کیا وجہ ہے کہ نوجوان کی اکثریت پاکستان میں نہیں رہنا چاہتی

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے تقریبا 76 سال ہو چکے ہیں جو بابائے قوم نے اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد سے برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اس علیحدہ مُلک حاصل کرنے کے لیے جو قربانی دیں اور اس خطہ میں ایک آزاد و خود مختار ملک حاصل کیا. اس ملک کے لیے جو خواب ملک کے مسلمانوں نے دیکھے تھے وہ کیا پورے ہوئے تو شاید اکثریت اس سے انکاری میں جواب آپ آج اگر کسی بھی نوجوان سے معلوم کرؤ تو اُس کا یہ ہی جواب آئیگا کہ نہیں اور آج کل اس مُلک کا ان پڑھ نوجوان یا پڑھا لکھا سب اس مُلک سے مایوس ہورہا ہے نہ ہی ہمارا معاشرہ ، نہ ہی اس مُلک ک پالیسی ممبرز اور نہ ہی ہمارے حکمران جس میں ( سیاست داڈون ، ڈکٹیٹر یا بیروکریسی ) نے نہ کبھی اس پر غور و فکر کیا اور نہ ہی کبھی اس مُلک کی نوجوان نسل کے بارے میں سوچا کیونکہ نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد اس وقت 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جبکہ 29 فیصد آبادی 15 سے 29 سال عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ جبکہ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ نوجوانوں کو بااختیار بنایا جائے اور انہیں درپیش رکاوٹوں کے اصل اسباب کو دور کرنے کے پر توجہ دی جائے۔ یہ نوجوان کی تعداد آج کل کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ یہ نوجوان کی اکثریت اس ملک میں نہیں رہنا چاہتی اپن اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا دوست یا عزیز امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ یا کسی یورپی ممالک میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔اور اس کے لیے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بس اس مُلک سے نکل جانا چاہتا ہے آخر کیوں ہماری نوجوان نسل اب اس ملک میں نہیں رہنا چاہتی؟ کیا انھیں اس ملک میں اپنا مستقبل خطرے میں نظر آرہا یا یہ اس مُلک کے مستقبل سے مایوس ہیں یا کوئی اور خدشات ہیں؟

اس کی وجہ بیروزگاری کے علاوہ بھی بہت سی وجہ آجکل سر چڑھ کر واقع پزیر ہورہی ہیں اچھے خاصے خوشحال گھرانے کے نوجوان اور مکمل فیملی بھی اس مُلک سے نکلنا چاہتیں ہیں مثلا اس طرح کی شکایت کرتیں نظر آئی ہیں کہ ہم لوگ کسی بھی تفریح گاہ پارک وغیرہ یا اپنے گھر سے باہر نکلیں بھی تو ہر دوسرے روز ایک نیا واقعہ رونما ہوتا ہے جس سے ہمارے بچوں میں خوف وہراس رونما ہورہا ہے جس سے ان کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑھ رہا ہے.

پاکستان کے ہر بڑے شہر کراچی ، لاہور، حیدرآباد ، پنڈی ، اسلام آباد ، فیصل آباد ، سیالکوٹ ، پشاور و کوئٹہ وغیرہ میں آئے دن سکیورٹی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں خواتین کے ساتھ آئے دن جنسی حراس منٹ بڑھتی جارہی ہے گھر سے مارکیٹ جاتے ہوئے بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے.

ہر دوسرا بندہ خواتین کو گھور رہا ہوتا ہے، آوازیں نکالنا ہیں، شکلیں بنانا ، لڑکیوں کو دیکھ کر قہقے لگانا یہ خاص کر خواتین یا لڑکیاں آئے دن اس طرح کی حرکات ہوں اور انہیں کوئی ادارہ نہ روک سکے اسی وقت آپ سوچنے لگتے ہیں کہ اس سے پہلے کوئی بڑی حرکت ہو یہاں سے نکلنا چاہیے اگر کچھ کہنا بھی بلاوجہ دشمنی مول لینا کیونکہ یہ بگڑے ہوئے رہیس زادوں و وڈیروں کی نسلیں ہیں جن ہر ادارے بھی ہاتھ ڈالتے ہوئے دس دفعہ سوچتے ہیں. بیچاری خواتین یہاں سے جلدی نکلنے میں ہی اپنی عافیت و عزت سمجھتیں ہیں

