ایک کھلتا کنول

میری ادبی سہیلی کا مجھے میسج موصول ہوا کہ جس ناول پر وہ اک عرصے سے محنت کر رہی تھی وہ اللہ کے کرم سے اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ سب سے پہلے میں اسکی اس کاوش کا مطالعہ کروں اور اپنی رائے کا اظہار کروں۔ بحیثیت اک مصنفہ یا شاعرہ میں اس کے قابل تو نہیں کیونکہ نثر پر جتنی پختہ گرفت اس کی ہے اتنی میری نہیں بلکہ اگر میں یہ کہوں میں کافی کچھ اس سے سیکھتی ہوں تو قطعاً غلط نہ ہوگا۔ اصطفی طفیل ایک عمدہ لکھاری ایک عمدہ مصنفہ ہے جسکی لفظوں اور ان لفظوں میں چھپے جذبوں پر مکمل گرفت ہے۔ وہ جانتی ہے کہ تحریر میں جذبات اور احساسات کو کسطرح پیش کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ جذبات کو سانچے میں ڈھالنا جانتی ہے۔

ایک مصنف کے لیۓ سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ اس کی تحریر کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری اس میں محو ہو جاۓ اور یہ ناول اس اسلوب پر پورا اترتا ہے۔ ناول کے آغاز میں مصنفہ نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ ناول کے موضوع کی وضاحت جن لفظوں سے کی ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں

جہاں رگوں میں بہتا خون بھی تڑپتا ہو
جہاں یاداشت عذاب بن جائے

ناول کا باقاعدہ آغاز ناول کے اہم کردار تہام درانی سے ہوا ہے جسکی چاہت نے اسے اپنی محبت کا اسیر کیا ہوا ہے اور آج تک اس نے خود کو اس اسیری سے آزاد نہیں ہونے دیا۔ آغاز سے ہی اسکی شخصیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ مصنفہ نے جس طرح درانی فیملی کا تعارف کروایا ہے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مصنفہ کو لفظوں پر عمدہ گرفت ہے اور وہ بہترین منظر کشی کر سکتی ہیں۔

میں جن سطروں سے متاثر ہوئ ہوں وہ تہام اور ہانی کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ کردار آبان کی تہام اور اسکی بہنوں کے ساتھ شرارتیں بھی آپکو ناول میں محو کرنے کیلۓ کافی ہیں۔

ایک نظر بھی اٹھا کر نہیں دیکھو گی
تہام کا یہ جملہ اسکی بےباکی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس بات کا بھی کہ مصنفہ جانتی ہیں کہ کردار کو کس طرح سے پیش کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر یہ بات اس لیۓ قابل فخر اور قابل غور ہے کیونکہ بغیر ادبی پس منظر کے لکھنا بہت بڑی بات ہے اور یقیناً ایک قدرتی فن ہے جس کو اصطفی نے ضائع نہیں ہونے دیا اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔

قلم کار کا جادو اس وقت چلتا ہے جب تمام کرداروں کو وہ بہترین انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ تحریر پڑھتے ہوئے مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ ﷲ نے اصطفی کو اس صلاحیت سے خوب نوازا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کس کردار کو کس سانچے میں ڈھالنا ہے اور کس طرح سے اسکی منظر کشی کرنی ہے۔ جب تک مصنف خود کو کردار سمجھ کر نہیں لکھتا وہ کامیاب تحریر نہیں لکھ سکتا اور اصطفی نے تمام کرداروں کو خود پر طاری کر کے اس تحریر کو ایک کامیاب تحریر کا درجہ دیا ہے۔ یہاں پر میں کردار زاویار آفندی کا حوالہ دینا چاہوں گی۔

زاویار کی وحشت نے ناول کو نیا موڑ دیا اور کہانی میں تجسس کا ایلیمنٹ برقرار رکھا۔ اسکے کردار نے نہ صرف قارئین پر یہ آشکار کیا کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانا اور انا کو برقرار رکھنا کتنا غلط ہے بلکہ یہ بھی باور کروایا کہ محبت اور حوس میں کیا فرق ہے۔ اس کے کردار نے انا اور غصے کو ترک کرنے کا پیغام دیا اور یہ ثابت کیا کہ غصے اور انا کے ہاتھوں کئے گۓ فیصلے نہ صرف دوسروں کا بلکہ اپنا بھی بہت نقصان کرتے ہیں۔

