“ سندھ کی پہلی بندرگاہ کیٹی بندر “

کیٹی بندرگاہ جو کبھی سندھ کی بندرگاہ کہ طور پر استعمال ہوتی تھی 1905 تک یہ بندرگاہ مال و تجارت کے طور پر استعمال ہوتی رہی یہ کیٹی بندرگاہ کراچی سے تقریبا دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے مگر ماحولیاتی کی تبدیلی اور سرکاری اداروں کی عدم توجہ سے آج یہ کیٹی بندر جو موئن جو دڑو کا نقشہ پیش کررہی ہے . اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا ڈیلٹا تیزی سے زیر سمندر آرہا ہے. مگر صوبائی انتظامیہ اس قدیم ورثہ کو بچانے کی آج تک کوئی کوشش نہیں کر پارہی ہے آج سے ڈیڑھ سو برس قبل ایک ایسی بندرگاہ، جہاں ایک ہی وقت میں سینکڑوں کشتیاں لنگر انداز ہوں، جہاں بینک ہو، کسٹم آفس ہو اور میونسپلٹی انتہائی مستحکم حالت میں اپنا کام سرانجام دئے رہی ہو جہاں سے ہزاروں ٹن چاول، سوکھی مچھلی اور

دیسی گھی دوسرے شہروں کو روانہ کیا جاتا تھا کیٹی بندر گھارو سے 120 کلومیٹر کی مُسافت پر واقع ہے۔ کبھی کیٹی بندر کے راستے میں دونوں طرف لہلہاتی ہوئی ہواؤں سے جھوم تی ہریالی ، بڑے بڑے لمبے سایہ دار درخت کی قطاریں ان درختوں پر چہکتے مختلف قسم کے پرندے ایک درخت سے دوسرے درخت پر جھومتے ہوئے نظر آتے تھے ، اکثر کیٹی بندر کے لوگ زمین میں پان کی فصل کی کاشت کاری ہی پر اکتفا کرتے تھے.

بیشتر چھوٹے بڑے قبیلہ کی کچی چار دیواریاں ان میں چھوٹی بڑی جھونپڑیاں ، بڑے بڑے پولٹری فارمز کے شیڈ بنے ہوئے ہوتے تھے بیشتر راستہ میں نظر آتے تھے پھر معلوم نہیں اس بندرگاہ اور ادھر کے باسیوں کو نہ جانے کسکی نظر لگ گئی پھر بتدریج ہر وہ چیز ختم ہوتی جارہی ہے جو کبھی لہلاتی ہوئی ہریالی نہ جانے اب کہاں گمُ ہوگئی ، گھنے اور لمبے درختوں کا وجود نہیں فصلوں کا نام و نشان تک نہیں، کہیں کہیں 'پان' کے پتوں کے فارم تھے اور نازک تھے اس لیے ان کو دھوپ سے بچانے کے لیے ڈھانپے وئے تھے ۔ کسی کسی جگہ پر کچھ فارمی مرغیوں کے فارم کا وجود تھا مگر فارمی مرغیاں بھی نازک تھیں اس لیے ان کو بھی ڈھانپ دیا گیا تھا کہ دھوپ کی وجہ سے بیمار نہ پڑ جائیں۔ راستے میں چھوٹے بڑے گاؤں تھے اب ان میں سے اکثر ویران ہو چکے تھے اور کچھ ویران ہونے کی قطار میں لگے ہوئے تھے۔ کیٹی بندر سے پہلے وہ قدیم قبرستان بھی جو گائے بگائے کچھ دہائیوں پہلے قصے کہانیوں میں اس کا زکر سننے میں آجاتا تھا جن پر اب سمندر کے شوریدہ پانی کا ڈیرہ ہے۔

