خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا “


ہمارے حکمران چاہے آئی ایم ایف سے قرضہ لیکر عوام کو خوش خبری کی نوید سنائے کہ اب ملک کو معاشی بحران سے نکال کر اسے صیح ٹریک پر لیجائینگے. جب سے حکمران اتحاد نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے پورے ملک میں مایوسی ، افراتفری، فرسٹریشن، ڈپریشن و بلڈپریشر کا شکار ہر دوسرا پاکستانی اس میں مبتلا ہے. پاکستانی متوسط طبقہ اور لوئر کلاس اب بھی یہ اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ شائد آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پر اب ملک کی تقدیر بدل جائیگی وہ اس ہی آس پر ابھی تک بیٹھا ہے کہ شاید آئی ایم ایف کے قرضہ ملنے سے کچھ عوام کو ریلیف مل جائے جبکہ آئی ایم ایف کے قرضہ سے عوام کے لیے کوئی ریلیف آئی ایم ایف کے معاہدے میں نہیں ہوتا.
پاکستان کے حکمراں کئی دہائیوں سے قرضہ لے رہے مگر اس قرضہ کا اگر تھوڑا سابھی خاندانی منصوبہ بندی ( فیملی پاپولیشن ) پر لگادیتے تو آج اس ملک کی آبادی میں ہجوم کی طرح اضافہ نہیں ہوتا اور اگر جو افرادی قوت پہلے کبھی کسی ملک کے لیے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی تھی اب وہ ہی ہتھیار دنیا کے لیے درد سر بنتا جارہا ہے ان ملکوں میں پاکستان کا شمار بھی ہوتا ہے یعنی پاکستان کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اس سے باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سال پاکستان کی آبادی میں تقریبا 30 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے. یعنی پاکستان کی آبادی میں ہر آٹھ سیکنڈ بعد ایک بچہ پیدا ہو رہا ہے۔
پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951ء میں کی گئی تھی پہلی مردم شماری کے حساب سے اس وقت پاکستان کی آبادی 75 ملین تھی جو مغربی اور مشرقی پاکستان کی مجموعی آبادی تھی لیکن اب پاکستان کی آبادی چھ گناہ بڑھ چکی ہے ۔پاکستان کی مجموعی آبادی کا تخمینہ 22 کروڑ 9 لاکھ ہے جو تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 2035 میں آبادی 28 کروڑ 72 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں ہر جوڑے کی سالانہ 3.6 بچوں کی شرح تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے زیادہ آبادی زیادہ محرومیوں اور انسانی حقوق کی زیادہ پامالیوں کا باعث بنتی ہے دانشمندی اس ہی میں ہے جتنے وسائل دستیاب ہیں اُس ہی کی مناسبت سے ہی انہیں بڑھایا جائے تاکہ ہر کسی کے انسانی حقوق کی تکمیل ممکن ہو لیکن ( پاکستان کے مقابلے میں دیگر اسلامی ممالک نے افزائش آبادی کو قابو میں لانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں ہمارے خطے میں ہی واقع بنگلہ دیش اور ایران خاص طور پر قابل ذکر ہیں)۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو سنہ 2046 میں یہ دو گنا ہو جائے گی جس سے بے روزگاری میں مزید اضافے اور رہائشی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل بھی گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2040 تک بارہ کروڑ مزید نوکریوں کی ضرورت ہوگی۔ 85 ہزار مزید پرائمری اسکول بنانے ہونگے اور ایک کروڑ نوے لاکھ اضافی مکانات تعمیر کرنے ہونگے۔ اس طرح صحت کے شعبے میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب خوراک کا معاملہ ہے.

پاکستان میں توانائی یا خوراک کی کمی کا سبب آبادی نہیں بلکہ حکومت کی غیر مناسب پالیسیاں ہیں کیونکہ اس آبادی کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا۔ اگر کرہ ارض پیدا ہونے والی خوراک کی منصفانہ تقسیم کی جائے تو پچیس ارب سے ذیادہ انسانوں کیلئے کافی ہوگی، اور سائنس کی ترقی، اور نت نئے زراعی آلات و مصنوعات کی سالانہ مقدار بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں کہ انسان کو کم ازکم مستقبل قریب میں بھوک و قحط کا کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیئے۔ آخر پھر وہ کیا وجہ ہے کہ آبادی کے پھیلاؤ سے کیوں خوف میں دنیا مبتلا ہورہی ہے ؟