کسی بھی کردار کے الفاظ اصل میں مصنف کے الفاظ ہوتے ہیں اور جس خوبصورتی کے ساتھ مصنفہ نے کرداروں کے لیۓ الفاظ کا چنائو کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ ادھورے لفظوں میں مکمل بات یعنی شاعری اور مکمل بات کہہ کر ادھورا پیغام ایک فن ہے اور اصطفی اس فن کا استعمال بخوبی جانتی ہے

تم میرا چین ہو آرام بھی تم

وصی شاہ نے واقعی اتنا خوبصورت لکھا ہے یا تمہارے لہجے نے اس کلام کو جذبات کا ترجمان کر دیا ہے
اصطفی نے قارئین کو تہام اور ہانی کی محبت میں گرفتار کر دینا ہے۔ اس نے اتنی خوبصورتی سے تہام کے جذبات کو زباں دی ہے کہ پڑھنے والا انھی لفظوں کے سحر میں قید ہو جاۓ۔

تحریر پڑھتی جاتی ہوں اور تمام جذبات مجھ پر طاری ہوتے جاتے ہیں اور یہی اک مصنف کی جیت ہے۔ اس لیۓ میں اس منفرد ناول کے مکمل ہونے پر اصطفی کو دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں کیونکہ میری نظر میں یہ ایک ماسٹر پیس ہے جو ادبی محبت رکھنے والوں کو خوش کر دے گا۔ اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک جو کسی بھی تحریر کو پڑھتے ہیں اس سے لطف اٹھاتے ہیں اور اسکی تعریف کر کے چل پڑتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو تحریر پڑھتے ہوئے مسلسل رائٹر کے اندازِ بیاں سے مسرور ہوتے ہیں اور یہ وہ قارئین ہیں جو تحریر کو خود پر طاری کر لیتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ایک لکھاری لکھتے ہوئے ہر کردار میں اتر جاتا ہے۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تمہاری محبت کے آگے میری محبت کچھ نہیں ہے ہانی ہماری محبت کے ترازو میں میں جب بھی اپنی شدتیں رکھتا ہوں یقین کرو تمہارا کہا ہوا ایک جملہ بھی ہمیشہ ان پر سبقت لے جاتا ہے۔۔۔۔۔

تہام کا کردار جس طرح اپنی محبت کو اپنی محبت کے سامنے شدتیں کہہ رہا ہے وہی کہہ سکتا ہے کہ جسکی محبت عقیدت بن چکی ہو اور وہیں ہانی کا کردار کتنی خوبصورتی کے ساتھ اس بات کی نفی کرتا ہے کہ محبت تولنے کی چیز نہیں بلکہ احساس ہے اور میرے نذدیک دونوں کے جذبات قابل احترام ہیں۔
دشتِ فراق صرف اک ناول نہیں بلکہ خود میں ہی بہت بڑا ماسٹر پیس ہے جو دو کرداروں کی محبت اور تیسرے کردار کی وحشت تک محدود نہیں بلکہ اس میں چھپے اہم میسج کی ترجمانی کرتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جاۓ محبت کا حصول فقط نکاح سے ممکن ہے جو کے اک شرعی نقطہ نظر ہے جبکہ باقی تمام رستے غلط ہیں۔

ناول آنے والی تمام نسلوں کے لئے ایک نصیحت ہے جو اللہ سے محبت کا درس دیتا ہے جو یہ درس دیتا ہے کہ دین سے تعلق مضبوط ہو تو برائ غالب نہیں آ سکتی۔دشت فراق نے یہ سبق دیا ہے کہ رکاوٹیں مسلسل تو ہو سکتیں ہیں لیکن مستقل نہیں ہوتیں۔ اصطفی نے ناول کو فینٹیسائز کرنے کی بجائے اسے حقیقت پر مبنی بنایا ہے جس کا ہر فرد سے تعلق بنتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز اور اونچ نیچ کو بڑے بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ ناول کس طرح سے لکھا جاتا ہے اور مجھے یہ جان کر بے حد خوشی محسوس ہوئ کہ اس کی لکھنے پر مضبوط گرفت ہے۔

ایک ایک حرف کو ایک ایک لفظ کو ایک ایک سطر کو اتنی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا یقینی طور پر اس سے لطف اندوز ہو گا۔ مصنفہ کی یہ پہلی کاوش تھی اور ان نے نہایت عمدگی سے اسکو اختتام تک پہنچایا ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک اسی طرح انکو لکھنے کی صلاحیتوں سے نوازتا رہے اور اسی طرح انکا قلم متواتر چلتا رہے آمین۔

Samra Waheed
About the Author: Samra Waheed Read More Articles by Samra Waheed: 9 Articles with 7222 views I am outgoing, dedicated, and open-minded. I get across to people and adjust to changes with ease. I believe that a person should work on developing t.. View More