شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی -( قسط نمبر 33) سکول کی زندگی کا بقیہ حصہ

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

پچھلی قسط میں ریلوے ٹرین پر بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو پکڑنے والوں کے چھاپے کی بات ہو رہی تھی ۔ وہاں موجود سب لوگ اور پولیس والے بھی اس شخص کی حرکتوں پر قہقہے لگا کر ہنس رہے تھے۔ ایک پولیس والے نے پوچھا اگر تمہارے پاس ٹکٹ تھا تو تم بھاگے کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ میں سمجھا کسی اور چکر میں لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے، اس لئے میں بھی جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔
اس لمحے مجھے حضرت شیخ سعدی ؒ کی ایک حکایت یاد آ گئی ۔ آپ ؒ فرماتے ہیں۔ ایک لومڑی گرتی پڑتی بھاگی جا رہی تھی ۔کسی نے اس سے پوچھا۔ اے لومڑی تم پر کیا آفت آپڑی کہ تم اندھا دھند بھاگتی جا رہی ہو ۔ اس نے کہا تمہیں نہیں پتہ۔ وہاں اونٹ کو بیگار کے لیے پکڑا جا رہا ہے ۔ پوچھنے والے نے کہا تمہاری اور اونٹ کی کیا مشابہت ۔ لومڑی بولی ۔اگر وہ مجھے بھی اونٹ سمجھ کر پکڑ لیتے تو اس سے پہلے کہ ان کو پتہ چلتا کہ میں اونٹ نہیں لومڑی ہوں وہ میرا کچومر نکال دیتے۔کچھ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہوا تھا۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میری والدہ ایک ایک پیسہ بچا کراس وقت کے لیے محفوظ رکھتی تھیں، جب ہمارے امتحانوں کے بعد نتیجہ نکلتا اور ہمیں نئی کتابیں اور کاپیاں خریدنی پڑتی تھیں ۔ یہ انہی دونوں کی بات ہے کہ ٹکٹ چیکر نے کچھ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو پکڑ کر لاہور کی حوالات میں بند کردیا اور انہیں کہا کہ اپنے اپنے عزیزوں کا ایڈریس بتا دو تاکہ انہیں تمہاری گرفتاری کی اطلاع دے دی جائے تاکہ وہ لوگ جرمانہ ادا کرکے تمہیں رہا کروا لیں ۔ ایک بغیر ٹکٹ سفر کرنے والا ،واں رادھارام ریلوے اسٹیشن کے گینگ جمعدار کا بیٹا اسلم بھی تھا ، چونکہ واں رادھا رام میں ہم بھی چار پانچ سال رہ کر آئے تھے، اس لیے ان لوگوں سے خاصی جان پہچان تھی بلکہ ان کا چھوٹا بیٹا اشرف کئی دن ہمارے گھر لاہور بھی رہا تھا ۔ جمعدار کے بیٹے نے میرے والد صاحب کا نام پولیس والوں کو بتادیا کہ وہ جرمانے ادا کر مجھے رہا کروا لیں گے ۔جب والد صاحب کو جمعدار کے بیٹے کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو انہوں نے گھر آکر بتایا ۔والدہ نے پوچھا اس کمبخت کو ہمارا ہی نام یاد تھا ۔ہم تو پہلے ہی گردن تک غربت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ والد صاحب نے بتایا کہ اسے 8روپے جرمانہ ہوا ہے ۔ اب یہ رقم دے کر اسے چھڑانا ہی پڑے گا ۔والدہ نے اپنے ٹرنک میں ہاتھ مارا تو وہاں انہیں صرف 8روپے ہی دکھائی دیئے ۔جب میری والدہ وہ 8روپے میرے والد صاحب کو دے رہی تھیں تو ان کی آنکھوں آنسو تھے کہ یہ پیسے میں نے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے بچا کر رکھے ہوئے تھے ۔ بہرکیف والد صاحب نے 8 روپے دے کر جمعدار کے بیٹے کو چھڑوا لیا لیکن وہ 8 روپے والدہ کو زندگی کی آخری سانس نہیں بھولے ۔
....................