کچھ پیلے مٹی سے اٹے پتھر اور سرخ بوسیدہ کچی اینٹوں کے واضع نشانات سے معلوم ہوتا تھا کہ یہاں بھی کسی زمانے میں قبرستان تھے۔ مقامی درختوں کے جنگل جو اب بھی مسلسل کیٹی بندر کے باسیوں کے ہاتھوں کٹ رہے تھے جو اپنے دو وقت کی روزی روٹی کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا ذخیرہ کررہے تھے۔ کیٹی بندر کے باسی غربت میں جکڑے ہوئے لوگ درخت کاٹ کر بھٹیوں میں ڈال کر کوئلہ بنا رہے تھے اور آنے والی سردیوں کے لیے کوئلہ ( ذخیرہ )کا بندوبست کرتے نظر آتے تھے۔ بھٹیوں سے متواتر گاڑھا دھواں اٹھتا جو دیر تک فضا میں کیٹی بندر کے باسیوں کی زندگی پر آنسو بہاتا نظر آتا ہے . میٹھے پانی کی کمیابی شدید تر اور سمندر کے آگے بڑھنے سے مقامی جنگلی حیات کو ایسا شدید نقصان ہوگیا اور ابھی تک ہورہا ہے جس کا ازالہ شاید کئی دھائیوں تک اس کا ازالہ نہ ہوسکے۔

مقامی جانور اور ان فضاﺅں سے روٹھے ہوئے پرندے شاید طوفان سے پہلے کے اشارے بھانپ گئے تھے اور یہاں سے کہیں دور جا بسے۔ پرندوں کی نسلیں جو سیکڑوں برسوں سے ان جنگلوں اور آب گاہوں میں چہچاتیں تھیں ان کی مدھم اور تیز اُڑان ایک شاخ سے دوسری شاخ پر بیٹھنا کبھی یہاں کی صبح کا حسن چڑیوں کی چہچہاہٹ، کبوتر کی غٹرغوں، کوے کی کائیں کائیں اور مینا و بلبل کے سریلے گیتوں کی مُدبھری رسیلی آوازوں کی گونج سے پورا کیٹی بندر لطف اندوز ہوکر اپنے اپنے کام میں جھٹ جاتا تھا وہ یا تو بڑی حد تک ختم ہو چکی تھیں یا اپنے اپنے آخری شب و روز بڑی ہی بے بسی میں یہاں زندان میں گزارہی تھیں۔

اکثر مقامی لوگوں کی خواتین کے ہاتھوں میں پانی کے خالی برتن یا مٹکے تھے وہ راستے پر کھڑے پانی کے اس چلتے پھرتا کنواں (ٹینکر )کا انتظار کر رہی تھیں، جو شہر سے آنے والا تھا اور گیلن کے حساب سے ان کو پانی بیچتا تھا. ماضی کا وہ پرانا شہر اور بندرگاہ جس کی آبادی کبھی ہزاروں میں تھی وہ اب سُکڑ کر ایک چھوٹا سا اکائی قبیلہ بن گیا ہے کیونکہ جب کیٹی بندر( ان کے لیے آج کا منگول بن گیا) میں ان کو دینے کے لیے کچھ نہیں جنگل و کھلیان میں سبزہ نہیں میٹھا پانی دستیاب نہیں، فضاؤں میں وہ اپنائیت نہیں, جب زندگی میں وہ رمق نہیں ، رہنے میں وہ مستقبل نہیں تو بیشتر قبیلوں کے باسیوں نے کمر کسی اور پھر آنے والی نسلوں کی زندگی بنانے کے لیے ہجرت کی جہاں انہیں کچھ روشنی کی کرن نظر آئی کراچی کا آدھا ابراہیم حیدری، ریڑھی میان، اور ماہیگیروں کی جو چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں، وہ سب کیٹی بندر سے آکر بسے ہیں۔

جب ادھر کے باسیوں سے کیٹی بندر کے ماضی کی باتیں کرتے ہیں، تو ھا جب چہرہ انسان کی کسی کیفیت کو نہیں چھپاتا جس طرح جب دل کے اندر درد کے قبرستان میں کسی نئے درد کی قبر بنتی ہے تو آنکھوں سے نمکین پانی اس درد کی کیفیت کو عیاں کردیتا ہے۔ تو ان کے الفاظ اور آنکھوں میں ماضی کے دنوں کی خوبصورتی، کسی کنول کے پھول کی طرح تیر سی جاتی ہے اور لفظوں سے دھان کی فصلوں کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ کیٹی بندر کی گلیوں میں پراسرار خاموشی کے کانٹے اگتے ہیں، جس طرح ہر بندرگاہ کو کچھ سال بعد ڈریجنگ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی گہرائی برقرار رکھی جا سکے، اس طرح کیٹی بندر کو بھی تھی، لیکن ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے اور صوبائی انتظامیہ نے مٹی (siltation) کو نکالا نہیں جس کی وجہ سے پہلا کیٹی بندر ناقابلِ استعمال بنا۔ اسی طرح سے پھر دوسرا کیٹی بندر بھی استعمال کے قابل ہی نہ رہا، تو تیسرا کیٹی بندر بنایا گیا۔ موجودہ کیٹی بندر جو اب تک سانسیں لے رہا ہے وہ اس پشتے کی وجہ سے، جو بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں بنوایا گیا تھا، اور کچھ برسوں کے بعد جب یہ پشتہ سمندر کی طاقتور لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکے گا تو تیسرا اور شاید آخری کیٹی بندر بھی اپنے وجود مشکل سے ہی بچا سکے گا۔

