امت محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا اعزاز



اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ العمران کی آیت نمبر 110 کے ایک حصے میں ارشاد فرماتا ہے کہ
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-
ترجمعہ کنز العرفان :
(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے جب دنیا کو آباد کیا تو اپنے بات کو اور اپنے دین کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا اور ان کو امتیں عطا کی گئی جن میں سے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کو کتابیں بھی عطا کی گئی گویا سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم سے پہلے آنے والے ہر نبی کو امت عطا کی گئی پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل و حکمت سے بعض کو بعض پر فضیلت دی جیسے بنو اسرائیل اپنے وقت کی سب سے بہتر امت تھی لیکن انہوں نے معصیتِ الٰہی کا ارتکاب کرکے نعمتوں کو گنوا دیا پھر حضور پرنور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت کو اس دنیا میں بھیجا اور اس امت کو سب سے زیادہ افضلیت عطا کی گئی ایک حدیث جس کے راوی حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہیں فرماتے ہیں کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’رُعب کے ساتھ میری مدد کی گئی، مجھے زمین کی کنجیاں عطا کی گئیں ، میرا نام احمد رکھا گیا، میرے لئے مٹی کو پاکیزہ کرنے والی بنا دیاگیا اور میری امت کو بہترین امت بنا دیا گیا۔
(مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب، ۱ / ۲۱۰، الحدیث: ۷۶۳)۔
اسی طرح ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:

’’بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ، قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّي كُنْتُ مِنَ القَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ‘‘
ترجمعہ :
’مجھے انسانوں کے سب سے بہتر دور میں مبعوث کیا گیا چنانچہ صدی در صدی گزرتی گئی یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا جس میں میری بعثت ہوئی‘‘
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث کے مطابق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز حضرت نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا پھر ان سے سوال ہوگا کہ کیا تم نے تبلیغ کی ؟ وہ کہیں گے ہاں اے رب میں نے تبلیغ کی پھر آپ علیہ السلام کی امت کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ نوح علیہ السلام نے آپ کو تبلیغ کی تو جواب دیا کہ ہمیں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تو حضرت نوح علیہ السلام کو سوال کیا جائے گا کہ تم نے تبلیغ کی اس بات کا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے جو تمہاری گواہی دے تو فرمایا کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم اور ان کی امت میری گواہ ہیں اس کے بعد سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا کہ پھر تمہیں پیش کیا جائے گا اور تم گواہی دو گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی امت کو احکام الٰہی پہنچائے تھے پھر سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی کہ
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدً
( سورہ البقرہ آیت 143)
ترجمعہ کنز العرفان :
اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہوں۔
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا کہ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانوں تمہیں نیک و عادل اور افضل امت بنایا ہے تاکہ تم ان لوگوں گے بارے میں کہ جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور کفر وشرک پر قائم رہے ہیں گواہی دو اور تمہارے گواہ پیغمبر ﷺ ہوں گے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امت محمدی کی فضیلت میں بیشمار احادیث ہمیں ملتی ہیں جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى يَوْمٍ خَيْرٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ , هَدَانَا اللَّهُ لَهُ وَأَضَلَّ النَّاسَ عَنْهُ , فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ , هُوَ لَنَا , وَلِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ , وَلِلنَّصَارَى يَوْمُ الْأَحَدِ , إِنَّ فِيهِ لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا مُؤْمِنٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا , إِلَّا أَعْطَاهُ" .
