مذہب کے نام پر سیاست نہیں اقتدار کے خوب مزے لوٹے گئے ہیں‎

اسلام کے نام پر سیاست کرنے والوں کی کبھی اقتدار تک رسائی تو نہیں ہوئی مگر اقتدار میں رہنے والوں نے اسلام کے نام پر اقتدار کے خوب مزے لوٹے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال آج سے نہیں بلکہ برتانوی سامراج کے دور تحریک آزادی سے استعمال ہوتا آرہا ہے اور پاکستان حاصل کرنے کا بنیادی مقصد ہی اسلام تھا اور اسلام کے نام پر پہلی ریاست پاکستان ہی وجود میں آئی ہے۔ تحریک آزادی کے بعد بر صغیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ایک ہندستان اور دوسرا پاکستان ہندوستان روز اول سے ایک سیکیولر ریاست کی حیثیت اختیار کرتا ہے اور پاکستان اسلامی ریاست کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کے نا ہندوستان میں مکمل سیکیولرزم ہے نا پاکستان میں مکمل اسلام کا نفاذ ہے۔ ہندوستان کی اگر بات کی جائے تو ایک ایسی برائے نام سیکیولر ریاست ہے جہاں مذہبی ہندو انتہا پسندی عروج پر ہے۔ غیر ہندؤں کو وہاں پر مذہبی آزادی نہیں جو کے سیکیولرزم کے اصول کے بالکل برعکس ہے۔

بات کرتے ہیں ایک اسلامی جمہوری ریاست یعنی پاکستان کی پاکستان ایک ایسا اسلامی ملک ہے جہاں پر حکومت تو مسلمانوں کی ہے مگر اسلام کی نہیں۔ نام اسلامی اور نظام غیر اسلامی۔ یہاں پر خالصتاً اسلام کے نظام کے نفاذ کے لیے بات کرنا اور اسلامی اصولوں پر سیاست کرنا جرم اور دکیانوس عمل سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں اور ان جماعتوں کے سربراہان جن کی سیاست اور جماعت کا بنیاد ہی مذہب ہوتا ہے وہ مذہبی لوگ تو بہت تنقید کا نشانہ بنتے ہیں مگر وہ سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں کے سربراہان جو سوشلزم، لبرلزم اور سیکولرزم کی بنیاد پر سیاست میں آتے ہیں اور اقتدار حاصل کرتے اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ بھی اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اسلام کا استعمال کرتے ہیں مگر کبھی تنقید کا نشانہ تو نہیں بنتے اور مزید مجاہد اسلام اور امیر المومنین کہ القابات سے نوازے جاتے ہیں۔

ٹی وی کے اینکر حضرات تجزیہ نگار اور سیکولر اور لبرل نظریے اور ان جماعتوں سے وابستہ سیاست دان تو ان مذہبی سیاستدانوں اور ان کی سیاست پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں شاید انہوں نے کبھی اقتدار میں رہنے والے سیکیولر اور لبرل حکمرانوں کا اسلام کا استعمال کرنا دکھائی نہیں دیا

اگر 1970 کے ہونے والے پہلے عام انتخابات سے لیکر آج تک ملکی تاریخ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو سوائے مشرف صاحب کے باقی تمام حکمرانوں نے اقتدار کو انجوائے کرنے کے لیے اسلام کا استعمال کیا ہے۔

بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کا بنیاد ہی سوشلزم پر رکھا تھا خود شہید ذوالفقار علی بھٹو صاحب لبرل اور غیر مذہبی تھے مگر مذہبی سیاسی مخالفین کی وجہ سے اقتدار میں آکر اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں یہی روایت محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے اپنائی تھی۔ بھٹو صاحب کے بعد ضیاء الحق صاحب آتے ہیں انہوں نے تو اقتدار کی خاطر اسلام کارڈ کے استعمال کے تمام ریکارڈ ٹوڑ دیے تھے پھر محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے بھی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کے نام پر سامنے آتی ہیں اس کے بعد لبرل نظریے کے حامل میاں محمد نواز شریف صاحب اسلامی جمہوری اتحاد کو استعمال کرتے ہیں ابھی حال ہی میں جناب عمران احمد خان نیازی صاحب نے مذہبی کارڈ کے استعمال میں کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا۔

در اصل مذہب کارڈ ہی یہی ہوتا ہے کے جب بے دین غیر اسلامی لوگ جن کو دین اسلام شریعت کا زیادہ علم نہیں ہوتا نا ہی اسلامی نظام سے اتنے واقف ہوتے ہیں نا ہی وہ حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں وہ اقتدار کو بچانے کے لیے مذہب کارڈ کا استعمال کرتے ہیں

پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی وفاق میں کبھی اکثریت کے ساتھ مظبوط حکومت تو نہیں آئی پوری ملکی تاریخ میں صرف دو دفعہ اس وقت کہ صوبہ سرحد یعنی پختون خواہ میں اٹھارویں ترمیم سے بھی پہلے کمزور صوبائی حکومتیں آئی ہیں۔ سب سے پہلے 1973 میں جی یو آئی کہ سربراہ مفتی محمود 9 ماہ کے لئے وزیر اعلیٰ بنے جنہوں نے مکمل اسلامائزیشن لانے کی کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب رہے دوسری دفہ تمام مذہبی جماعتوں کے مشترکہ اتحاد یعنی متحدہ مجلس عمل کی 2002 میں حکومت بنی اور اس حکومت نے بھی اسلامئزیش کی مکمل کوشش کی مگر اس وقت وفاق میں مضبوط مشرف صاحب کی حکومت تھی جس کی وجہ سے ایم ایم اے کی حکومت اسلامائزیشن کے مشن میں ناکام رہی اب سوال یہ ہے کے اس ملک میں اسلامی نظام کیوں نہیں آ سکا وجہ یہ کے ہمارے حکمرانوں کا مقصد خالصتاً اسلام نہیں ہوتا ان کا مقصد اقتدار ہوتا ہے جو ان کو مل جاتا ہے۔ اگر ان کا مقصد اسلام ہوتا تو یقیناً ان کو اقتدار ملتا یا نا ملتا مگر آج اسلام کا نفاذ ضرور ہوتا۔ ضیاء الحق آئے اقتدار مل گیا اور وقتی طور پر اسلامئزیشن آتی ہے مگر آج کوئی اسلامائزیشن نہیں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تو بن گئیں ان کو یہ شہرت اور اعزاز اسلام کے نام پر ملا مگر اسلامی نظام نافذ نہیں ہو سکا۔ میاں محمد نواز شریف صاحب اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے ہیں اور وزیراعظم بن جاتے ہیں مگر بظاہر جس بنیاد پر اقتدار میں آتے وہ مقصد ایک نعرہ ہی رہ جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں جناب عمران خان صاحب جب حکومت میں آتے ہیں تو ریاست مدینہ جیسی مقدس ریاست کی تعمیر کا خواب دیکھاتے ہیں مگر ریاست مدینہ کا دعویٰ، دعویٰ ہی رہ گیا

ان تمام حکمرانوں کی بنیادی آئیڈیالوجی سوشلزم، سیکولرزم اور لبرلزم جیسے نظریوں پر انحصار کرتی ہے تمام حکمران بذات خود شریعت کے پابند نہیں ہوتے۔اس لیے جو حکمران پانچ فوٹ اپنے جسم اور کردار پر اسلام نافذ نہیں کر سکتے ان سے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔

Farhan ibn e Aman
About the Author: Farhan ibn e Aman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.