پاکستان زندہ آباد!

ایک چھوٹی سی مگر با مقصد تحریر اپنے ہم وطنوں میں حقیقی جذبحب الوطنی کو اجاگر کرنے کی غرز سے لکھی گیی ہے کہ جس میں یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اپنے قیمتی ترین جذبات اور اللہ کی انایت کردہ اپنی اس اہم زندگی کو لوگوں کا مقابلا کرنے میں ضائع نہی کرنا، اپنا ہر فیصلہ جدت اور ماڈرن معاشرے کے ٹائٹل کے ساتھ جہالت اور لا علمی کے اندھیروں میں ڈوبتے افراد کے مطابق نہیں کرنا، اپنے وطن کے پرچم کو ظاہری احترام دے کر اندر سے اپنی ملت کو کھوکھلا نہیں کرنا بلکہ ان سب سے اوپر اٹھ کر واقعی پاکستان کا نام زندہ کرنا ہے۔

ہم ہر جمعہ کو اہتمام کے ساتھ سورۃ الکہف کی تلاوت کیا کرتے ہیں اور اس کے زریعے اللہ سبحانَہٗ و تعالٰی سے نور طلب کرتے ہیں تو آئیے ہم اس سورۃ کا مختصراً دورہ کریں اور جانیں کہ اس سورۂ مبارکہ میں وہ کون کون سے مضامین ہیں جن کا ہمارے لیے ہر جمعے کو دہرایا جانا ضروری ہے۔ اور اس عمل سے ہمارے نفسوں میں اندرونی و بیرونی طور پر کس طرح مثبت تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہین۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا! ہماری عبادت اتنی بے نور کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟ بظاہر علم اتنا آسان ہے کہ ہمارے موبائلوں میں ایک کلک کی دوری پر ہم کوئی بھی تحریر پڑھ سکتے ہیں، کوئی بھی آیت یاد کر سکتے ہیں، کسی بھی تفسیر کا مطالعہ کر سکتے ہیں، کچھ نہ سمجھ آئیں تو دنیا کے بڑے سے بڑے عالم سے یو ٹیوب کی مرون منت رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے دور کے لوگ جن تک علم کی رسائی آج کے اس دور کی طرح آسان نہیں تھی مگر وہ جو کچھ سن لیا کرتے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے اور ہم پڑھتے اور سنتے ہیں بلکہ ان کی کوششوں اور کاوشوں کو دیکھتے بھی ہیں جو انہوں نے اپنے مذہب، اپنے علاقے، اپنے مخصوص شعبے، اپنے وطن حتٰی کہ دنیا تک کے لیے اپنی ایجادات، اپنی تحقیقات، اپنے علم، اپنے ہنر یا اپنی سوچوں کے ذریعے کیں اور ان کی یہ کاوشیں ان کی پہچان بن کر رہتی دنیا تک جاری رہیں گی۔ کیا تقاضہ ہے کہ مفسرین میں ابن عباس، کاتبین میں امام بخاری، شاگردوں میں ہمارے سلف صالحین، مجاہدین میں نور الدین زنگی اور سلاہدین ایوبی، بہادروں میں محمد بن قاسم، خواب دیکھنے والوں میں علامہ اقبال، لیڈروں میں قاعد اعظم محمد علی جناح، سائنس دانوں میں عبد القدیر خان، ذہین طالب علموں میں ارفا کریم، اور بو علی سینہ جیسے موجدین پیدا ہوئے مگر آج جبکہ علم کا حصول آسان ہے، تجربات کے لیے لا تعداد مواقعے موجود ہیں، مشینوں نے وقت کو بچا بھی بہت لیا ہے مگر پھر بھی ہماری دنیاوی تعلیم ہو یا ذاتی عبادات، عملی مشاہدات اور تجربات کا میدان ہو یا گھر میں بچوں کی تربیت کا مارکہ، جہاد با النفس ہو یا ملکی سلامتی کے معاملات، ہم ہر ہر چیز میں کند ذہن، نا کام اور سست کیوں ہو گئے ہیں آخر؟