درحقیقت وسائلِ فطرت کو اپنی اصلی حالت میں ایک مخصوص وقت درکار ہوتا ہے کہ وہ زمین پر آباد جانداروں کی ضروریات کو پورا کرتے رہیں، مگر روزمرہ کی بنیاد پر انسانوں کی بڑھتیبادی، فطرت کو اس کی سانسیں بحال کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کا کام دے رہی ہے، آبادی میں اضافہ فطرت کی تباہی کا سامان ہے،بالخصوص ہوا، زمین اور پانی کے ذخائر کی آلودگی، زمینی فطرت کی نبضوں پر بندِ آہنی ثابت ہو رہے ہیں۔ فطرت اس زمین پر طاقتور ترین شے ہے، اور اپنے خلاف ہر اٹھتی ہوئی قوتّوں پر قابو پانا خوب جانتی ہے، روزمرہ بنیادوں پر سینکڑوں ایسے میکانزم ہیں جو فطرت کی صحت کو بحال رکھنے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، مگر تہذیبی ترقی نے ایک طرف جن سہولتوں کو انسان کیلئے لازم قرار دیا ہے، دوسری طرف انہی سہولتوں کی فراہمی ، فطرت کی آلودگی کا باعث بنی۔ پانی کے ذخائر، ہوا اور زراعی زمینیں اس آلودگی سے خود کو پاک کرنے کی فطری صلاحیت رکھتی ہیں، مگر اس کیلئے انہیں وقت درکار ہے، اور ہماری تعداد و مطالبہ جات اتنے ہیں کہ فطرت کو اپنی بحالی کیلئے وقت نہیں مل پارہا ہے ، بڑھتی آبادی کا خطرناک ترین پہلو یہی ہے، باقی نقصانات صرف تفصیلات کے زمرے میں آتے ہیں۔ آبادی کنٹرول کرنے والے ممالک اب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں جبکہ زیادہ آبادی والے نہ صرف پسماندگی کا شکار ہیں بلکہ دوسرے ممالک پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ غربت آبادی پر سبقت لے گئی۔ غربت کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔غربت میں اضافے کے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں، کیونکہ زیادہ بچے پیدا کر نے کے بعد ہمیں مزید وسائل درکار ہوں گے ۔ اب بھی وقت نہیں گزرا ہمارے حکمرانوں کو پہلے سے موجود اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے بڑے شہروں کو مزید پر کشش بنانے کے بجائے نئے شہر بسانے ہوں گے، اور یہ تو ہمارے پیارے نبی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بھی کہا کہ ہر نیا شہر KM200 کے بعد نئے شہر بناؤ تاکہ تم ان کو سنبھال سکو۔

اب بھی وقت ہے حکمرانوں کو ان قصبوں اور دیہات میں مواقع پیدا کرنے ہوں گے جہاں ترقی کی رفتار سست ہے۔ تاکہ کوئی بھی علاقہ وسائل کی کمی کا مزید شکار نہ ہو۔ پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کے لحاظ سے دینا کے تین سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ سنہ 1951 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں فی کس 5300 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو سنہ 2017 میں گھٹ کر محض 860 مکعیب میٹر رہ گیا ہے۔ منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ملک کی زرخیز زمینوں پر بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔ ان میں وہ سرکاری ادارے بھی شامل ہیں جنہیں ان کو اس پر روک لگانا تھیں. وہ بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کیونکہ اس ملک میں کوئی باس پُرس تو ہے ہی نہیں ، دنیا کے تمام ترقی یافتہ شہروں کی انتظامیہ نے اپنے میٹروپولیٹن علاقوں کو نہ صرف باقاعدہ وضع کر رکھا ہے۔