اگر روزانہ انھیں ضروری کام سے گھر سے نکلنا بھی پڑے تو اپنے شوہر یا کسی مرد کو ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے تاکہ انھیں تسلی رہے کہ اگر ان کے ساتھ کوئی غلط حرکت کرنےکی کوشش بھی کرتا ہے تو کوئی بچانے والا موجود ہو گا۔

خدانخواستہ پاکستان میں اگر کسی عورت کے ساتھ کچھ برا واقعہ پیش آجائے تو اس کی رپورٹنگ کا بھی قابلِ بھروسہ نظام موجودہ نہیں اور نہ ہی کتنے خواتین ک ساتھ واقعات ہوگئے کوئی جلد انصاف کی توقع کرنا اپنا سر دیوار پر مارنا جیسا ہے.

پاکستان کا ٹرانسپورٹ سسٹم ایسا لگتا ہے کہ یہ خواتین کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ ( کراچی شہر میں کچھ مہینہ پہلے پیپلز بس سروس شروع کی جو کراچی جیسے شہر کے لیے اونٹ کے منہہ میں زیرہ والی ضرب المثل ہے) اگر ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرنا پڑ جائے تو انھیں 100 چیزوں کا دھیان کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا ماحول اور ٹرانسپورٹ سسٹم ہی ایسا نہیں کہ اس میں خواتین اکیلے سفر کرتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھیں . پاکستان میں آج بھی ذہنی صحت کے حوالے سے دقیانوسی خیالات پائے جاتے ہیں لہذا یہاں رہتے ہوئے اکثر یہ ہی شکایت کرتے نظر آئے کہ انھیں اپنے کیرئیر کے حوالے سے کوئی بھی اچھی امیدیں یہاں نہیں اور یہاں ان کی پریکٹس ایسی نہیں ہو سکتی جیسی باہر کے ممالک میں ممکن ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ان کی فیلّڈ کے حوالے سے اسپیشلائزیشن کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔ کہتے ہیں وہ جس نظامِ تعلیم سے گزررہے ہیں انھیں لگتا ہے کہ اس نے انھیں کوئی فائدہ نہیں دیے سکتا کہ وہ اپنے بچوں کو اس ملک کا رٹہ لگانے والا نظامِ تعلیم نہیں دینا چاہتے ( اب تو کیمبریج سسٹم کے تعلیمی ادارے و ٹوشن سینٹر بھی ایک کمائی کی انڈسٹری بن گئے ہیں . ) وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ایسے ملک میں تعلیم حاصل کریں جہاں وہ پریکٹیکل چیزیں اور ایسے کھیل سیکھیں جو زندگی میں ان کے کام آئیں۔

نوجوان نسل اس لیے پاکستان سے باہر جانا چاہتی ہے کہ شروع سے ماں باپ نے ان کے ذہن میں بنایا ہوا ہے کہ ’بیٹا باہر جاؤ گے تو تمھیں اور بھی اچھا ملے گا کیونکہ وہ ملک اور اقوام ہم سے بہت آگے ہیں.

اس ملک پاکستان میں لوگ صرف ڈاکٹر، انجئنیر، چارٹر اکاونٹینٹ یا ایگزیکٹو کلاس کی جابس والوں کو ہی پڑھا لکھا سمجھتے ہیں جبکہ کچھ پیشہ ان ایگزیکٹ جابس سے بھی بہتر پیشیں ہیں مگر ان کو کم تعلیم پاس والے سمجھتے ہیں جیسے اگر کوئی شیف بن گئے تو پاکستانی لوگ انہیں بغیر قابلیت والے لوگ ہی گرانتے ہیں جنھوں نے زندگی میں کچھ نہیں کیا اسی لیے شیف بن گئے۔ یہاں لوگوں کو شیف کا مطلب ہی سمجھ نہیں آتا۔ شیف کھانا پکاتا نہیں بلکہ ڈش تخلیق کرتا ہ جو ایک آرٹ ہے. مگر اس ملک میں اس طرح کہ پیشوں کی حوصلہ افزائی نہ ہونے سے لوگوں میں یہ پیشہ ابھی تک ایک بڑا باورچی ہی لوگ سمجھتے ہیں جبکہ دنیا میں جتنا آجکل شیف کا پیشہ پیسے بنارہے اور مشہور ہورہے ہیں چاہے کوئی اور پیشہ اس کے مقابلے پر آئے.