اس مسلے کے کئی پہلؤ نکلتے ہیں مگر آج جس پہلؤ پر میں اپنے قلم سے محدود علم اور محدود سوچ کے ساتھ روشنی ڈالنے اور اپنے پڑھنے والوں کو جس جانب متوجہ کرنے کی جسارت کر رہی ہوں وہ پہلؤ بہت ہی سادہ اور واضح ہے کہ ہمیں ہر معاملے میں نکل کرنے اور بے مقصد کی مقابلہ بازی کرنے کی عادت ہو چکی ہے بلکہ ایک لت سی پڑ گئی ہے۔ اب چاہے عبادت ہو یا کوئی فلاحی کام، اپنی تعلیم و تدریس ہو یا عملی میدان، جسمانی جہد ہو یا حکمت کی جنگ، معملات ہوں یا عمدہ اخلاق، رشتہ داری ہو یا پروفیشنل تعلقات، یہاں تک کہ کسی بہت بڑی خوشی یا کامیابی کو سیلیبریٹ کرنے کی بات ہو یا کوئی شدید ترین غم ہو جو طاری ہو جائے، زندگی میں کسی پیاری شخصیت کا اضافہ ہو یا کوئی بہت ہی قریبی ہمیں دنیا میں تنہا چھوڑ جائے۔ ہر ہر معاملے پر ہمیں وہی کرنا ہے جو کہ ہمارے مطابق ترقی یافتہ اور کامیاب افراد کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ ہماری روز مراہ کی گفتگو، ہمارا پہننا اوڑھنا، کھانہ پینا، گھروں کا انٹیریئر، حتٰی کہ کسی تکلیف یا بیماری کو ظاہر کرنے کا انداز تک اس ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کی بھیٹ چڑھ گیا ہے۔ ہمیں کس وقت سونا چاہیے اور کس وقت اٹھنا یہ فلاں فلم کا فلاں ہیرو ڈیسائڈ کرے گا نہ! ہمیں بال کیسے بنانے چاہیئیں وہ فلاں میگزین کی فلاں سوپر ماڈل طے کرے گی نہ! آج میرے لیے کون سا ناشتہ بہترین رہے گا یہ انسٹا کا فلاں بلاگر مجھے بتائے گا بھئی! آج تو میں بہت دکھی ہوں اب میرے غموں کو وہ والا پوپ میوزک ہی غلط کرے گا جو فلاں ٹکٹاکر اکثر سن سن کر اپنے غموں کا ازالہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ والدین ہمارے کُول تھوڑی ہیں، قرآن تو چودہ سو سال پہلے کی کہانیاں سناتا ہے اور ان اوپر ذکر کیئے گئے تمام عظیم انسانوں کے پاس ان کی زندگیوں میں کوئی ورائیٹی تو تھی نہیں بے چارے کرتے بھی کیا سو انہوں نے اپنے لیے ان کاموں کو چن لیا۔ میں جب بھی اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو ایسی باتیں کرتا سنتی ہوں بلکہ باتیں تو وہ لوگ کرتے ہیں جو بس باتیں بنانا ہی جانتے ہیں کامیاب ہونا اور پوپولر ہونا تو ان کے بس سے باہر ہے لہاذا عملی طور پر ان باتوں کا با قاعدہ ثبوت دیتے نظر آتے ہیں، ان کو دیکھ کر سورۃ البقرہ کی وہ آیت یاد آ جاتی ہے اور دل کانپ جاتا ہے کہ:
"اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کے متعلق علم ہے جو کہ ہفتے کے دن کے معاملے میں حد سے گزر گئے تو ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔"۔
٭ سورۃ البقرہ: (65)۔
اب بندر بننا کیا ہوتا ہے، بندر کو ہم کس صفت کی وجہ سے یاد کرتے یا اکثر کسی کو بندر لقب کے طور پر پیش بھی کر دیتے ہیں؟ اس کو جو دیکھا دیکھی کرتا ہے، نکلیں اتارتا ہے یا اکثر بندر ہم ناچ وغیرہ کرنے والوں کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں تو اس آیت کی تفسیر میں اپنی استاذہ سے سنا تھا کہ ہفتے کے دن والوں کی شکلیں بندر کی مثل بنا دی گئیں تھی اور اس کا یہ بھی معنٰی کیا جاتا ہے کہ ان کے اوصاف بندروں والے ہو گئے تھے۔ سوچنے کی بات ہے اور بہت زیادہ غور طلب بات ہے کے آج کل ہم نو جوانوں کو جو آڈیللائز کرنے کا بھوٹ سوار ہو گیا ہے اس کا انجام اور اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر کیا پڑھ رہے ہیں۔
