"معاشرے میں انصاف تبلیغ اور تعلیم سے نہیں آتا"


عدل دراصل کسی شے کو اس کے محل اور مناسبت والی جگہ پر رکھنے کو کہتے ہیں۔اس کہ برعکس ظلم کسی شے کا اس کے برمحل جگہ سے ہٹا ہوا ہونا ہے۔

عدل و انصاف کسی بھی انسانی معاشرے کی بقا کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے جسم میں خون - اگر جسم میں خون نہ ہو تو وہ سواۓ ایک گوشت کے ڈھیر کے کچھ نہیں۔ کچھ ایسی ہی مثال انصاف سے عاری معاشرے کی بھی ہے - اس معاشرے میں پھر جنگل کا نظام ہی نظر آتا ہے " گویا جس کی لاٹھی اس کی بھینس" ، جس طرح طاقت ور جانور کمزور جانور کو اپنی خوراک بنالیتے ہیں ایسے ہی انصاف سے عاری انسانی معاشرے میں طاقت ور دوسروں کا حق چھیننے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے
-

عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے۔اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتا بلکہ ظلم و جبر اور دہشت و درندگی کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ عدل و مساوات کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔حقیقت میں عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جب یہ کسی قوم کا مجموعی مزاج بن جائے تو پھر انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی عروج حاصل ہوتا اور آخرت کی کامیابی و کامرانی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔

جن معاشروں میں اس گوہرِگراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے، اللہ کے بندوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ وہ قومیں رو بہ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔

( یورپ میں پانچ سو سال پہلے ایک سچا واقعہ جس کے بعد کافی عرصہ تک عدلیہ میں جانشین مقرر کے لیے باضابطہ میریٹ پر ہونے لگے ) فیصلہ سنانے سے پہلے بادشاہ نے معزول جج سیسمونیس سے پوچھا کہ وہ کسے اپنا جانشین نامزد کرنا چاہیں گے۔ اس وقت سیسمونیس نے ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لالچ سے اپنے بیٹے اوٹینیس (اوٹینیس) کا نام تجویز کیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بادشاہ نے بھی اس کی تجویز قبول کر لی اور اپنے بیٹے اوٹینیس کو جج سیسمونیس کی جگہ پر مقرر کر دیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے فیصلہ دیا کہ ’’جج سیسمینس کو اس کے پورے جسم سے زندہ کھال اُتار دی جائے اور وہ کھال جج کی کرسی پر رکھ دی جائے جس پر اس کا بیٹا، نیا جج، عدالت میں بیٹھے گا تاکہ وہ اس کی موت نہ ہو۔ ہر وقت فیصلہ کیا جاتا ہے۔" نتائج کو یاد رکھیں

“ظالم جج کا انکشاف" (نظام شیخ) مسیح سے پانچ سو سال پہلے، فارس کے بادشاہ کیمبیسز (کیمبیسس II) کے دور میں، ایک بدعنوان شاہی جج سیسمنیس (سیسمنیس) تھا جس نے خاندانی عدالت میں جرم کیا اور غیر منصفانہ فیصلہ دیا۔ نتیجتاً بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے معزول کر کے اس کے سامنے لایا جائے۔ فیصلہ سنانے سے پہلے بادشاہ نے معزول جج سیسمانیس سے پوچھا کہ وہ کسے اپنا جانشین نامزد کرنا چاہیں گے۔ اس وقت سیسمونیس نے ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لالچ سے اپنے بیٹے اوٹینیس (اوٹینیس) کا نام تجویز کیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بادشاہ نے بھی اس کی تجویز قبول کر لی اور اپنے بیٹے اوٹینیس کو جج سیسمونیس کی جگہ پر مقرر کر دیا۔

معاشرے میں انصاف صرف تبلیغ اور تعلیم سے نہیں آتا، پھر اس کے لیے نظم و ضبط اور سزا اور بعض اوقات ناپسندیدہ مثالیں قائم کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔) آج بھی اس تصویر کے پوسٹرز بیرون ممالک میں غیر منصفانہ عدالتی فیصلوں کے خلاف مظاہروں میں لیے جاتے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اس تصویر کے پوسٹرز اٹھانے پر مظاہرین کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے! معاشرے میں انصاف صرف تبلیغ اور تعلیم سے نہیں آتا، پھر اس کے لیے نظم و ضبط اور سزا اور بعض اوقات ناپسندیدہ مثالیں قائم کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

یہ واقعہ 1498 عیسوی میں ایک مصور جیرالڈ ڈیوڈ نے درج ذیل پینٹنگ میں کھینچا تھا، جس کا عنوان The Flaying Of The Corrupt Judge تھا، جو ابھی تک Bruges، Belgium کے Groeninge میوزیم میں لٹکا ہوا ہے۔ دائیں کونے میں نئے جج کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کرسی اپنے جسم کی کھال سے ڈھانپ کر فیصلے کرتی رہی، جس کے لیے کہتے ہیں کہ نہ صرف اس نے بلکہ اس کے بعد کسی جج نے ناانصافی پر مبنی فیصلے نہیں دیے! آج بھی اس تصویر کے پوسٹرز بیرون ممالک میں غیر منصفانہ عدالتی فیصلوں کے خلاف مظاہروں میں لیے جاتے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اس تصویر کے پوسٹرز اٹھانے پر مظاہرین کو توہین عدالت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے!

اس کے بعد بادشاہ نے فیصلہ دیا کہ "جج سیسمینس کو اس کے پورے جسم سے زندہ کھال اُتار دی جائے اور وہ کھال جج کی کرسی پر رکھ دی جائے جس پر اس کا بیٹا، نیا جج، عدالت میں بیٹھے گا تاکہ وہ اس کی موت نہ ہو۔ ہر وقت فیصلہ کیا جاتا ہے۔" نتائج کو یاد رکھیں
اس کی ایک پینٹینگ بیلجیئم کے ایک عجائب گھر میں لٹکی ہوئی ہے . جس کو دیکھنے کے لیے سیاح حضرات دور دراز ممالک سے آتے ہیں اور اس کو دیکھ کر اپنی حیبت بیان کرتے ہیں ، اس تصویر کو جس میں ایک آدمی میز پر منہ کے بل لیٹا ہے جب کہ دوسرے افراد تیز دھار آلات سے اس کے جسم کی جلد کو چھیل رہے ہیں

یہ سچا واقعہ اس مشہور تصویر کا پس منظر ہے جو کہ پانچ صدیوں سے زیادہ پرانی آج بھی بیلجیم کے عجائب گھر میں لگی ہوئی ہے جو بھی سیاح ووزٹ کے لیے بیلجیم جاتے ہیں. اس عجائب گھر ک ووزٹ ضرور کرتے ہیں اور واپسی میں اپنے اپنے ملکوں میں پانچ دہائی قبل اس عدالتی پس منظر کی تصویر کو اپنی اپنی مختلف انداز میں انصاف پر مبنی فیصلوں پر اپنا اپنا نقطعہ نظر پیش کرتے ہیں .
ہم مسلمان ہیں ہمارے اسلام میں سب سے زیادہ زور جو دیا گیا ہے وہ ہے ہی عدل پر جب آپ عدل سے فیصلے نہ کرسکو گے تو پھر ملک اور عوام کی حالت ایک بیمار معاشرے کی طرح ہوجاتی ہے. اور آہستہ آہستہ یہ تباہی اچھے خاصے ملک اور عوام کو پستی کی طرف دھکیل دیتی ہے. اور وہ قوم اپنی تباہی کا راستہ خود منتخب کرلیتی ہے.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.