حضرت ابراھیم بن ادھم کی اپنے رب تعالی سے دوستی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
سلطان التارکین سیدالاصفیاء صوفی بزرگ حضرت ابراھیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ کا نام اسلامی تاریخ میں بڑا معروف ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ طریقت میں یکتا بلکہ اپنے ہم عصروں میں سرداروں کے سردار حضرت خضر علیہ السلام کے مرید تھے آپ علیہ الرحمہ نے اپنے دور کے بڑے بڑے علماء کرام سے علم دین حاصل کیا بہت عرصے تک اپ علیہ الرحمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی صحبت میں بھی رہے ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ امام اعظم کی مجلس میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے آپ علیہ الرحمہ کو حقیر نگاہ سے دیکھا لیکن امام اعظم نے آپ علیہ الرحمہ کو سیدنا یعنی ہمارے سردار کہہ کر مخاطب کیا اور اپنے نزدیک اپنے پاس جگا دی جب لوگوں نے اپ سے اس بارے میں سوال کیا کہ انہیں سردار کہنے کی کیا وجہ ہے تو امام نے فرمایا کہ یہ وہ ہیں جن کا مکمل وقت اللہ کے ذکر میں گزرتا ہے اور ہم تو دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں امام اعظم کے اس فرمان سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کا مقام و مرتبہ کتنا بلند و بالا تھا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اتنا بلند مقام مرتبہ ایک بڑے اہم فیصلے کے بعد آپ علیہ الرحمہ کو ملا تھا وہ فیصلہ تھا اللہ پاک کی رضا کے لیے بادشاہت اور سلطنت چھوڑنے کا فیصلہ اس واقعہ سے پہلے آپ علیہ الرحمہ بلخ کے سلطان اور بہت بڑے حکمران تھے پھر آپ علیہ الرحمہ کی زندگی میں چند ایسے واقعات رونما ہوئے جس کے بعد آپ علیہ الرحمہ نے اپنی بادشاہت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ ہوا کچھ یوں کہ ایک رات آپ علیہ الرحمہ اپنے شاہی محل میں بستر پر ارام فرما رہے تھے کہ آپ علیہ الرحمہ کو اپنے کمرے کی چھت پر کسی کے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی آپ علیہ الرحمہ نے اواز دے کر پوچھا کہ چھت پر کون ہے تو جواب ملا کہ میں آپ علیہ الرحمہ کا ایک جاننے والا ہوں اور میں اوپر اونٹ تلاش کر رہا ہوں یہ سن کر آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے بندے چھت پر اونٹ کس طرح مل سکتا ہے اس سوال کے جواب میں اس شخص نے آپ علیہ الرحمہ کو جواب دیا کہ اگر چھت پر اونٹ نہیں مل سکتا تو آپ علیہ الرحمہ کو تخت و تاج کے ساتھ خدا کیسے ملے گا یہ سن کر آپ علیہ الرحمہ پر ایک قسم کی ہیبت سی طاری ہو گئی پھر دوسرے دن یہ ہوا کہ جس وقت آپ علیہ الرحمہ کا شاہی دربار لگا ہوا تھا تو وہاں کہیں سے ایک بہت ہی بردبار شخصیت دربار میں آ پہنچی حاضرین پر اس کا کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ کسی کو اس سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی وہ شخص تیزی کے ساتھ شاہی تخت کے نزدیک پہنچ کر چاروں طرف کچھ دیکھنے لگا جب آپ علیہ الرحمہ نے اس سے سوال کیا کہ تم کون ہو اور کس چیز کی تلاش میں یہاں ائے ہو تو اس نے کہا میں قیام کرنے یعنی رہنے کی نیت سے ایا تھا لیکن یہ تو مجھے مسافر خانہ لگ رہا ہے اس لیے یہاں رہنا ممکن نہیں ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے اس سے فرمایا یہ مسافر خانہ نہیں بلکہ شاہی محل ہے اس نے سے سوال کیا کہ آپ علیہ الرحمہ سے پہلے یہاں کون اباد تھا آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا میرے باپ دادا کئی پشتوں تک یہاں آباد رہے ہیں اور ان کے بعد میں یہاں موجود ہوں پھر اس نے آپ علیہ الرحمہ سے یہ کہا کہ آپ علیہ الرحمہ کے بعد یہاں کون رہے گا فرمایا میری اولاد اس نے کہا اپ ذرا سوچیے کہ جس جگہ اتنے لوگ ا کر چلے گئے ہوں اور کسی کو ہمیشہ یہ جگہ حاصل نہ ہو سکی ہو تو وہ جگہ اگر مسافر خانہ نہیں تو پھر اور کیا ہے یہ کہہ کر وہ اجنبی شخص اچانک غائب ہو گیا اب آپ علیہ الرحمہ چونکہ رات کے واقعے سے پہلے ہی پریشان تھے تو اس واقعے نے مزید آپ علیہ الرحمہ کو اور بھی زیادہ بے چین کر دیا اس کے بعد ایک تیسرا بڑا ہی عجیب واقعہ آپ علیہ الرحمہ کے ساتھ پیش ایا وہ یہ کہ ایک دن آپ علیہ الرحمہ جنگل میں شکار کے لیے نکلے ہوئے تھے کہ اچانک آپ علیہ الرحمہ کے سامنے ایک ہرن اگیا جب اس ہرن کا شکار کرنا چاہا تو وہ اچانک انسانی زبان میں بول پڑا کہ اگر آپ علیہ الرحمہ میرا شکار کریں گے تو خود شکار ہو جائیں گے اور پھر اس نے سوال کیا کہ کیا آپ علیہ الرحمہ کی پیداش کا یہی مقصد ہے کہ جنگلوں میں جاکر بس شکار کرتے پھریں؟.