ذرا سوچیے! ذرا غور کیجیے! کوئی بھی کام یا کوئی بھی فعل جو آپ انجام دے رہے ہیں یا کسی عمل کی بابت پلاننگ کر رہے ہیں، یہ ضرور سوچ لیں یہ میں کیوں کر رہا ہوں یا کر رہی ہوں؟ ذرا تھامیں اپنے آپ کو اور رک کر سوچیں اس فعل سے مجھ پر یا میری اگلی نسلوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، ذرا اپنے دماغ کا در کھٹکھٹائیں اور سوال تو کریں کہ اس سب کا آخر فائدہ کیا ہے؟ میری دنیا و آخرت پر اس کے نتائج کیا مرتب ہو سکتے ہیں، اسی سوال کو، اسی عمل کو، اسی دماغی حساب و کتاب کو عقل کا استعمال کرنا، غور و فکر کرنا، اور نفسیاتی اصطلاح میں مائنڈ فلنیس کہا جاتا ہے اور آج اگر ہم اس مائنڈ فل نیس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا شروع کر دیں تو ہماری زندگیوں سے فضولیات کم ہو جائیں، ہمارے اوقات قیمتی ہو جائیں، ہمارا وجود ہمارے اپنے لیے، اپنے معاشرے، اپنی ثقافت، اپنی وطن اور ساری دنیا کے لیے فائدہ مند ہو جائے۔ اپنے آگے آنے والوں کے لیے ایک مثال بن جائیں اپنے والدین کا وقار بن جائیں اور اسلام کا قلعہ بن جائیں۔ لیکن ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر اس وقت نصیب ہو سکتی ہے کہ جب ہمارا نفس ہمارے ذہن کو اور ہمارا زہن ہمیں کنٹرول نہ کرے بلکہ ہم اپنے اوپر حکومت کرنے والے بن جائیں اپنے دل و دماغ کو ہم قابو میں رکھنا سیکھ جائیں اپنی خواہشات اور لذتوں کے حصول کی طلب پر بند باندھنا سیکھ جائیں۔
اب آج کے دن کی مناسبت سے اپنے موضوع کو جاری رکھتے ہوئے اس نکتے کی طرف بھی اپنے پڑھنے والوں کی توجہ چاہوں گی کہ آج جو جشن آزادی کے نام پر ہم رات رات بھر لاؤڈ اسپیکر پر نغمے بجا بجا کر، اپنے والدین کی آنکھوں سے نیند اور قلب سے سکون چھین کر موٹر سائکل لے کر گھر سے نکل کے، اپنے اسکولوں اور کار و باری دفاتر میں پاکستان زندآباد کے نام پر اپنے آپ کو گھلا گھلا کر اور اپنے نغموں، تقاریر اور ظاہری چمک دھمک سے خود کو اور اپنے گھروں، علاقوں، تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز کو سجا سجا کر وطن سے محبت کا جو اظہار کر رہے ہیں اس کی بنیاد آخر کیا ہے؟ اس وطن کا مطالبعہ جس چیز کے حصول کے لیے کیا گیا تھا کیا آج وہ مقصد ہم اپنے لوگوں کو یاد دلانے میں کامیاب ہو بھی پا رہے ہیں، جس ملکی جذبے اور قومی محبت کے ہم نعرے لگا رہے ہیں کیا اس زمین اور اس مٹی کی قیمت کا احساس بھی ہمارے دلوں میں موجود ہے؟ کیا اس پاک سر زمین کی نعمت پر ہمارے سر عاجزی سے جھکتے بھی ہیں، جس لا الاہ اِلا اللہ کے نام پر اس وطن کو حاصل کیا گیا تھا وہ کلمۂ حق کہیں ہمارے جشن کی بھیٹ تو نہیں چڑھ گیا؟ کیا ہمارا اسلام اور ہمارا ایمان دوبارہ انگریزوں اور ہندوؤں کی قید میں تو نہیں چلا گیا؟
ذرا سوچیے کہ ہم کل کیا کر رہے ہوں گے؟ نہیں! ذرا دریافت تو کریں ان مائک پکڑ کے پاکستان کی رٹی رٹائی تاریخ بیان کرنے والوں سے کہ کل اس وقت وہ کہیں اسی پاکستان کو چھوڑ کر کسی گورے کے ملک میں سیٹل ہونے کی پلاننگ تو نہ کر رہے ہوں گے؟ ہمارے قومی لباس کو سلام کرنے والے کہیں کل کسی سو کالڈ ماڈرن محفلوں کی زینت بنے اس لباس کی حقارت پر ہنس تو نہ رہے ہوں گے؟ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں" کی سدائیں بلند کرنے والوں کے اپنے رشتہ داروں سے ایک چھت کے سائے تلے تعلقات کہیں کشیدہ تو نہ ہوں گے؟ یہ رنگ برنگی کپڑے پہنے، اپنی جماعتوں میں جھنڈیاں لگاتی اور ہنستی مسکراتی اور کھلکھلاتی ان قوم کی چھوٹی چھوتی بچیوں کا اندرونی اخلاق ان کے اساتذۂ کرام نے سجایا ہوگا یا نہیں؟ ان کے ساتھ مل کر ان کے گھروں میں ان کے بال تھیم پارٹی کے مطابق سنوارتی ان کی ماؤں نے انہیں اپنے گھر کے باغات کو پیار و محبت سے سینچنا سکھایا ہوگا بھی یا نہیں؟