پاکستان میں اور خاص کر فیملیوں میں برا سمجھا جاتا ہے مثال کے طور پر اگر کوئی نوجوان ایک اچھا شیف بنا چاہت ہے مگر والدین معاشرے کے ڈر سے ایسے شیف کی نوکری کرنے سے منع کردئیگا اور اس کے کیرئیر کو بریک لگ جائیگی کیونکہ والدین کا خیال تھا کہ ’پاکستان میں لوگ شیف کو گھروں میں کام کرنے والا باورچی ہی سمجھتے ہیں .اگر وہ ادھر کام بھی کرئے اور کتنی بھی شیف بن کر محنت کرئے وہ اگر میں پاکستان میں رہتا ہے اور بہت اچھا بھی کر لے تو ریستوران کا مالک بن جائیگا مگر اچھا شیف نہیں بن پائیگا۔ کیونکہ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ تقریبا ناممکن ہے, ہاں وہ باہر جا کر اُسے جو مواقع ملیں گے وہ یہاں نہیں مل سکتے۔ ہمارے ملک میں کچن کی وہ گائیڈ لائنز ہی نہیں، جو باہر کے ملکوں میں فالو کی جاتی ہیں شیف کے پروفیشن میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو بہترین شیف بننا ہے تو بہترین شیف کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔ بطورِ شیف پاکستان میں پیش آنے والے مسائل کی مثال اگر یہاں انھیں کوئی ایک نئی ڈش تخلیق کرنی پڑے تو اس کے اجزا کو باہر سے منگوانے کا عمل ہی اتنا مشکل اور مہنگا ہے کہ اس پر دس گنا زیادہ لاگت آتی ہے وہ اپنے لیے بہتر مواقع چاہتے ہیں اور ملک سب چھوڑ چھاڑ کر باہر شفٹ ہونا پڑے۔

پاکستان میں اور خاص کر سندھ کے بڑے شہر کراچی , لاہور، حیدرآباد ، پنڈی وغیرہ ان میں سکیورٹی بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔سگنل پر رکتے ہر ڈر لگتا ہے کہ موبائل نہ چھن جائے اور اگر پیسوں کی ضرورت پڑ جائے تو اے ٹی ایم پر رکنے کا سوچ بھی نہیں سکتے گیٹ لاک بھی کرلیں تب بھی ڈر لگتا ہے۔‘

موبائل اسنیچنگ روز کا معمول بن گیا ہے کراچی میں ہر پانچواں آدمی اسنیچنگ کا شکار بن چکا ہے جو بمعہ ہتھیار کے آکر ان سے اُلجھنا بھی اپنی جان سے دھونا ہے کتنے نوجوان آئے روز موت کے شکار ہورہے مگر آج تک کسی کی سزا کا پتہ نہیں چلا جب ملزم پکڑے جاتے ہیں تو یہ زرایع و ابلاغ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ملزم ایک دو ہفتے پہلے ہی ضمانت پر رہا ہوکہ باہر آئے تھے اس طرح کی صورتحال میں نوجوان کیا کریں لوگوں کے دماغ میں ایسا ڈر و خوف بیٹھ چکا ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے گاڑی کے شیشے نیچے نہیں کرنے کہ ایک انسان ساری زندگی اتنی پریشانی اور ڈر میں کیسے جی سکتا ہے؟


پاکستان میں ایک غیر شادی شدہ عورت اکیلے نہ ہی رہ سکتی ہے نہ ہی سفر کرسکتی اس کے لیے یہاں رہنا بالکل بھی آسان نہیں۔ اب بھی عوامی مقامات پ عورتوں کو بہت عجیب اور شک بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر ڈھابوں اور ریستوران ت مردوں کا غلبہ ہی نظر آتا ہے۔

جبکہ یورپ اور امریکہ وغیرہ کافر معاشرے میں ایک غیر شادی شدہ عورت کے طور پر انھیں قبول کیا جائے گا.یورپی ممالک میں ٹرانسپورٹ ، تعلیم اور صحت کی سہولیات سے بھرا پڑ ہے جبکہ پاکستان میں یہ % 02 طبقہ ہی کو یہ سہولیات حاصل ہورہی ہے. اور بڑی ڈھٹائی سے اس سے مُستفید ہورہے ہیں مگر غریب اور مڈل کلاس آئے دن یوٹیلیٹی بلز پر بلڈپریشر وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں.