ترجمعہ :
جمعہ سے بہترین کسی دن پر سورج طلوع یا غروب نہیں ہوتا لوگ اس میں اختلاف کرنے لگے جب کہ اللہ نے ہمیں اس معاملے میں رہنمائی عطاء فرمائی چنانچہ اب لوگ اس دن کے متعلق ہمارے تابع ہیں ہفتہ یہودیوں کا ہے اور اتوار عیسائیوں کا ہے۔ اور جمعہ کے دن ایک ساعت ایسی بھی آتی ہے کہ اگر وہ کسی بندہ مسلم کو اس حال میں میسر آجائے کہ وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ سے خیر کا سوال کررہاہو تو اللہ اسے وہ چیز ضرور عطاء فرما دیتا ہے۔
سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ یہ فضیلت صرف میری امت کو بخشی گئی جبکہ پچھلی امتوں کو اس سے محروم رکھا گیا ۔ (مسند احمد 10723)
یعنی جمعہ کے دن کی فضیلت صرف امت محمدی کو عطا کی گئی اور فضائل جمعہ سے ہر اہل ایمان مسلمان بخوبی واقف ہے اس کے علاوہ وہ تمام سختیاں اور بوجھ جو اللہ کی طرف سے بطورِ آزمائش دیگر امتوں پر ڈالی گئی تھیں ان تمام امور سے امت محمدیہ آزاد ہے اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی سورہ الحج کی آیت نمبر 78 کے ایک حصے میں ارشاد فرمایا کہ
هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيْمَ ۔
ترجمعہ کنز العرفان :
اس نے تمہیں منتخب فرمایا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی جیسے تمہارے باپ ابراہیم کے دین میں کوئی تنگی نہ تھی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دین کی یہ سختیاں پچھلی امتوں کے لئے تھیں امت محمدیہ کے لئے اس میں آسانی ہی آسانی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کو ایک اعزاز اور بھی بخشا ہے کہ دنیا میں آنے والی سب سے آخر میں اس امت محمدیہ کا بروز قیامت حساب و کتاب سب سے پہلے ہوگا ایک حدیث مبارکہ میں سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ، وَأَوَّلُ مَنْ يُحَاسَبُ، يُقَال:أَيْنَ الْأُمَّةُ الْأُمِّيَّةُ، وَنَبِيُّهَا؟ فَنَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ۔
ترجمعہ:
وجود کے اعتبار سے ہم سب سے آخری امت ہیں اور ہمارا حساب سب سے پہلے کیا جائے گا،قیامت کے دن پکارا جائے گا کہ کہاں ہیں اُمی امت اور اس کے نبی؟چنانچہ ہم زمانہ کے لحاظ سے تو سب سے آخر میں آئے ہیں لیکن ہمارا حساب سب سے پہلے ہوگا‘‘
سنن ابن ماجۃ:4290
اسی طرح رب الکائنات نے امت محمدیہ کو ایک یہ بھی اعزاز بخشا ہے کہ بروز قیامت پل صراط پر سے سب سے پہلے امت محمدیہ کا گزر ہوگا جسے صحیح البخاری کی ایک حدیث مبارکہ جس کے راوی ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ
’’وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُهَا‘‘
ترجمعہ:
’’جہنم کی پشت پر پل رکھا جائے گا میں اور میری امتی سب سے پہلے اس پر سے گزریں گے‘‘
صحیح البخاری: 7437
اسی طرح باری تعالی نے امت محمدیہ کو یہ اعزاز بھی بخشا ہے کہ سب سے پہلے داخل جنت امت محمدیہ کے لوگ ہوں گے جسے ایک حدیث جس کو روایت کیا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’نَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ‘‘
ترجمعہ :
’’زمانے کے لحاظ سے تو ہم آخر میں آنے والے ہیں البتہ قیامت کے دن ہمارا فیصلہ سب سے پہلے ہوگا اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ‘‘
(صحیح مسلم : 855)
اسی طرح ایک اور حدیث جو روایت کی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ
’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ:أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا ‘‘
ترجمعہ :
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا‘‘
