داعش خراسان: افغان طالبان: جے یو آئی (ف)

(Umair kham, Bajaur)

Released picture of ISKP member after Bajaur suicide.

15 اگست 2021، کو افغانستان میں نیٹو انخلاء کے نتیجے میں بننے والی افغان طالبان کی عبوری حکومت کے بعد ، ریاست پاکستان کا تحریک طالبان پاکستان کیساتھ مذاکرات کی ناکامی اگر ایک طرف پاکستان ، بلخصوص پشتون بلٹ میں دہشتگردی کی نئی لہر کا سبب بنا ہے تو دوسری جانب اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ ( داعش) کا دوبارہ منظم ہونا اور پاکستان ،افغانستان میں سال2021 سے دوبارہ حملے کرنا نہ صرف ریاست پاکستان کیلئے چیلنجنگ ہے بلکہ یہ موجودہ افغان عبوری حکومت، امریکہ، چین اور ایران جیسے ممالک کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے ۔
جیساکہ ہمیں معلوم ہے کہ داعش سال 2012-2013 میں وسطی ایشیاء ( مڈل ایسٹ) سے اٹھنے والا ایک دہشتگرد تنظیم ہے جنہوں نے وقت کیساتھ ساتھ پاکستان ، افغانستان اور سنٹرل ایشیاء میں پنجے گاڑ دیے تھے ۔

یہ تو بریفلی ہم نے داعش کے پس منظر کا جائزہ لیا لیکن اب اصل سوال یہ بنتا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ ( داعش) جمیعت علمائے اسلام-فضل الرحمن گروپ کو کیوں ٹارگٹ کر رہا ہے ، ان حملوں میں زیادہ intensity (شدت) بلخصوص باجوڑ میں کیوں دیکھنے کو مل رہی ہے ، یاد رہے کہ حال ہی میں قبائلی ضلع باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام-فضل الرحمن گروپ کے اوپر 23 حملے ہوئے ہیں جس میں زیادہ تر علماء کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ مولانا الیاس اور انکے بھائی کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں شہید کرنے کے بعد باجوڑ کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں اور سیاسی قوتوں نے شدید احتجاجی مظاہرے کیے تھے جس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ شاید اس شدت میں کمی دیکھنے کو ملی گی پر بدقسمتی سے اب تک ان حملوں میں کمی کی بجائے تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے ، 30 جولائی 2023 کا حالیہ المناک اور وحشتناک واقعہ اسکا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
باجوڑ کو نشانہ بنانے کی وجوہات جاننے کیلئے ہمیں باجوڑ اور افغانستان کے جیو اسٹریٹجک اینڈ جیو پولیٹیکل ڈائنامکس ( Geostrategic and Geopolitical dynamics) کو سمجھنا پڑیگا ، اگر دیکھا جائے تو اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ ( داعش) کی موجودگی اس وقت افغانستان کے صوبے کنڑ اور ننگراہار میں سب سے زیادہ ہے اور افغانستان کا صوبہ کنڑ اور باجوڑ بلخصوص تحصیل ماموند ایک دوسرے کیساتھ ڈیورنڈ لائن شئیر کرتا ہے ، سیاسی ڈائنامکس کو اگر دیکھا جائے تو جب باجوڑ اور باقی قبائلی اضلاع میں داعش خراسان نے شروعات کی تو جمیعت علمائے اسلام (ف) نے سب سے پہلے باجوڑ کے اندر 2016 میں انکے خلاف فتویٰ دیکر انکو اسلام کے دائرے سے باہر ، واجب القتل قرار دیا تھا ۔ لیکن 15 اگست 2021 کے بعد جب افغان طالبان نے افغانستان میں اپنی عبوری حکومت بنائی اسکے بعد اب تک داعش خراسان نے صرف باجوڑ کے جے یو آئی (ف) کو ٹارگٹ نہیں کیا بلکہ اوور آل جے یو آئی-فضل الرحمن گروپ پر خیبر ،پشاور اور بلوچستان سمیت دونوں صوبوں میں اب تک 43 حملے کیے ہیں جس میں 23 حملے بلخصوص باجوڑ میں ہوئے ہیں ۔
اسکے اگر ایک اور پہلو کو دیکھا جائے تو داعش پشتون بلٹ بلخصوص قبائلی علاقوں میں اپنا اسر رسوخ بزورِ شمشیر بڑھا کر اپنی حکومت کی خواب دیکھ رہا ہے اور دوسری جانب انکے سامنے مذہبی جماعت نے یو آئی (ف) یہی سب کچھ جمہوری طریقے سے ووٹ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتی ہے ۔
گوں کہ اسکے اور بھی کئی پہلو ہے ، جیساکہ افغان طالبان اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کی آپس میں قربت بہت زیادہ ہے جبکہ داعش کے سامنے بڑی رکاوٹ افغان طالبان بھی ہے کیونکہ افغان طالبان داعش کو ایک دہشتگرد اور واجب القتل تنظیم سمجھتا ہے جسکا عملی مظاہرہ ہم نے داعش کیخلاف افغان طالبان کا حالیہ کاروائیوں میں دیکھا جب انہوں نے کنڑ اور افغانستان کے باقی حصوں میں داعش کے کئی کمانڈرز اور رکنوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا، کئی ماہرین ،صحافی وتجزکاروں کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ اگر ایک طرف داعش زیادہ قربت سلافی سکول آف تھاٹس ( Salafis school of thoughts) سے رکھتی ہے تو دوسری جانب افغان طالبان اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کا دیوبند سکول آف تھاٹس ( Deoband school of thoughts) سے تعلق ہے تو اس بنا پر بھی جمیعت علمائے اسلام (ف) کو نشانہ بنانے کی کانسپرئسی تھیوری ایگزسسٹ ( conspiracy theory exist) کرتی ہے ، لیکن خراسان ڈائری کے ایڈیٹر، کو فاونڈر اینڈ سینئیر صحافی و تجزیہ کار افتخار فردوس کی مطابق ، داعش خراسان کا فیورٹ باقی سیاسی جماعتیں اور سلافی فرقہ بھی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے جو تھریٹس دیے ہیں اس میں عمران خان ، مفتی تقی عثمانی اور حتیٰ کہ سلافی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما بھی شامل ہے ۔