لندن جیسے پرانے شہر کے گزشتہ 50 سال سے زائد عرصے سے 32 لوکل ڈسٹرکٹ اتھارٹیز ہیں اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ( جبکہ پاکستان کہ ہر حکمرانوں نے کراچی میٹرو پولیٹن شہر میں اپنے مفادات کے لیے اس میٹرو پولیٹن شہر کا حلیہ بگاڑ کہ رکھ دیا ) پہلے ہی پانی کی کمی کے لحاظ سے دینا کے تین سرفہرست ممالک میں شامل ہے ۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر اربنائزئشن کو منصوبہ بندی کے تحت ریگولیٹ نہیں کیا گیا تو اس سے نہ صرف کھیت کھیلان متاثر ہوں گے۔ بلکہ دیگر ماحولیاتی اثاثے جیسے کہ پانی، جنگلات، نیشنل پارکس اور دیگر علاقے متاثر ہوں گے۔ ان سرکاری اور پرائیوٹ اداروں کو ان کے سرمائے کا منافع تو بے تحاشہ مل رہا ہے۔ البتہ اس کی قیمت پاکستان کے عوام چکارہی ہیں اور آنے والی نسلیں اس کے اثرات سے زیادہ متاثر ہوں گی. آبادی میں اضافہ ٹريفک کے ان گنت مسائل کو بھي جنم ديتا ہے۔ زیادہ آبادی کے لحاظ سے کہیں بھی سروسز پہنچانا مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔

مثال کے طور پر پانی یا سیوریج کی ایک کلومیٹر پائپ لائن سے پہلے سو گھروں میں پانی کی ترسیل ہو تی تھی آبادی بڑھنے سے اسی پائپ لائن پر ایک ہزار گھروں کو پانی پہنچانے کا بوجھ پڑ گیا ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے ذرعی زمینیں ہاوسنگ کالونیز میں تبدیل ہو رہی ہیں جس کے باعث دیہی علاقے شہر سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی راہ میں اہم رکاوٹ دیہی خواتین کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کا فقدان ، گزٹیڈ آفیسر پر نااہل سیاسی افسران کی بھرتی ، بیشتر عملہ غیر حاضر اور جو حاضر وہ حاضری لگا کر غائب، فنڈ میں خردبرد اور رسائی میں رکاوٹیں ہیں۔ حکومت کو خاندانی منصوبہ بندی کو ٹھوس اور مربوط انداز میں مرکزی دھارے میں لانا ہوگا۔ اس ضمن میں دوردراز علاقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولتوں کے فقدان، عملے کی کمی اور انفاسٹرکچر کی ضرورتوں پر کام کیا جائے اور ان سہولتوں سے متعلق آگاہی کے فقدان کو عوامی مہم کے ذریعے دور کیا جائے تاکہ بڑھتی ضرورتوں کی تشفی ہو۔

لیکن فی الحال آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ ہماری انسانی ترقی کے معیارات کو پست کرتا جا رہا ہے. ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کی کم تر کامیابی کا ایک تعلق سیاسی بھی ہے کیونکہ حلقوں / برادریوں کی زیادہ آبادی کا مطلب ہے زیادہ ووٹ اور پاکستانی انتخابات میں برادری ازم کا ووٹ کامیابی کا سب سے بڑا محرک مانا جاتا ہے. حالیہ برسوں میں پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام سیاسی انتشار کے نتیجے میں نظرانداز اور مستقل پالیسی میں تبدیلیوں کی وجہ سے ناکام رہا ہے۔ ہمیں فوراً خاندانی منصوبہ بندی کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں باقاعدہ فیملی پلاننگ کی کمی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی سمت درست نہیں۔ فیملی پلاننگ سے متعلق ناقص اقدامات کی وجہ سے فیملی پلاننگ میں 34 فیصد کمی آئی جو گزشتہ برس 35 فیصد تھی۔ ملک کی 75 فیصد آبادی فیملی پلاننگ سے آگاہ ہے جس میں 50 فیصد خواتین شامل تھیں لیکن بہتر خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے طے کردہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے میڈیکل کالجوں کی طالبات کے لیے باقاعدہ ورکشاپس اور سمینارز کرانے چاہئیں۔ محکمہ بہبود آبادی کے ملازمین اور افسران کے گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کے انکشاف اکثر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں آتے رہتے ہیں اس سے ان کی کارگردگی کیا رنگ لائیگی. شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑے کو خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے کاؤنسلنگ کی سہولت بھی فراہم کی جائے. غریب خاندانوں میں فیملی پلاننگ کی حوصلہ افزائی کے لیے مراعات دیں جائیں. جن علاقوں میں بہبود آبادی کے مراکز نہیں ہیں وہاں موبائل سروس یونٹس اور ایکسٹینشن کیپمس کا انعقاد کیا جائے تاکہ لوگوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جا سکے۔ تمام نجی و سرکاری ہسپتال خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات و سہولیات بہم پہنچانے کے پابند کیا جائے اور جو سہولت سے انکاری ہو اُن پر جرمانے لگائے جایں. آبادی میں کمی لانے کے لیے علما کے کردار کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے علما کو بھی تربیت دی جائے۔