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ وہ بار بار مختلف مواقعوں پر ہونے والے واقعات تھے جس کے بعد آپ علیہ الرحمہ کا دل دنیاوی آسائشوں کی طلب مقام و مرتبے کی خواہش اور دنیا کی محبت سے بالکل خالی ہو گیا اور آپ علیہ الرحمہ نے بادشاہت اور سلطنت کو چھوڑ کر اللہ کی رضا والی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا آپ علیہ الرحمہ تخت و تاج کو خیر اباد کہہ کر صحراؤں میں گریہ و زاری کرتے ہوئے ایک تاریک اور بھیانک غار میں جا پہنچے جہاں سکونت اختیار کرلی اور وہاں آپ علیہ الرحمہ مکمل نو سال تک عبادت میں مصروف رہے آپ علیہ الرحمہ کا معمول وہاں یہ بن گیا تھا کہ آپ علیہ الرحمہ ہر ہفتہ جمعہ کے دن لکڑیاں جمع کر کے بیچتے اور اس کے عوض جو کچھ ملتا تھا اس میں سے آدھا اللہ کی راہ میں اور ادھی رقم سے روٹیاں خرید کر نماز جمعہ ادا کرتے اور پھر ہفتے بھر کے لیے غار میں چلے جاتے تھے یہ فیصلہ آپ علیہ الرحمہ کا کوئی جذباتی فیصلہ نہیں تھا آپ علیہ الرحمہ نے حقیقی طور پر اپنے دل سے اللہ کے سوا ہر کسی کی محبت کو نکال دیا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب آپ علیہ الرحمہ نے بلخ کی سلطنت کو خیر اباد کہا تھا تو اس وقت آپ علیہ الرحمہ کا ایک بہت ہی چھوٹا بچہ تھا جو اب بڑا ہوچکا تھا جب اس نے جوانی میں اپنی والدہ سے پوچھا کہ میرے والد کہاں ہے تو والدہ نے پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد بتایا کہ وہ اس وقت مکہ مکرمہ میں رہ رہے ہیں اس کے بعد اس لڑکے نے پورے شہر میں اعلان کروا دیا کہ جو لوگ میرے ساتھ حج کے سفر پر چلنا چاہیں میں ان کے پورے اخراجات برداشت کروں گا یہ اعلان سن کر تقریبا چار ہزار افراد چلنے کے لیے تیار ہو گئے وہ لڑکا اپنی والدہ اور ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر والد کے دیدار کی تمنا میں کعبۃ اللہ شریف کی طرف روانہ ہوگیا جب کعبتہ اللہ شریف پہنچا تو اس نے حرم کی دینی شخصیات سے اپنے والد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ہمارے مرشد ہیں اس وقت جنگل میں لکڑیاں لینے گئے ہیں تاکہ انہیں بیچ کر اپنے اور ہمارے کھانے کا انتظام کر سکیں یہ سنتے ہی لڑکا جنگل کی جانب چل پڑا جب جنگل میں اس نے ایک بوڑھے کو سر پر لکڑیوں کا بوجھ اٹھاتےدیکھا تو محبت سے وہ لڑکا بے تاب ہو گیا لیکن اس نے ابھی کچھ کہا نہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ آپ علیہ الرحمہ کے پیچھے بازار کی طرف پہنچ گیا جب وہاں جا کر حضرت ابراہیم نے اواز لگائی کہ کون ہے وہ جو پاکیزہ مال کے بدلے پاکیزہ مال خریدے یہ بات سن کر ایک شخص نے روٹیوں کے بدلے میں آپ علیہ الرحمہ سے لکڑیاں خرید لی جن کو آپ علیہ الرحمہ نے اپنے مریدوں کے سامنے رکھ دیا اور خود نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابرہیم بن ادہم اپنے مریدوں کو ہمیشہ یہ ہدایت فرماتے تھے کہ زندگی میں ہر ممکن کوشش یہ کرنی ہے کہ کبھی کسی عورت کو نظر بھر کے نہ دیکھنا اور خصوصا اس وقت تو خاص احتیاط کرنا کہ جب حج کے دوران کثیر عورتیں جمع ہوتی ہیں ناظرین آپ علیہ الرحمہ کے تمام مرید اس ہدایت کے پابند رہتے تھے اور اس پر عمل پیرا ہوکر ہی ہر وقت آپ علیہ الرحمہ کے ساتھ رہتے تھے لیکن یکایک ایک مرتبہ ہوا یوں کہ دوران طواف ایک لڑکے پر آپ کی نظر پڑگئی اور نظر کیا پڑی کہ جم کے رہ گئی آپ علیہ الرحمہ کے مریدوں نے عرض کیا حضور اللہ پاک آپ علیہ الرحمہ پر رحم فرمائے یہ لڑکا کون ہے جسے آپ اتنا غور سے دیکھ رہے ہیں تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا یہ بات تو تم لوگ جانتے ہو کہ جب میں نے بلخ کو خیر اباد کہا تھا تو اس وقت میرا ایک چھوٹا بچہ تھا جو میں اپنے گھر چھوڑ آیاتھا نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے یہ وہی بچہ ہے اور پھر آپ علیہ الرحمہ نے اس بچے کی طرف سے نظر ہٹالی اور طواف دوبارہ شروع کردیا پھر اگلے دن آپ علیہ الرحمہ کا ایک مرید جب بلخ کے قافلے کی تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہی لڑکا ریشم کے خیمے میں ایک کرسی پر بیٹھا قران پاک کی تلاوت کررہا ہے مرید نے اس سے سوال کیا کہ اپ کون ہیں اور کس کے صاحبزادے ہیں یہ سنتے ہی اس لڑکے نے روتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا لیکن کل جنگل میں ایک بوڑھے شخص کو لکڑیاں اٹھاتے ہوئے دیکھ کر مجھے یہ لگا کہ شاید یہی میرے والد ہیں اور اگر میں ان سے کچھ سوالات کرتا تو مجھے خوف تھا کہ وہ فرار ہو جاتے کیونکہ وہ گھر سے بھاگے ہوئے ہیں اور ان کا اسم گرامی ابراہیم بن ادم ہے یہ سن کر وہ مرید چونک گیا اور کہا کہ چلیے میں اپ کی ملاقات آپ کے والد سےکرواتا ہوں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ مرید اپنے ساتھ حضرت ابراہیم بن ادھم کی زوجہ اور ان کے بیٹے کو لے کر بیت اللہ میں داخل ہو گیا اس وقت زوجہ اور بچے پر جب آپ کی نظر پڑی تو محبت کی شدت کی وجہ سے دونوں ماں بیٹے اپس میں لپٹ گئے اور روتے روتے بے ہوش ہو گئے ان کے ہوش میں انے کے بعد آپ علیہ الرحمہ نے اس لڑکے سے پوچھا تمہارا دین کیا ہے تو لڑکے نے جواب دیا اسلام پھر پوچھا لڑکے سے کہ تم نے قران کریم پڑھا ہے لڑکے نے ہاں میں جواب دیا پھر پوچھا کہ اس کے علاوہ اور بھی کچھ تعلیم حاصل کی ہے لڑکے نے کہا جی ہاں یہ سن کر آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا الحمدللہ اس کے بعد آپ علیہ الرحمہ جانے کے لیے اٹھے تو بیوی اور بچے نے اصرار کر کے آپ علیہ الرحمہ کو روکنا چاہا تو آپ علیہ الرحمہ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھا کر کہا یا الہی اغثنی یہ کہتے ہی آپ علیہ الرحمہ کے صاحبزادے زمین پر گر پڑے اور وہیں پر فوت ہو گئےسارے مرید حیران ہوگئے جب مریدوں نے آپ علیہ الرحمہ سے اس بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ جب میں اپنے بچے سے ملا تو میرا دل اس کی محبت میں تڑپ اٹھا عین اسی وقت مجھے غیب سے یہ ندا ائی کہ ہم سے دوستی کے دعوے کے بعد تم دوسروں سے دوستی رکھتے ہو یہ ندا سن کر میں نے عرض کیا کہ اے خدا تو میرے لڑکے کی جان لے لے یا پھر مجھے موت دے دے چنانچہ لڑکے کے حق میں یہ دعا قبول ہو گئی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ محبت کا اعلی درجہ ہے جہاں کسی کی بھی محبت اللہ کی محبت کے اڑے نہیں انی چاہیے کسی کی محبت میں کسی کی وجہ سے اللہ پاک سے توجہ نہیں ہٹنی چاہیے اسی محبت کے ذریعے امتحان لیا جاتا ہے۔ وقت یوں ہی گزرتا رہا ایک دن اپ رحمت اللہ تعالی علیہ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے اپنے لباس کو پیوند لگا رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص وہاں سے گزرا وہ آپ علیہ الرحمہ کو پرانے زمانے سے جانتا تھا اس کو پتہ تھا کہ آپ علیہ الرحمہ پہلے سلطان تھے پھر بادشاہت چھوڑ دی اور اللہ تعالی کے راستے پر نکل پڑے جب اس شخص نے آپ علیہ الرحمہ کو دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے اپنے لباس پر پیوند لگاتے دیکھا تو کہا کہ اے ابراہیم حکومت چھوڑ کر کیا پایا ایک لباس وہ بھی پھٹا پرانا اور اس کو بھی اپنے ہاتھوں سے پیوند یعنی جوڑ لگا رہے ہیں پہلے شاہانہ لباس ہوتے تھے آپ علیہ الرحمہ کے آس پاس سینکڑوں خادم ہوا کرتے تھے ان کو چھوڑ کر کیا پایا آپ علیہ الرحمہ نے جب یہ سنا تو اپنی سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر فرمایا اے مچھلیوں مجھے میری سوئی واپس کرو یہ سننے کی دیر تھی کہ مچھلیاں اپنے منہ میں سونے کی سوئیاں لے کر پانی کی سطح پر اگئی آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا یہ نہیں مجھے اپنی سوئی چاہیے تو ایک مچھلی اپنے منہ میں آپ علیہ الرحمہ کی سوئی لے کر حاضر ہوئی اور آپ علیہ الرحمہ نے اس سے اپنی سوئی لی اور اس شخص کو فرمایا اے شخص میں نے اس حکومت کو چھوڑ کر یہ پایا ہے یعنی پہلے تو میں زمین کے ایک چھوٹے سے حصے پر چند لوگوں پر حکومت کرتا تھا اب اللہ پاک نے دیگر مخلوقات کا بھی مجھے حاکم بنا دیا ہے اور اب میں بادشاہ نہیں بلکہ بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہوں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم دنیا دار لوگ ہیں اسی لئے اللہ رب العزت اپنی محبت اور اپنا قرب صرف اس کو عطا کرتا ہے جو صرف اس کی محبت کا دعویدار نہ ہو بلکہ واقعی دنیاوی لذتوں اور دنیاوی رشتوں سے دور رہتا ہو اور سب سے زیادہ صرف اور صرف اپنے رب تعالی سے محبت کرتا ہو کیونکہ جب کسی کے دل میں اللہ رب العزت کی محبت پیدا ہو جائے تو اس کے سامنے کسی اور کی محبت کبھی غالب نہیں آسکتی اور یہ ہی کچھ حضرت ابرہیم بن ادہم کے ساتھ ہوا کہ جب آپ علیہ الرحمہ بادشاہ تھے تو دنیاوی معاملات میں مصروف عمل رہتے تھے لیکن جب اللہ تعالٰی نے آپ علیہ الرحمہ کو اپنی محبت کا جام پلانا چاہا تو کچھ واقعات کے ذریعے آپ علیہ الرحمہ کی توجہ اس طرف دلائی اور یوں آپ علیہ الرحمہ نے دنیاوی زندگی اور اس کی رنگینیوں کو چھوڑ کر یہاں تک کہ اپنی بیوی اور بچے کی محبت کو بھی دل سے نکال کر صرف اپنے رب تعالی کی محبت کو دل میں بسا لیا بیشک اللہ رب تعالی اپنے نیک بندوں سے اسی طرح کا امتحان لیتا لیکن حضرت ابراہیم بن ادہم جیسے چند لوگ ہی اس آزمائش اور امتحان میں پورے اترتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ رب العزت کی محبت کے حصول کے لئے کسی بزرگیت یا ولایت کے منصب کی ضرورت نہیں بلکہ ایک عام انسان بھی یہ محبت حاصل کر سکتا ہے بس دنیاوی رنگینیوں ، لذتوں اور رشتوں میں محبتوں کو ترک کرنا ہوگا اور صرف اللہ تعالیٰ سے اپنے دل میں محبت کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا ہوسکتا ہے رب تعالی کی مصلحت اور مرضی سے وہ اپنا قرب عطا کرکے ہمیں بزرگیت اور ولایت سے سرفراز فرمادے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے اسلاف کی طرح ہمیں بھی اپنی محبت اور اپنا قرب عطا کرے اور اسی پر زندگی کی آخری سانس تک ہمیں کار بند رکھے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 130 Articles with 88874 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.