جج نے عمران خان کو سزا سنائی تو وہ مسکراتا رہا۔۔۔

پاکستان میں بڑ قانونی، آئینی، سیاسی و معاشی بحران کے بعد آخر کار عام انتخابات 8 فروری 2024 کو ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن اس سے قبل ہی ایک بزدل اور مفاد پرست سیاستدان میاں محمد نواز شریف جو اس سے قبل تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ہر بار ڈیل کر کے کرپشن کے الزامات کا تاج سجائے ملک سے بھاگ جاتے ہیں، انہیں دوبارہ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے پول سرویز میں پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو 70 فیصد سے زائد کی مقبولیت حاصل ہے لیکن اکبر ایس بابر نامی شخص جن کا دعویٰ تھا کہ وہ تحریک انصاف کے بانی ممبران میں سے ہیں، ان کی جانب سے تعصب اور نفرت پر مبنی ایک کیس میں عمران خان کو انتخابات سے قبل گرفتار کیا گیا اور ان کی جماعت سے انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا، یہ پاکستان کے متنازعہ ترین انتخابات کی اصل بنیاد ثابت ہو گا اور پاکستان جو کہ پہلے سے متعدد بحرانوں کا شکار ہے،انتقام پر مبنی ایک نئے تجربہ سے جبری حکومت مسلط کرنے کا متحمل نہیں ہو پائے گا کیونکہ 1971 ء میں بھی شیخ مجیب الرحمن سے ان کی اکثریت چھین کر ملک توڑا جا چکا ہے تو ایسے میں عوام خوف کی فضاء میں مبتلا ہے۔

پاکستان میں بڑ قانونی، آئینی، سیاسی و معاشی بحران کے بعد آخر کار عام انتخابات 8 فروری 2024 کو ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن اس سے قبل ہی ایک بزدل اور مفاد پرست سیاستدان میاں محمد نواز شریف جو اس سے قبل تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ہر بار ڈیل کر کے کرپشن کے الزامات کا تاج سجائے ملک سے بھاگ جاتے ہیں، انہیں دوبارہ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے پول سرویز میں پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو 70 فیصد سے زائد کی مقبولیت حاصل ہے لیکن اکبر ایس بابر نامی شخص جن کا دعویٰ تھا کہ وہ تحریک انصاف کے بانی ممبران میں سے ہیں، ان کی جانب سے تعصب اور نفرت پر مبنی ایک کیس میں عمران خان کو انتخابات سے قبل گرفتار کیا گیا اور ان کی جماعت سے انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا، یہ پاکستان کے متنازعہ ترین انتخابات کی اصل بنیاد ثابت ہو گا اور پاکستان جو کہ پہلے سے متعدد بحرانوں کا شکار ہے،انتقام پر مبنی ایک نئے تجربہ سے جبری حکومت مسلط کرنے کا متحمل نہیں ہو پائے گا کیونکہ 1971 ء میں بھی شیخ مجیب الرحمن سے ان کی اکثریت چھین کر ملک توڑا جا چکا ہے تو ایسے میں عوام خوف کی فضاء میں مبتلا ہے۔

پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے مقبول ترین لیڈر عمران احمد خان نیازی کو سائفر کیس اور توشہ خانہ کیس میں دس سال اور چودہ سال قید کی سزا سناتے ہوئے اربوں روپے کا جرمانہ کیا گیا ہے، اس کے بعد بھی مخالفین کا دل نہیں بھرا اور اب عمران خان کو مزید دو کیسز جن میں عدت میں نکاح کیس اور 190 ملین پاونڈ کے القادر ٹرسٹ کیس میں بھی مزید سزائیں سنائی جانی ہیں جو کہ عام انتخابات سے قبل عدالت سنائے گی۔ یہ پاکستانی عدالتی تاریخ کا متنازعہ ترین فیصلہ قرار دیا جارہا ہے جسے دنیا بھر میں حیرت انگیز طور پر دیکھا جا رہا ہے اور پاکستان میں عمران خان کے ناقدین بھی اس فیصلے کو عجلت اور دباؤ میں کی جانی والی بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن ایسی واحد جماعت ہے جو اس فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ آج کے اس کالم میں سائفر کیس اور توشہ خانہ کیس کی حقیقت پر روشنی ڈالی جائے گی۔ سب سے پہلے سائفر کیس کی بات کرتے ہیں۔