جب میٹرک کا نتیجہ نکلا تو دسویں بی کے صرف دو لڑکے پاس ہوئے ۔باقی ساری کلاس فیل تھی۔ کسی کی دو مضامین میں کمپارٹ منٹ تھی‘ توکوئی سات مضامین میں فیل تھا اور کوئی پانچ میں فیل۔ جس دن نتیجہ نکلا ہم نے اخبار بڑے شوق سے خریدا کیونکہ اس وقت نتیجہ اخبار میں شائع ہوا کرتا تھا ۔میرا رول نمبر 25039 تھا لیکن میری نظر 2539 پر جا ٹکی جو سائنس گروپ کے لڑکوں کا رولنمبر تھا ۔ اس رول نمبر والے امیدوار کے نمبر ساڑھے پانچ سو تھے۔ میں اپنے اتنے نمبر دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اپنے والدین کو بھی خوشخبری سنا دی۔ جنہوں نے اردگرد کے لوگوں سے مبارک بادیں بھی وصول کر لیں لیکن اقبال عرف بالی ،جو ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا تھا، وہ اس نتیجے کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نہ تھا ۔اس کا کہنا تھا کہ وہ کبھی پاس ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا باپ بھی رزلٹ کو تسلیم کرنے سے صاف انکاری تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اقبال نے کبھی پڑھائی پر توجہ نہیں دی تھی اور کوئی بھی تعلیمی ٹیسٹ اس نے پاس نہیں کیا تھا۔ میٹرک کے امتحان کے لئے اس کا داخلہ صرف اس لئے بھیج دیا گیا کہ وہ اساتذہ کرام کو خوب کھلاتا پلاتا تھا ۔ ہر دوسرے پیریڈ میں اسے بھوک لگ جاتی تھی۔ اس طرح وہ دن میں کئی بار سکول سے باہر جاتا اور نان چھولے کھا کہ اپنے پیٹ کی آگ بھجاتا تھا۔ رزلٹ تسلیم نہ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس نے بغیر تیاری کے امتحان دے دیا تھا تو پھر کامیابی کی امید کیسے کی جا سکتی تھی۔ اقبال عرف بالی بڑبڑاتا ہوا سائیکل پر سوار ہوکر سکول جا پہنچا وہاں اسے پتہ چلا کہ نہ صرف خود فیل ہے بلکہ ہم جیسے کتنے ہی لڑکے بھی فیل ہو چکے ہیں ۔اس نے سکول سے واپسی پر ہمارے گھر کے دروازہ پر دستک دی۔ میں باہر نکلا ۔مجھے دیکھ کر اس نے قہقہ لگایا اور کہا لودھی تم بھی دو مضامین میں فیل ہو۔ مجھے اس کی بات پر بڑا غصہ آیا ۔ میں نے کہا بکواس بند کرو۔ میں تو پاس ہو چکا ہوں ۔پتہ نہیں تم کہاں سے منہ اٹھا کر چلے آئے ہو ۔
بہرکیف جب ہم سب دوست مل کر سکول جا پہنچے ۔تاکہ صحیح صورت حال کا پتہ کیا جائے۔ وہاں ہیڈماسٹر خاں لطیف خاں صاحب سے ملاقات ہو گئی جو بڑا سا رجسٹر اپنے سامنے کھول کر شاید ہمارا ہی انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے بڑے طنزیہ لہجے میں ہمیں مبارک دیتے ہوئے کہاماشا اﷲ صرف دو لڑکے غلطی سے پاس ہوگئے ہیں باقی سب فیل ہیں۔ سب سے پہلے ہیڈماسٹر صاحب نے جاوید (چٹے) کو بلوایا اس کی سات مضمونوں میں کمپارٹ تھی۔ اقبال کبوتر شاہ پانچ مضامین میں فیل تھا جبکہ میں بھی دو مضامین انگلش اور حساب میں فیل تھا۔ مایوس کن نتیجہ سنتے ہی ہمارے چہرے لٹک گئے ۔اب ہمیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ اپنے والدین کو کس طرح یہ منحوس خبر سنائی جائے کیونکہ وہ تو محلے داروں سے مبارکیں بھی وصول کر چکے ہیں۔ بہرکیف بوجھل قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے گھر پہنچے تو والدین ہمارے لٹکے چہرے دیکھ کر ہی رزلٹ کا اندازہ کر چکے تھے۔ ہمیں بتانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ جب اپنے دیگر ساتھیوں کے گھر پہنچے تو وہ بھی ہماری طرح خوش فہمی کا شکار تھے۔ جن کی خوش فہمیوں کو صحیح نتیجہ بتا کر ہم نے دور کر دیا۔ جہاں کامیابی کے شادیانے بجائے جا رہے تھے ،وہاں ناکامی کے منحوس سائے اترنے لگے۔اقبال غوری اور سوئی گیس والا اشرف بھی فیل ہونے والوں میں شامل تھا ۔مجھ سمیت کچھ لڑکوں نے دوبارہ امتحان پاس کرکے حصول تعلیم کے اگلے دروازے کھول لیے ۔ لیکن زیادہ تر لڑکوں نے انڈر میٹرک کو ہی اپنے لیے کافی سمجھا ۔
.....................