اس ملک کی ہر ماں ، بہن ، بیٹی یہ ہی چاہتی ہیں کہ جب وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہی ہوں، یا باہر سڑک پر چلتے ہوئے گھر جا رہی ہوں تو اس وقت انھیں تنگ نہ کیا جائے اور انھیں گھورا نہ جائے۔پاکستان میں تو کوئی غیر شادی شدہ خواتین کو گھر بھی کرایہ پر نہیں دیتا. اگر خدانخواستہ کسی خواتین کے ساتھ دیار غیر واقعہ پیش آ جاتا ہے تو اتنا یقین ہے کہ عورت ہونے کے ناطے اُسے ہی موردِالزام نہیں ٹھہرایا جائے گا، جبکہ پاکستان میں ( جس کی مثال کچھ سال پہلے لاہور موٹر وے پر رات کے وقت گاڑی میں پیٹرول ختم ہونے پر کار رک جانے پر اکیلی ایک تنہا عورت کی بچوں کے سامنے درندوں نے اُس کی عصمت دری کی جبکہ معاشرہ بھی اور اُس وقت پولیس کا چیف بھی عورت کو ہ مورالزام ٹہرایا کہ رات کے وقت تہنا نکلنے کی کیا ضرورت تھی ) جبکہ کافر ملکوں میں خواتین کی بات کو سنجیدگی سے لیا جائے گا خواتین کی شکایت پر قانونی کارروائی ہو گی۔ جہاں تک جرائم کی بات ہے تو وہ تو ساری دنیا میں ہیں مگر اتنا تو یقین ہے کہ وہاں انصاف تو ملے گا۔ وہاں خواتین کے لیے اکیلے سفر کرنے کو ایک ’انوکھا کام‘ نہیں سمجھا جائے گا باہر ملک میں بھی کئی طرح کی مشکلات تو وہاں بھی ہیں تنگ کرنے والے لوگ بھی ہیں مگر وہاں کم از کم آپ کسی بندے کی رپورٹ کر سکتے ہیں اور آپ کو ڈر نہیں ہوتا کہ یہ کسی سیاست دان کا یا اشرافیہ کا بیٹ یا بھائی الٹا میرے ساتھ کچھ برا کرے گا۔

کچھ نوجوان وہ بھی بہترین دماغ کے ساتھ ساتھ اچھی نوکریاں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ بھی اس ملک سے اب مایوس ہوکر یہ ہی کہتے سنا ہے کہ یہاں جاہل اور دو نمبرز ہی کامیاب ہوسکتا ہے کافر ملک میں کچھ بڑا حاصل کرنے کے لیے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں .مگر باہر جو سب سے اہم بات یہ کہ ’وہاں کیرئیر آگے بڑھانے کے مواقع مل رہے ہوتے ہیں.

اگر ایک بار آپ کوئی ایسی سوسائٹی میں رہیں، جہاں غیر شادی شدہ عورتوں کا اکیلے رہنا معمول کی بات ہے، اور ان کو سہولیات کی عادت پڑ جائے جو یہاں سے بہت بہتر ہیں، تو واپس پاکستان آ کر رہنا بہت مشکل کیا اُس کے لیے ناممکن ہو جائیگا. انھیں نہیں لگتا کہ ایک بار زندگی میں آگے جا کر وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے، ہاں اگر کبھی آنا پڑا تو اس کی وجہ ان کے والدین ہوں گے جن سے ملنے وہ آتے رہیں گے مگر یہاں واپس سیٹل ہونے کا کوئی چانس نہیں لے گا کیونکہ جس طرح کی مایوسی اور گھٹن اس ماحول میں بڑھتا جارہا ہے اور آج کا نوجوان جب اہنے ہاتھ میں موبائیل جس میں چند سیکنڈوں میں وہ دنیا کی ہر معلومات کی آگہی ہوجاتی ہے. جب وہ دنیا میں وہ نوجوانوں کی آزادی و کوالٹی آف لائف کو دیکھتا ہے اور پھر اس کو اپنے ملک سے موازنہ کرتا ہے. تو وہ اب نااُمید ہوجاتا کہ اس ملک میں نمبر دو پیسے والے یا طاقت ور ہی کامیاب میں چاہے کتنی بھی محنت کرلیں مجھے اس کا صلہ نہیں ملیگا اس لیے اب نوجوان کسی طرح بھی جائز یا ناجائز طریقے سے دیار غیر جانا چاہتا ہے.

اور یہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی طرف جائے اور خوب سے خوب تر کی تلاش ساری زندگی جاری و ساری رکھے مگر جائز طریقے سے.
 

انجئنیر! شاہدہ صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہدہ صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہدہ صدیق خانزادہ: 307 Articles with 109358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.