جس وقت جج ابو الحسن حسنات نے عمران خان کو دس سال قید کی سزا سنائی تو یہ فیصلہ سن کر سابق وزیر اعظم عمران خان نے مسکراکہا کہ” میں نے کہا نہیں تھا فکسڈ میچ ہے“۔ فیصلہ سنا کر اٹھتے جج کو حیران ہوکر دیکھتے سابق وزیر خارجہ پاکستان مخدوم شاہ محمودقریشی بولے کہ”میرا 342 کا بیان تو ریکارڈ کرلیں،بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے ہی فیصلہ سنادیا“۔ جج نے کوئی بات نہ سنی اور عجلت میں افسوس ناک یک طرفہ ٹرائل کے بعد کیا جانے والا فیصلہ سنا دیا اورعمران خان اورشاہ محمودقریشی کو قیدیوں والالباس دیدیا گیا۔

سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا مطالبہ تھا کہ گواہان پر جرح پبلک کو براہ راست دکھائی جائے، بطور رپورٹر ہمیں بھی باربار عمران خان کہہ رہے تھے کہ آپ نے جرح ضرور رپورٹ کرنی کیونکہ جرح میں سارے کیس کا کچا چٹھا کھل جاتا اس کیس میں فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں ہوئے! اس موقع پر عمران خان نے ایک بات پھر کہا کہ ”مجھے سابق آرمی چیف پاکستان جنرل باجوہ نے کہا تھا اگر چپ رہو گے تو ٹو تھرڈ میجورٹی دیں گے ورنہ کیسز بنائیں گے اور سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ لگے گی“۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا چہرہ بھی اس موقع پر مطمئن لگ رہا۔میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ”میرا خیال تھا کہ سزائے موت دینگے، یہ ملک کے ایک مقبول لیڈر کیخلاف نواز شریف اور اس کی بیٹی مریم نواز کی خواہش پر لندن پلان کے مطابق کیا گیا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کارکنان کے نام پیغام میں کہا کہ آپ اگر نظام بدلنا چاہتے ہیں اور عمران خان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اپنا حق استعمال کرتے ہوئے100 فیصد ووٹ ڈالنے کیلئے سب 8 فروری کو باہرنکلیں۔

سائفر کیس کا فیصلہ سنانے والے جج حسنات فیصلہ دیکھ کر گھبرائے ہوئے تھے۔عمران خان کا میڈیا نمائندگان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج جج حسنات سزا سنانے کے بعد ایسے بھاگے کہ اگر 100 میٹر کی ریس میں بھاگتے تو جیت جاتے ان کو اولمپکس میں ہونا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ جو مشکل میں کھڑا رہتاہے وہی اصل وفادار ہوتا ہے،شاہ محمودقریشی جس طرح کھڑا رہا،اسکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،چوہدری پرویزالہٰی کو بھی مان گیا ہوں۔ عمران خان نے کہا کہ سائفرکاپی کی ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری،ملٹری سیکرٹری کی تھی اور وزیراعظم ہاؤس سے سائفرکاپی چوری ہوئی جو شہباز شریف کی حکومت میں چوری کی گئی،ایک ا ے ڈی سی سمیت تین لوگوں پر شک ہے جنہوں نے سائفر کی کاپی چوری کی ہے مگر ان کے نام ابھی نہیں بتاؤں گا۔ امریکہ نے ملک کے وزیر اعظم کو دھمکی آمیز خط لکھا تھا اور بطور وزیر اعظم ریاست میرا فرض تھا کہ اس سازش سے قوم کو آگاہ کرتا اور میں نے وہی کیا۔