ایک بات جو ہر لمحے میر ے ذہن میں گھومتی ہے ،وہ یہ ہے ( کہ جب سکول کے سامنے کھلے میدان میں سکول کی اسمبلیاں ہوا کرتی تھی تو ہم قطاروں میں کھڑے ہوکر قومی ترانہ سننے کے بعدہیڈ ماسٹر رانا صاحب کی تقریر سنا کرتے تھے۔ جو اکثر یہی بات کہتے کہ تمہی وہ لوگ ہو جنہوں بڑے ہوکر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ۔ جس وقت ہیڈ ماسٹر صاحب یہ بات کہہ رہے ہوتے ۔اس وقت میرے کان تو ہیڈ ماسٹر صاحب کی تقریر کی جانب ہوتے لیکن میرے دل سے ایک آواز اٹھتی اگر ہم نے ہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تو پھر ہمارے ملک کا خدا ہی حافظ ہے ۔ لیکن اب جبکہ میری عمر 70سال کے قریب ہو چکی ہے مجھے ہیڈ ماسٹر رانا صاحب کی ایک ایک بات میں سچائی دکھائی دیتی ہے کیونکہ گلبر گ ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ میں کتنے ہی لوگ ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل ، ایس پی پولیس ،رائٹر ، روٹری کلب کے جنرل سیکرٹری اور ٹھیکے دار بنے اور کئی طلبا نچلی سطح کی ملازمتیں کرکے ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور جنہوں نے کمپارٹنمنٹ کے باوجود حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا وہ اگر زندہ ہیں تو کچھ بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
میرا دوست عتیق ، اقبال کبوتر شاہ ، محمد حسین اور طلعت حسین اس فانی دنیا سے کوچ کر چکے ہیں جبکہ باقی لوگوں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ محمد اشرف‘ اقبال غوری‘ اسلم مکرم‘ محمد اعجاز کھوکھر‘ محمد پرویز‘ بہرام لودھی‘ اشتیاق‘ خالد محمود ، اور محمد اسلم آرائیں زندہ ہیں۔ محمد اشرف اور محمد اسلم آرائیں اب بھی میرا قابل اعتماد دوست ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی بھی لمحے مجھے فراموش نہیں کیا۔یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ میرے کلاس فیلو حسن عباس حال ہی میں 21ویں گریڈ میں گورنمنٹ ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ قیصر اور کوثر کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ اسلم مکرم روٹری کلب کے بعد اپنی ٹریولنگ ایجنسی چلارہے ہیں۔ الفت حسین ایس پی پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوچکے ہیں اور شاید امریکہ میں مقیم ہیں۔ میرے دونوں بیٹے شاہد اسلم اور زاہد اسلم بھی گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہیں۔
گلبرگ ہائی سکول اس تعلیمی ادارے کا نام ہے جس نے 1960ء سے آج تک لاکھوں نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے ملک و قوم کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لئے تیار کیا۔ آج اگر زندگی کے ہر شعبے میں گلبرگ ہائی سکول کا کوئی نہ کوئی طالب علم موجود ہے تو اس کا کریڈٹ نہ صرف اس تعلیمی ادارے کو جاتا ہے بلکہ شیخ محمد عارف اور شیخ محمد خالد بھی اتنی ہی تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے اس سکول کی بنیاد رکھی۔ اگر آج سرسید احمد خاں کو دنیا اس لئے یاد کرتی ہے کہ ان کے تعلیمی ادارے سے پڑھنے والے بچوں نے بڑے ہو کر قیام پاکستان کا کارنامہ انجام دیا تو اس ملک کو اقتصادی‘ صحافتی‘ سیاسی اور مذہبی اعتبار سے مضبوط بنانے میں گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ کا کردار بھی کسی دوسرے تعلیمی ادارے سے کم نہیں۔ بے شک آج یہ تعلیمی ادارہ حکومتی تحویل جا چکا ہے لیکن اس ادارے کے بانیوں اور اس میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کرام کی تعلیمی خدمات کو کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔مجھے گلبرگ ہائی سکول لاہو ر کینٹ کو چھوڑے 53سال گزر چکے ہیں لیکن جب بھی وہاں سے گزرتا ہوں تو سکول کے درو دیوار مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں ۔ مجھے اپنے بچپن کی خوشبو وہاں سے آنے لگتی ہے۔ بے ساختہ جی چاہتا ہے کہ میں ایک بار پھر بستہ گلے میں ڈال کر سکول پہنچ جاؤں اور ہر امتحان میں کامیابی حاصل کرتا چلا جاؤں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اب میں بچہ تو نہیں رہا‘ معاشرے کا ایک ذمے دار شہری بن چکا ہوں بلکہ اپنی حقیقی زندگی میں بھرپور طریقے سے قدم رکھ چکا ہوں۔ میں اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے ملک و قوم کی جو خدمت کررہا ہوں۔ اس کا کریڈٹ بلاشبہ گلبرگ ہائی سکول اور اس کے قابل احترام اساتذہ کو بلاشبہ جائے گا۔ جس نے مجھے زیور تعلیم سے آراستہ کیا‘ مجھے بہتر سوچنے اور سمجھنے کی قوت بخشی‘ میرے شعور کو بیدار کیا۔ وہ اساتذہ کرام جن سے میں نے تعلیم حاصل کی۔ ان کی محبت اور شفقت کو میں زندگی بھر بھلا نہ پاؤں گا۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.