جب کسی مقامی لوگوں سے پوچھو۔ وہ ماضی کے لیے تو زیادہ نہ بولتے البتہ موجودہ دنوں کے متعلق وہ خوب بولا، "پہلے کا تو پتہ نہیں پر اس وقت بھی یہاں چار سو سے زائد چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں جن سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے، ہمارے یہاں خشکی پر بھی گاؤں ہیں اور اندر سمندر میں جزیروں پر بھی۔ کماتے ہیں اور کھاتے ہیں بس وقت کٹ رہا ہے۔"یہاں جو نہریں ہیں ان میں اوپر سے میٹھا پانی آتا نہیں ہے، ادھر تقریبا مختلف گاؤں میں ’دین سے ٹھٹہ، جاتی اور کیٹی بندر تک چھوٹی بڑی 70 سے 80جھیلیں تھیں۔

یہ 80ء-1970ء کی دہائی کی بات ہے۔ سب ٹھیک تھا، پھر ایل بی او ڈی کا سیم نالہ اس طرف آگیا۔ اس نے سمندر کو یہاں کا راستہ دکھا دیا۔ بارشیں اگر زیادہ ہوتیں تو اس کے پشتوں میں شگاف پڑجاتے اور گاؤں کے گاؤں ڈوب جاتے اور ہم نہروں کے کنارے جاکر بس جاتے۔ یہ کیفیت بارش کے ان دنوں میں ہوتی جب بارشیں زیادہ پڑتی تھیں۔ مگر پھر ایک ڈیڑھ ماہ میں حالات بہتر ہوجاتے۔ تب ہی تو زمینیں بھی برباد ہوگئی ہیں۔ کوئی فصل نہیں ہوتی اب۔ روز یہاں پانی کے دس پندرہ ٹینکر آتے ہیں، جس کی جتنی سکت ہو، اتنا خرید لیتا ہے۔"یہ وہ ہی جگہ ہے جس کے متعلق 'مسٹر ہڈسن' جس نے کمشنر آف سندھ کو اس علاقے کی 'ریسیٹلمنٹ سروے رپورٹ 1905 میں پیش کی تھی، جس میں تھا کہ، "1848ء سے یہ شہر درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے، یہ اناج کی مشہور منڈی ہے۔

یہاں سے کراچی، کچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات تک اناج جاتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو سارے سندھ میں دھان کی فصل اور اس کے مختلف اقسام کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہاں تک کہ فصل کاٹنے کے لیے مقامی لوگ کم پڑتے تو ملتان سے لوگ آتے یہاں دھان کی فصل کاٹنے، مگر جب سے ڈیم بننے شروع ہوئے، میٹھے پانی کو ان ڈیموں میں قید کردیا گیا، تو میٹھے پانی کی شدید کمی کی وجہ سے ایگریکلچر بھی برباد ہوکر رہ گیا اور کیٹی بندر ۔ دکھوں کی فصلیں ہر جگہ اُگ جاتی ہیں کہ دکھوں کے بیج نہیں ہوتے، بس وہ اُگ پڑتے ہیں۔ زمانے کی تکالیف اور آنکھوں سے بہتا نمکین پانی ان کے لیے زرخیزی کا باعث ہوتا ہے اور درد کی یہ فصلیں کاٹتے کاٹتے لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔آہ یہ مشینی زندگی کی بھاگ دوڑ اور مصروفیت میں ہمیں احساس بھی نہیں رہا کہ ہم نے اپنا یہ قیمتی ورثہ کہلو یا سرمایہ ہم نے کہیں گنوا دیا ہے۔

انجنئیر ! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجنئیر ! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجنئیر ! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 84157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.