عمران خان کا 342 کا بیان جو کہ سزا سنانے والے جج ذوالقرنین حسنات نے نہیں سنا اس کا متن یہ ہے کہ ”روس جانے سے قبل جنرل باجوہ سے بھی بات ہوئی، جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ روس جانا چاہیے، روس سے واپس آنے کے کچھ دنوں بعد شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ واشنگٹن سے اسد مجید نے سائفر میسج بھیجا ہے، حیران کن سائفر تھا جو وزیر خارجہ اور وزیراعظم کو دکھانے کے لیے نہیں تھا، میں سائفر کو پڑھ کر حیران اور ششدر رہ گیا، امریکی آفیشل کے ساتھ میٹنگ میں کسی سفیر کو دھمکایا گیا ہو اس کی مثال نہیں ملتی، جس میں کہا گیا ہو کہ اگر وزیراعظم کو نہ ہٹایا تو اس کے نتائج ہوں گے، پریڈ گراؤنڈ جلسے میں پیپر لہرایا اور صرف خطرے کا ذکر کیا،ملک کا نام نہیں لیا اور الفاظ کا بھی محتاط چناؤ کیا گیا،جو پیپر لہرایا گیا وہ سائفر کی پیرا فریزڈ کاپی تھی، ڈونلڈ لو کی جانب سے سائفر جنرل باجوہ کے نام تھا کیونکہ جنرل باجوہ کے پاس ہی ہماری حکومت گرانے کی طاقت تھی، سندھ ہاؤس میں بولیاں لگیں ایک ایک ایم این اے کی قیمت 20 کروڑ فکس کی گئی،حکومت گرائی گئی میں عوام میں گیا عوام کا ردعمل تاریخی تھا۔۔۔!!!

جس نام نہاد جعلی سائفر کیس میں عمران خان کو سزا سنائی گئی ہے اس کے بارے میں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کہہ چکے ہیں کہ سائفر ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ ہے تو اگر سائفر جھوٹ تھا تو سزا کیسے سنائی گئی اور اگر سائفر سچ تھا تو میری حکومت کیوں گرائی گئی، عمران خان کا کہنا تھا کہ اب جنرل قمر جاوید باجوہ کو عدالت میں بلانا چاہیے اور انہیں سزا اسے ملنی چاہیے جس نے قوم کے ساتھ اتنا بڑا جھوٹ بولا۔اس سے قبل قومی سلامتی کمیٹی کے تین اجلاس ہو چکے ہیں جس میں سائفر کی حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے اور شہبازشریف کی حکومت میں کئی بار اس بات کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ سائفر کی کاپی وزیر اعظم آفس اور دفتر خارجہ میں موجود ہے لیکن ایک حیرت انگیز اور افسوس ناک کیس بنا کر سابق وزیر اعظم کو سزا سنائی گئی تاکہ تحریک انصاف کا ورکر باہر نکلے اور احتجاج کرئے تاکہ اس کا فاہدہ اٹھا کر ایک اور 9 مئی جیسا من گھڑت سانحہ بنایا جائے جس کے بعد تحریک انصاف کو کالعدم قرار دے کر مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، لیکن عمران خان فیصلہ سن کر مسکراتے رہے اور کارکنان کو پیغام بھیجا کہ آپ سب ووٹ ڈالنے کیلئے باہر نکلیں اور پر امن رہیں۔ ووٹ سے ہر ظلم اور جبر کا جواب ووٹ کی پرچی سے دینا ہے۔ عمران خان کے اس بیان کے بعد منصوبہ سازوں کی چال ناکام ہوئی اور انہوں نے توشہ خانہ کیس جو کہ بدنیتی اور من گھڑت طریقہ سے بنایا گیا ہے اس فرسودہ کیس میں مزید14 سال کی قید سنا دی جبکہ اربوں روپے کا جرمانہ بھی کر دیا۔

