتھ پنجاب حکومت کا یہ طرز عمل کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ویسے وہ وزیر جس کے ذمے اس بجٹ کو پیش کرنا تھا۔ اس قدر کرخت لہجے اور چہرے کا مالک تھا کہ اس سے بہتری کی توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی۔ میں اس کے دو بھائیوں سے کسی حد تک واقف ہوں ۔ ایک جو سیاسی کارکن ہے ، انتہائی ملنسار، مسکراتے چہرے کا مالک ، اور نفیس آدمی ہے۔ دوسرا جو صحافی ہے ، اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہی نہیں شرارت بھی ہوتی ہے۔ مگر یہ تیسرا بھائی شکل اور عقل دونوں طرف سے فارغ ہے ۔ شاید کسی کو ان زندہ مزاروں کا خیال آ جائے تو پنشنر حضرات کی بھی سنی جائے مگر یہ فرق جو صرف پنجاب کے پنشنروں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ جناب محسن نقوی سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں اور پنجاب کے پنشنروں کی پنشن میں بھی اسی حساب سے اضافہ کیا جائے جس طرح مرکز اور دوسرے صوبوں میں کیا گیا ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444245 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More