(صحیح البخاری :3348)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امت محمدیہ کی فضیلت کے مطابق سنن ابن ماجہ کی حدیث مبارکہ 4286 میں یہ بھی آیا ہے کہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے رب تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ میری امت کے 70 ہزار لوگوں کو وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کردے گا اور ہر ایک ہزار کے ساتھ 70 ہزار مزید ہوں گے اور مزید برآں میرے رب کے تین لپ یعنی ہاتھوں کی مٹھیوں کے برابر اور بھی بلا حساب و کتاب جنت میں جائیں گے ۔اسی طرح سنن ابی داؤد کی حدیث مبارکہ 4278 میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت پر بروز محشر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہوگی ان پر عذاب نہ ہوگا جیسے دوسری امتوں پر ہے ان پر عذاب دنیا میں باہمی جھگڑے ٫ زلزلے اور اس کے نتیجہ میں قتل ہوجاناہے ۔اسی طرح امت محمدیہ کی فضیلت کے ذکر کے طور پر سنن ابن ماجہ کی حدیث 90 میں یہ بھی آیا ہے کہ سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ میری بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت میں عورتوں کی سردار ہوں گی میرے نواسے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نوجوانوں کے سردار ہوں گی جبکہ جنت میں بوڑھوں یعنی جو لوگ بڑی عمر میں انتقال کرجاتے ہیں ان کے سردار حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہوں گے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سنن ترمذی کی ایک حدیث مبارکہ 2167 میں سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ عین ممکن ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے ہٹ جائیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ میری پوری امت گمراہی کے راستے پر چل پڑے ۔اللہ تعالی کی خصوصی نوازش اس امت محمدیہ پر یہ بھی ہے کہ بہت کم ثواب پر بڑا اجر عطا کیا گیا جیسے شب قدر کی عبادتوں کو ہزار مہینوں کی عبادت سے کیا ہے اسی طرح یوم عرفہ کے دن روزہ رکھنے والے کو دو سال کے گناہوں کا کفارہ عطا کیا گیا اسی طرح رمضان المبارک کے روزے مکمل کرنے کے بعد جو شوال کے چھ روزے رکھے اسے صیام الدہر یعنی ہمیشہ روزے کی حالت میں رہنے والے کی فضیلت عطا کی گئی اسی طرح جس نے یوم عاشورہ کے دن کا روزہ رکھا اس کے ایک سال کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اسی طرح حرم مکہ کی ایک نماز کا اجر اس امت محمدیہ کو دوسری جگہ کے مقابلہ میں ایک لاکھ نماز سے زیادہ دے دیا گیا اسی طرح حرم مدینہ کی ایک نماز کا اجر ایک ہزار نمازکے برابر کردیا گیا اسی طرح امت محمدیہ پر پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی مگر اس کا اجروثواب پچاس نمازوں کے برابر کردیا گیا ۔
( سنن ابن ماجہ 1731 ,صحیح مسلم 1164 ،مسلم 1162, مسند احمد15271 , صحیح مسلم باب الاسراء بالرسول 162) ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور خصائل شریف کے اندر امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس حدیث کو لکھا اور دیگر بہت سارے محدثین کرام نے بھی اس حدیث شریف کو لکھا اس حدیث کے مطابق حضرت موسی علی نبینا علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کی کہ اے باری تعالی جو تو نے مجھے تورات عطا کی ہے اس کی تختیوں کے اندر میں نے ایک امت کا تذکرہ پڑھا ہے اور اس امت کی شان یہ ہے کہ وہ جو دعا مانگیں گے تو تو اسے قبول فرمائے گا کہا ہاں اے موسی یہ امت ہے تو عرض کیا اے رب یہ امت مجھے عطا فرما دےتو اللہ رب العزت نے فرمایا نہیں اے موسی یہ امت میں نے اپنے حبیب محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے پھر عرض کیا کہ باری تعالی میں نے ایک اور امت کا تذکرہ بھی اپنی کتاب میں موجود تختیوں میں پڑھاہے کہ ان کی جو کتاب ہوگی جو ان کے نبی کو ملے گی وہ ان کے سینے میں محفوظ ہو جائے گی اور جو چاہے گا یاد کر لے گا تو کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے بالکل وہ امت بھی ہے عرض کیا اے رب چلو وہی امت مجھے عطا فرما دے فرمایا نہیں یہ امت بھی میں نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کو عطا فرما دی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ باری تعالی میں نے ایک اور امت کا تذکرہ بھی پڑھا ہے کہا کہ وہ کیا ہے عرض کیا وہ یہ ہے کہ اس امت کے پاس اولین و اخرین کا علم ہوگا اور ایسا علم ہوگا کہ دیکھنے والے حیران ہو جائیں گے