اس بار ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بشریٰ بی بی کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سزا سنانے کا مقصد بھی یہ تھا کہ عمران خان کو چاہنے والے مشتعل ہوں اور ہنگامہ کریں مگر عمران خان نے ایک بار پھر مسکرا کر کارکنان کو پر امن رہنے کا حکم دیا اور انتخابات کی تیاری کی ہدایت کی۔ اب توشہ خانہ سے تحائف لینے کی بات کی جائے تو عمران خان نے توشہ خانہ سے جو گھڑی قانون کے مطابق خریدی تھی اس کی آدھی قیمت ادا کی، حالانکہ پہلے حکمران صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے تحائف لیکر جاتے تھے۔نواز شریف، آصف زرداری سمیت عسکری و سیاسی شخصیات سینکڑوں قیمتی تحائف کوڑیوں کے دام لے جا چکے ہیں۔ جبکہ عمران خان نے توشہ خانہ کی گھڑی بیچ کر جو رقم حاصل کی، اس رقم سے عوام کے مفاد عامہ میں بنی گالہ کی سڑک بنائی جو عام و خاص سب لوگوں کے استعمال میں ہے۔ اب یہاں بھی انصاف کا قتل عام ہوا اور عمران خان کو بے گناہ ہونے کے باوجود سزا سنائی گئی ہے۔ یہ جھوٹا مقدمہ بھی ن لیگ کی پی ڈی ایم حکومت کا تیار کیا جانے والا شیطانی کھیل تھا۔

آج عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنا کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ آپ غیر قانونی طور پر مہنگی گاڑیاں تو لے جا سکتے ہیں تو اس صورت میں قانون آپ کو سوال کرنے کی جرات نہیں کرے گا، لیکن قانونی طور پر ٹیکس ادا کر کے گھڑی لینا جرم ہے۔سوال تو یہ ہے کہ کیا عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم اتنی پیسے کی پجاری تھیں کہ ان کے خلاف فقط 28 کروڑ کی گھڑی قانونی طور پر بیچنے کے الزام میں کیس چلانے کو ملا؟ جبکہ نوازشریف کی مکار اور نکمی ترین بیٹی مریم نواز نے سابق امریکی صدر براک اوبامہ کی اہلیہ مشعال اوبامہ سے بچیوں کی تعلیم کے نام پر 70 ملین ڈالرز ہتھیائے تھے، سوال ہے کہ وہ پیسے آخر کہاں گئے اور اسکا کسی نے آج تک کیوں نہیں پوچھا؟

مریم نواز کا والد کی حکومت میں صرف ایک کارنامہ بتایا ہے میں نے۔ جبکہ اسکے علاوہ یوتھ قرضہ اسکیم پراجیکٹ کی چئیرپرسن کے طور نواز شریف کی کرپٹ بیٹی نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا۔ اصل پیسے کا پجاری ہونا اسکو کہتے ہیں۔وہ جوہری ایکسپرٹ جس کو عمران خان اوربشریٰ بی بی کے توشہ خانہ جیولری سیٹ کی تصویر دیکھ کر قیمت بیس ملین بتائی، وہ گراف کمپنی کے ملازم نہیں ہیں، وہ کسی اور کمپنی کا پارٹ ٹائم ملازم ہے، اور پارٹ ٹائم اس دکان کے علاوہ اپنے دوست کی ورکشاپ پر بھی کام کرتے ہیں، اس کی تعلیمی قابلیت انٹر میڈیٹ ہے اور مزے کی بات یہ کہ سرکاری ایکسپرٹ تعلیمی لحاظ سے کہیں زیادہ اور وہ کام کے مکمل ماہر تھے، ایک اور مزے کی بات کی بھارتی مالک کی گراف کی وہ فرنچائز جس کے یہ انٹر پاس صاحب ملازم ہیں وہ دکان اس وقت بند ہو چکی ہے۔ یہ ہے انصاف کا قتل عام جو پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔

اب زمینی حقائق یہ ہیں کہ سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو 10 سال اور 14 سال سزا دیکر بھی انکا خوف کم نہیں ہوا، پورے ملک میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار پکڑے جا رہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں، اغوا ہو رہے ہیں، ڈرائے اور دھمکائے جا رہے ہیں، مقدمے قائم ہو رہے ہیں، ورکرز پکڑے جا رہے ہیں، دھماکے کیے جا رہے ہیں تاکہ مقبول ترین جماعت کے کروڑوں ووٹرز کو ڈرا کر الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکے۔ پاکستان میں اس رجیم چینج کا سب سے بڑا نقصان ہمارا ایک قابل ترین صحافی اور سنیئر اینکر پرسن ارشد شریف شہید تھا۔ ایک ماں نے بیٹا، بیوی نے شوہر اور بچوں نے باپ نہیں کھویا بلکہ پاکستان کی صحافت یتیم ہو گئی ہے۔ آج صحافی مظلوم کے آواز بننے کے بجائے ظالم کے وکیل ہیں۔اس وقت پاکستان کا میڈیا مکمل کنٹرول کیا جا چکا ہے، یہاں سچ بولنے کی سزا جیل یا سزائے موت ہے۔ یہاں ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ عمران خان کی اہلیہ کی کردار کشی دو سال سے جاری ہے۔ چند ماہ قبل بشری بی بی کے خلاف شروع ہونے والی کردارکشی کی مہم سے کچھ ہی دن پہلے خود کو آئین و قانون سے مبراسمجھنے والے ایک سرکاری عہدیدار کے ایلچی نے اُن سے ملاقات کی۔ اِس ملاقات میں اُن کے سامنے دو راستے رکھے گئے۔ ایک ایسی“ڈیل”کا جو وہ عمران خان کے پاس لے کر جائیں اور اُس پر انہیں راضی کریں اور دوسرا راستہ ایک ایسی دھمکی تھی کہ جِس پر اُن کے انکار کے بعد سے عملدرآمد ہورہا ہے اور آج اِس فیصلے کے ذریعے اس کا ایک اور مرحلہ طے کیا گیا ہے، (اور یہ اب بھی آخری مرحلہ نہیں ہے)۔

جن حالات کا سامنا بشری بی بی نے کیا ہے یہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ جوعمر ہمارے معاشروں میں اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر آرام اور سکون سے زندگی گزارنے کی سمجھی جاتی ہے اس عمر میں ایک خاتون نے وہ راستہ چُنا جس کی صعوبتیں جھیلنے کا حوصلہ شاید مضبوط ایقان والوں کو ہی عطا ہے۔ وہ جانتی تھیں کہ اس سفر میں انہوں نے صرف کانٹوں پہ چلنا نہیں ہے بلکہ بدبودار جوہڑوں کے باسی اپنے چہروں کا کیچڑ اُن کی ذات پر بھی اچھالیں گے اور اس کی مثالیں آپ ان چند ماہ میں دیکھ چکے ہیں۔ قصور صرف اُس شخص کا سہارہ بننا کہ جس نے اس ملک کی بہتری کو اپنی زندگی پر مقدم رکھا اور اس کے مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا۔ اس وقت پاکستانی قوم سمجھتی ہے کہ آج ان فیصلوں کے ذریعے محض ہمیں ہماری اوقات بتاء جارہی ہیں۔ لیکن ہم نے 8 فروری کو اِن ظالموں کو ان کی اوقات بتانی ہے۔ جو گھناؤنی ڈیل بشری بی بی کو عمران خان کے پاس لے جانے کا کہا گیا اُس کی تفصیل میں جانے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں مگر اتنا کہہ دوں کہ پاکستانی قوم کو اپنا مستقبل بچانے کا یہ آخری موقع مہیا کرنے کے لیے عمران خان اپنا سب کچھ داؤ پر لگا چکا ہے اور اس موقع کو گنوانے کا پچھتاوا آپ رہتی دنیا تک نہیں مٹا سکیں گے۔ اگر آپ نے کسی بھی خوف کسی بھی دباؤ میں آکر، اپنا ووٹ ڈالنے کا حق سرینڈر کردیا تو عمران خان کی عزت اور اُس کی زندگی کا قرض آپ کو زندہ درگور کردیگا۔