خراسان ڈائری کے مطابق ، باجوڑ خودکش حملے کی زمہ داری داعش خراسان نے قبول کی ہے اور ابھی کچھ دیر پہلے ایک 92 صفحات پر مشتمل پمفلٹ جاری کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک پری پلنڈ منصوبہ تھا جس میں مذہبی جماعتوں اور ان لیڈروں کو نشانہ بنانا مقصود تھا جو پاکستان کے رائٹ ونگ ہے اور پاکستان کی جمہوری پراسس کی داعی ہے ، خراسان ڈائری مزید لکھتا ہے کہ داعش خراسان نے اس حملے کے ذریعے مذہبی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کو متنبہ کیا ہے جبکہ حالیہ باجوڑ دھماکے پر ٹی ٹی پی اور باقی گروپوں کی مذمت کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے ۔

داعش خراسان کو کیسے روکا جا سکتا ہے ؟

اگست 15، 2021 کے بعد داعش خراسان پر جتنے سیکورٹی کنسرنز ( Concern) پاکستان کے ہیں اتنے افغان طالبان اور امریکہ کے بھی ہیں اسلئے ان تینوں سمیت چین کو ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کیونکہ یہ اب ایک ریجنل ایشو سے زیادہ گلوبل ایشو بنتا جا رہا ہے ، سینئیر صحافی افتخار فردوس کے مطابق پچھلے جتنے بھی اٹیکس ہوئے ہیں داعش خراسان کی جانب سے وہ سنٹرل ایشیاء ممالک اور بلخصوص تاجکستان سے ہوئے ہیں اسلئے یہ اب اکیلے پاکستان کی بسس کی بات نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ 2016 میں داعش کیخلاف امریکہ اور طالبان نے پہلی دفعہ کولبریٹ کیا تھا جسکے بعد انکی طاقت میں کئی سالوں تک نمایاں کمی آگئی تھی ۔

Umair kham
About the Author: Umair kham Read More Articles by Umair kham: 2 Articles with 4560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.