تو بات ساری کی ساری یہی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے سے جڑے ہر پاکستانی کو اس وطن کی نعمت کا احساس دلانا ضروری ہے، ان کے پھرتیلے اور جوش و جذبے سے بھرے ذہنوں میں ہوش پیدا کرنا آج کے وقت کی مانگ ہے کہ یہ وطن کیا ہے؟ یہ ہم تک کن قربانیوں کے بعد پہنچا اور آخر اتنی قربانیاں کیوں کی گئیں؟ اور یہ آزادی کیا ہوتی ہے؟ جس میں ہم سے روک ٹوک ختم ہو جائے مگر دل غلافون میں قید ہوں؟ ایمان تڑپ تڑپ کر آخری سانس لے رہا ہو؟ روح زخم سے بلبلاتی ہو؟ اور ہر کوئی دوسروں پر اپنی خواہشات اور نفس کی تسکین کے لیے حکمرانی کرتا پھرے، جہاں پاکستان کے جھنڈے پر کوئی چڑھ گیا تو بے ادب اور ماں نے جشن آزادی کا ڈریس نہیں دلوایا تو اس پر چیخ چلا کر اپنے مطالبات کی ڈھونس جمانا حب الوطنی ہے؟ یا پھر وطن پاکستان کا وجود کسی خاص ملت کی پیروی کا تقاضہ کرتا ہے؟ کسی اور عظیم جذبے کی فریاد کرتا ہے؟ یہ حب الوطنی کا معاجرہ کچھ اور ہی ہے اور ایک جگہ جمع ہو کر، ایک جیسے لباس پہن کر، ایک آواز میں نغمے گا کر گلی گلی کوچہ کوچہ صاف ستھرا کر کے اسے سجا کر کسی اور ہی سوئے ہوئے جذبات کو ابھارنا اس سب کی اصل روح ہے؟ سیاست دانوں پر لطیفے بنانے اور حکمرانوں کو جدید انگریزی گالیوں سے خیراج تحسین پیش کرنے کی بجائے کوئی اور ہی حکومت اور بادشاہت اپنے خود کے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تو یہ بادشاہت، یہ روح، یہ اخلاق، یہ مقصد اور یہ جذبات کون سے ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات کی تلاش ہی اس جشن آزادی کا اہم مقصد ہونا چاہیے۔ جب ہم اس مقصد کو پا لیں گے، اس ذمہ داری کو جو ایک آزاد مسلم ریاست ہونے کی وجہ سے ہم پر عائد ہوتی ہے ہم سمجھ لیں گے، جس روز ہم دل سے پاکستان کا مطلب لا الٰہ اِلا اللہ' جان لیں گے نہ، اس روز ہم دل سے کہیں گے۔
"پاکستان! زندہ آباد!"
پھر ہم واقعی میں بن جائیں گے ایک مضبوط قوم، ایک با مقصد شہری، ایک مضبوط لشکرِ اسلام، تمام ہی غیر اسلامی سازشوں اور نا پاک دشمن کے گندے عظائم کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار، ہاں جب ہم میگزینوں اور انگریزی فلموں کی سیڈیز کو کچرے کے حوالے کریں گے، اور اپنے آپ کو اپنی تعلیمات کے سپرد کر دیں گے، اپنی جانوں کو اس مٹی کے لیے وقف کر دیں گے، اپنی سانسوں کو درست طریقے سے کلمۂ لا اِلٰہ اِلا اللہ کے نام کر دیں گے، تب ہوگا ہر دن جشن آزادی مبارک کی سداؤں کا، مبارک بادوں اور دعاوں کا اور اس دن ہم کہیں گے، ایک عزم سے، ایک جوش سے، ایک مضبوط سوچ کے ساتھ۔۔۔۔
"پاکستان! زندہ آباد!۔۔۔۔۔
 

Bint-e-Murtaza
About the Author: Bint-e-Murtaza Read More Articles by Bint-e-Murtaza: 4 Articles with 2013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.