بوگس توشہ خانہ کیس کے تفصیلی حقائق کے حوالے سے بھی میں مختصر بیان کر دیتا ہوں جس کے بعد فیصلہ دنیا خود کرئے گی۔ توشہ خانہ کیس سابق وزیر اعظم عمران خان کو عوام کی نظروں میں نواز شریف جیساکرپٹ اور لٹیرا ثابت کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش ہے۔ عمران خان کو ایک ایسے کیس میں سزا دلوائی گئی جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر،اور یہ بوگس کیس کوئی تھوڑی سی غیرت والا جج سنتا ہے تو دو منٹ میں ڈسٹ بن میں پھینک دیگا۔عمران خان پر الزام ہے کہ توشہ خانے سے لی گئی سعودی شہزادے سے ملنے والے تحفے کی قیمت کم لگائی گئی، سوال یہ ہے کہ کیا تحفے کی قیمت عمران خان نے لگائی؟نہیں بالکل ایسا نہیں ہوا بلکہ قانون کیمطابق کیبنٹ ڈویژن قیمت FBR اور مارکیٹ ایکسپرٹس سے لگواتا ہے، جو کہ 1.8 کروڑ روپے تھی۔ اب سوال ہے کہ کیا عمران خان نے تحفے کی کم قیمت ادا کی؟اس کا جواب بھی نہیں میں ہے کیونکہ عمران خان نے قانون کیمطابق 50% قیمت یعنی کہ 90 لاکھ روپے ادا کیے۔ سوال تو ہوگا کہ کیا تحفوں کی valuation کرنے والے کسی شخص کو ملزم بنایا گیا؟اس کا جواب بھی یہی ہے کہ بالکل نہیں! کیونکہ اگر valuation عمران خان نے نہیں کی، نہ ہی قیمت لگانے والا ملزم ہے اور قیمت بھی ادا کر دی تو پھر کس چیز کا کیس بنایا گیا،پاکستان کا سودا نہ کرنے کی سزا ایک گھڑی کی قیمت سے عمران خان کو کیوں دی گئی ہے۔ اس کیس میں نیب کے سٹار گواہ پر کی گئی جرح ہی بکواس کیس کو سمجھنے کے کیے کافی ہے: اس کیس کے لیے ہر پاکستانی یا انٹرنیشنل ایکسپرٹ نے جھوٹی قیمت لگانے سے انکار کیاتو تحفوں کی جھوٹی قیمت دوبئی میں ایک ہندوستانی کی دوکان پر پارٹ ٹائم کام کرنے والے ایک سپئیر پارٹس کے سیلز مین عمران مسیح کو تصویریں دکھا کر لگوائی گئی جس کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں:
• گواہ عمران مسیح ایک ایف اے پاس شخص ہے جو 8 سالوں کی کوششوں کے باوجود B_Com کا امتحان تک پاس نہ کر سکا۔
• عمران مسیح دبئی میں بھارتی دُکان پر 3800 درہم ماہانہ پر پارٹ ٹائم سیلزمین ہے جبکہ اسکے علاوہ ایک spare part دکان پر بھی نوکری کرتا ہے۔
• عمران مسیح کے پاس جیولیری کو پرکھنے کا کوئی سرٹیفیکٹ نہیں ہے نہ ہی اسکے پاس ہیروں کے تعین کرنے کے لیے متعلقہ سرٹیفیکٹ IGI ہے۔ عمران مسیح کو یہ بھی نہیں پتہ کہ IGI کس کا مخفف ہے۔
•عمران مسیح کو اپنی دوکان کے مالک کا بھی معلوم نہیں کہ وہ کون ہے۔
• اس سیلزمین نے مبینہ طور پر تحفے کی تصویر کو دُبئی کی Graff اور BVLGari کی دکانوں کو دکھا کر اور مارکیٹ ریسرچ کر کے جیولیری کی قیمت 300 کروڑ لگوائی (لیکن مارکیٹ ریسرچ اور دکانوں سے معائنے کا کوئی تحریری ثبوت پیش نہیں کیا)
