فلسطین کا معاملہ اور ہمارا رویہ

فلسطین کا معاملہ جاننے کے باوجود بھی ہمارے رویے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور فلسطین سمیت تمام عالم اسلام بالکل سکون میں ہوں۔ فلسطین کے معاملے پر ایسے بے پرواہ رویے ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، جس پر پورے وثوق کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے تاریخ کے بد ترین مظالم جاری ہیں، اور شاید ہی کوئی ایسا ہو کہ جس کو اس کے بارے میں علم نہ ہو۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی ہمارے رویے دیکھ کر یوں لگتا ہے_ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور فلسطین سمیت تمام عالم اسلام بالکل سکون میں ہوں۔

ہر کوئی (بے فکری کے عالم میں مبتلا) اپنے انفرادی مشاغل میں اس قدر مصروف ہے کہ: فرصت ہی نہیں ملتی کہ فلسطینیوں کے حق میں بھی کچھ سوچا جائے اور ان کی آزادی یا کم از کم (ان پر کیے جانے والے) تشدد کی روک تھام کیلئے کردار ادا کیا جائے۔ فلسطین جیسے (اہم اور سنجیدہ) معاملے کو پس پشت ڈال کر کوئی کرکٹ دیکھنے میں مصروف ہے، جبکہ کسی کو اب بھی سوشل میڈیا پر میمز، ریلز اور سیاسی پوسٹوں سے فرصت نہیں ملتی۔

اگر کوئی درد دل رکھنے والا (غم خوار) ہو بھی، تو سوشل میڈیا پر ایک دو پوسٹ ڈال کر یا (زیادہ سے زیادہ) دعا کے روایتی الفاظ کہ "اللّٰہ ہمارے حال پر رحم فرمائے" دہرا کر، بری الزمہ ہو جاتا ہے؛ گویا اس نے فلسطینوں کا مکمل حق ادا کردیا۔ میں کوئی دعا کی مخالفت نہیں کر رہا، لیکن محض سرسری زبان سے دعا کے الفاظ ادا کر کے بری الزمہ ہو جانا اور مزید کچھ عملی کام نہ کرنا درست نہیں؛ بلکہ جہاں تک ہوسکے (اپنی استطاعت کے مطابق)، عملی طور پر کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر مواد کے تخلیق کار، فلسطینیوں کے حق میں کچھ حد تک بول لیتے ہیں، لیکن زیادہ ویوز اور ریٹنگ کے حصول کی خاطر اکثر الٹے سیدھے اور بغیر تحقیق کے (بے بنیاد) باتیں بھی سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔

بعض احباب بڑے مطمئن ہو کر کہتے ہیں کہ “الحمداللہ! حماس نے بھی اسرائیل کا کافی نقصان کیا ہے اور کر رہے ہیں”۔ یہ بات درست ہے کہ حماس نے بھی اسرائیل کا کافی نقصان کیا ہے؛ لیکن جتنا نقصان اسرائیل نے فلسطینیوں کا کیا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ حماس نے جو بھی کاروائیاں کی ہیں تو وہ ایک حدود کے اندر کی ہیں جس میں اسلامی اصول و قوانین کا خیال رکھا گیا ہے، (حتیٰ کہ دشمن کے قیدیوں کے ساتھ بھی اسلامی قوانین کے مطابق نرمی کا معاملہ کیا گیا ہے)۔ جبکہ اسرائیل کی جانب سے جو کاروائیاں ہوئی ہیں، وہ مکمل طور پر ایک انتہاپسند قسم کی کاروائیاں ہیں، جس میں کسی قسم کے حدود کا خیال نہیں رکھا گیا (نہ بچوں کا لحاظ رکھا گیا ہے، نہ عورتوں کا، نہ عوام کا، یہاں تک کہ ظالموں نے ہسپتالوں کو بھی نہیں چھوڑا)۔

ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ: وہاں (فلسطین میں) کھل عام اور روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ہر دوسرے دن اسرائیلی جارحیت (بمباریوں) سے غزہ کی گلیوں کو بے گناہوں کی لاشوں سے بھر دیا جاتا ہے؛ اور انتہا پسندی کی تمام حدود کو پار کیا جا رہا ہے، جبکہ ہم لوگ اپنے روزمرہ کی عام معمولاتِ زندگی میں مصروف اور بالکل مطمئن ہیں۔ شاید روزانہ کی شہادتوں اور ظلم و ستم کے بارے میں سن سن کر گویا اب سب کچھ معمول کے مطابق لگنا شروع ہو گیا ہے۔


کہنے کا مقصد یہ ہے کہ: فلسطین کے معاملے پر ایسے بے پرواہ رویے ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، جس پر پورے وثوق کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے معاملے پر اس طرح کے رویوں کو ترک کر کے مکمل طور پر سنجیدگی سے کام لینا ہوگا؛ ورنہ ان بے پرواہ رویوں کا حساب ضرور دینا پڑے گا۔

سید اویس احمد
About the Author: سید اویس احمد Read More Articles by سید اویس احمد : 2 Articles with 1148 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.