پاکستان کو بھی نیپال کی طرز پر اپنے دیہی علاقوں میں اس طرح کے پروگرام شروع کرنا چاہیے .( نیپال میں عورتوں نے کمیونٹی ایکشن گروپ تشکیل دیے ہیں۔ گروپ کی عورتیں اپنی صحت اور علاقے کے مسائل کے حل کے لیے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرتی ہیں۔ پڑھنے اور لکھنے کی مہارت بہتر بنانے میں ایک دوسرے کی مددکرتی ہیں۔ مرد ان گروپوں کی حمایت اور مدد کرتے ہیں کیونکہ انھیں اندازہ ہوا کہ عورتوں کی مدد کرنے سے پورے خاندان کو فائدہ ہوتا ہے۔ عورتیں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کررہی ہیں، چند مرد بھی چائے خانوں، مقامی میلوں اور بس کے اڈوں پر دوسرے مردوں سے بچوں کی پیدائش میں وقفے کے بارے میں بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔)

منصوبہ بندی کے حوالے سے جو حضرات اسے اسلامی خاندانی نظام کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں، ان دوستوں کو اس نکتے پہ غور کرنا چاہیے کہ صرف گزشتہ چالیس سالوں میں، صومالیہ ،کی آبادی میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا پھر اس ہی آبادی کی مہربانیوں سے پیدا ہوتی آلودگی نے پورے صومالیہ کے ماحول کو اس حد تک متآثر کیا کہ ان چار دہائیوں میں بارشوں کی شرح چار گنا کم ہوئی، نتیجتاً آج پینے کا پانی وہاں ناپید ہے . اکثر علاقوں میں پانی کی ترسیل راشن کی طرز پر ہوتی ہے کیا یہ کسی غیر مسلم ملک کی سازش ہے؟ یہی حال دوسرے اسلامی افریقن ممالک کا ہے۔ پانی کے بعد دوسرا مسئلہ ہر جاندار چاہے انسان ہو یا جانور ایسے خوراک چاہیے، سبزی و پھل وغیرہ زمین پہ ہی کاشت کئے جا سکتے ہیں،اور بڑھتی آبادی کے ساتھ زرعی زمین کی حدود سکڑتی چلی جا رہی ہیں، یقینا ایسے میں جانوروں سے لی گئی خوراک کی طرف دھیان جاتا ہے، مگر جانوروں کے چارے کیلئے پیداواری زمین کا ہونا اشد ضروری ہے، اور زرعی زمین کے ساتھ انسان کا سلوک بد سے بدترین ہوتا جارہا ہے آبادی میں بے پناہ اضافہ مزید خوراک کا مطالبہ ہے، اگرچہ زمین پچیس ارب انسانوں کو کھانا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر دنیا کے آدھے سے زیادہ ممالک خوارک کی قلت کا شکار ہیں، کیونکہ اس بنی نوع انسان نے ترقی کے چکر میں اپنی زمین ، آب اور ہوا کو آلودہ کرتے ہوئے انسان خشک سالی کو اپنا مقدر بنانے کی ضد پہ اڑا ہے.

پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے، اس لیے یہاں کے لوگوں کو فی الحال خوراک کی اتنی کمی محسوس نہیں ہورہی مگر وہ آنے والے چیلنج کا درست اندازہ نہیں کر پا رہے، مگر جو ممالک اس خشک سالی و قحط سے گزر ہے ہیں وہاں کی صورتحال کافی گھمبیر سے گھمبیر ہے، لہذا ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی پہ سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے، آسان سی بات ہے کہ اگر آپ پانچ سات بچوں کی پرورش و تعلیم کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں تو ایک دو پر ہی اکتفا کیجئے.

خاندانی منصوبہ بندگی پر عمل کیے بغیر پاکستان کی نئی نسل دنیا سے مقابلہ جہالت ، غربت، پسماندگی کا تو کرسکتی ہے مگر ترقی کی رفتار میں مقابلہ اب اس کی مثال کیچوے والی بھی نہیں ہوسکتی.

( بارش اللہ کی رحمت ہے مگر یہ بارش جب زیادہ ہو تو یہ زحمت بن جاتی ہے )
 

انجئنیر ! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر ! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر ! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81835 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.