اور وہ ڈرنے والی امت نہیں ہوگی جہاں پر حق سچ ہوگا وہ بیان کر دیں گے خواہ کسی کو تکلیف ہی کیوں نہ ہو کہا ہاں اتنی جرات والی امت تو ہے تو کہا پھر یہ ہی امت مجھے دے دے تو رب تعالی نے فرمایا یہ بھی میں نے مصطفی کریم کو عطا فرما دی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر عرض کیا یا اللہ میں نے ایک اور امت کا تذکرہ بھی پڑھا ہے کہا وہ کیا ہے عرض کیا وہ یہ ہے کہ اگر وہ امت نیکی کا ارادہ کرے گی تو تو ثواب عطا کر دے گا ابھی کی نہیں ہے اور جب وہ کر گزرے گی تو تو 10 گنا ثواب عطا فرما دے گا کہا ہاں یہ امت بھی ہے تو کہا چلو یہ امت مجھے عطا کر دے اللہ نے فرمایا یہ امت بھی میں نے مصطفی کریم کو عطا فرما دی ہے پھر انہوں نے عرض کی باری تعالی میں نے ایک اور امت کا تذکرہ بھی پڑھا ہے کہا وہ کیا ہے کہا وہ یہ ہے کہ اگر وہ امت گناہ کا ارادہ کرے تو تو بالکل لکھنے والے کو کوئی گناہ نہیں لکھنے دے گا اگر وہ گناہ کر لے تو فقط ایک گناہ لکھا جائے گا اور وہ بھی اس شرط پر کہ اگر توبہ کر لے تو وہ بھی معاف فرما دیا جائے گا تو کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ چلو یہ امت مجھے دے دے فرمایا نہیں اے موسیٰ یہ امت بھی میں نے اپنے حبیب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کو عطا فرما دی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت کو وہ فضائل و مرتبہ عطا کیا ہے کہ جس کی وجہ سے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کی یہ خواہش رہی کہ یا تو یہ امت انہیں دے دی جاتی یا پھر انہیں بھی اس امت میں شامل ہونے کی سعادت مل جاتی اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ کیا کیا فضیلتیں اللہ تبارک نے سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے صدقہ و طفیل آپ علیہ وآلیہ وسلم کی امت کو عطا کی گئی یہاں امت محمدیہ کے جو جو فضائل و عظمت تحریر کئے گئے ہیں بات یہیں تک نہیں ہے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے امت محمدیہ کو جو فضائل عطا کئے ان سب کا احاطہ یہاں کرنا ممکن نہیں بس ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے امت محمدیہ میں شمولیت صرف رب تعالی کا فضل ہے اور یہ اس کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہم جیسے گناہگاروں کو اس کے لئے چنا اور بیشک یہ صرف اس کے اختیار میں ہے
وہ جسے چاہے چنے اور جسے چاہے ٹھکرادے جسے چاہے عزت بخشے جسے چاہے ذلت ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں امت محمدیہ کے یہ فضائل پڑھ کر اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اپنا محاسبہ ہمیں خود سے کرنا ہوگا کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ ہمیں اس امت میں شامل کیا جاتا کیا ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہمارا شمار سمت محمدیہ میں ہوتا پچھلی امتوں کو ان کے کسی نہ کسی ایک گناہ کے سبب اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑا لیکن اگر ان ساری امتوں کے گناہوں کو اکٹھا کردیا جائے تو وہ سارے گناہ اس امت محمدیہ کے اندر موجود ہیں لیکن اس رب تعالی کا کرم دیکھئے کہ وہ پھر بھی اپنے حبیب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کے صدقہ و طفیل ہم ہر رحمتوں کی چھما چھم بارشیں برسا رہا ہے لہذہ ہمیں رب کریم کا اس عظیم احسان نعمت پر شکر گزار ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوکر اس کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر دل و جان سے عمل کرنا ہوگا اللہ رب تعالی سے دعا ہے کہ اس نے امت محمدیہ کو جن شان و عظمت اور فضیلتوں سے نوازا ہے انہیں اپنانے کی توفیق عطا کرے اور امت محمدیہ میں شامل ہونے کے ناطے جو فرائض ہم پر لاگو ہوتے ہیں آج کے اس کے اس پرفتن دور میں انہیں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلیہ وسلم۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 130 Articles with 88911 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.