• عمران مسیح کے پاس نہ تو کمپنی کی طرف سے قیمت کے تعین کا کوئی Authority letter جاری کیا گیا نہ ہی عدالت میں گواہی کے حوالے سے کوئی Authority letter جاری کیا گیا۔
• عمران مسیح کو یہ قیمت کے تعین کی ذمہ داری بھی کمپنی کی جانب سے نہیں دی گئی نہ ہی اسکے پاس قونصلیٹ جنرل سے رابطے کی کوئی چٹھی تھی۔ اسے یہ بھء معلوم نہیں کہ قونصلیٹ جنرل اور اسکی کمپنی کے مابین کیا طے ہوا اور اس سروس کی کتنی فیس لی گئی۔
• سیلزمین کے مطابق ہیرے کی قیمت کا تعین مائیکروسکوپ مشین، اسکینر اور ڈائمنڈ سلیکٹر سے کیا جاتا ہے لیکن نیب کے ریفرنس میں دیے گئے تحائف کا اس سے معائنہ نہیں کیا گیا کیونکہ اسکے پاس صرف تصاویر تھیں ناکہ زیورات۔
• گواہ عمران مسیح نے اپنی رپورٹ میں ہیروں کا وزن گرام میں لکھا جبکہ ہیروں کا وزن کیراٹ میں کیا جاتا ہے، اس بابت عمران مسیح نے اپنی غلطی تسلیم کی۔
• وکیل کی جانب سے گواہ کو چند زیورات کی تصاویر دکھائی گئیں تو گواہ نے کہا کہ میں تصاویر کی بنیاد پر قیمت نہیں لگا سکتا بلکہ مجھے زیورات کی specifications دیں گے تو قیمت بتا سکتا ہوں (اسی گواہ نے توشہ خانہ زیورات کی قیمت تصویر کی بنیاد پر لگائیں)۔
یہ ہے وہ عمران مسیح نامی بندہ اور اس کی گوہی جس کی بنیاد پر 1.8 کروڑ کے تحفے کو 300 کروڑ کا بنا کر پیش کیا گیا اور نیب چئیرمین نے کرپشن کا جھوٹا ریفرنس بنایا اور عمران خان کو سزا دی گئی ہے۔ اور ایک اہم بات کہ اگر قیمت غلط ہوتی بھی تو کیس کابینہ ڈویژن کے سٹاف پر بنتا تھا نا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی پر۔ پاکستان میں ایک مقبول لیڈر کو جیل میں قید کر کے ایک ایسے شخص کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کئی بات ملکی مفادات کو داؤ پر لگا چکا ہے۔ اس کی بیٹی اور کابینہ جلسوں میں پاکستانی فوج کیخلاف گالم گلوچ کر چکی ہے۔ جبکہ عمران خان نے تو ہمیشہ کہا کہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میری ہے۔ فوج پہلے ہے اور عمران خان بعد میں ہے۔ آج اس کا صلہ عمران خان کو جیل کی کال کوٹھری میں ڈال کر دی جا رہی ہے اور پیغام دیا جا رہا ہے کہ کوئی پاکستانی حکمران اپنی خودمختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرئے گا تو اس کا انجام بھی برا ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی قوم 8 فروری کو ووٹ کے ذریعے کیا فیصلہ سناتی ہے۔

Syed Umer Gardezi
About the Author: Syed Umer Gardezi Read More Articles by Syed Umer Gardezi: 4 Articles with 2473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.