تیونس : ترے ہاتھوں میں یہ پر چم بہت ہی خوب ہے لیکن - قسط دوم

اگست ؁۱۹۷۳ کی بات ہے۔سویڈن کے اسٹاک ہوم نامی شہر میں ایک مفرور قیدی نے چار بنک ملازمین کو یرغمال بنالیا اور ۱۳۱ گھنٹے اپنی قید میں رکھا ۔اس کے بعد جب وہ وہ ملازمین رہا ہوئے تو انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے اغوا کنندہ سے کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے اندر اس مجرم کے خلاف کسی قسم کے منفی جذبات پائے جاتے ہیں بلکہ انہیں زیادہ ڈر پولیس اہلکاروں سے لگتا ہے ۔ ان احساسات کا اظہار اگر گجرات کی مودی پولس کے خلاف کیا گیاہوتا تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہوتی لیکن یہ تو اپنے آپ کو نہایت مہذب کہلانے والے یوروپی ملک سویڈن کی پولس کے بارے میں کہی گئی بات ہے ۔جہاں مسجد کے میناروں پر پابندی لگائی گئی ہے تاکہ اسلامی شدت پسندی کو طرح نہ ملے ۔

یرغمالیوں کی اس حیرت انگیز نفسیاتی کیفیت کو اسٹاک ہوم سنڈروم کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس میں انسان کو اپنی ناپسندیدہ چیز سے انسیت ہو جاتی ہے ۔ایسا لگتا ہے شدید آزمائشوں کے دور سے گزرنے کے بعد امت کے دانشور بھی اسی ذہنیت کا شکارہو گئے ہیں ۔ ان کو اپنی ناکامیوں اور مایوسیوں سے اس قدر انس ہو گیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اللہ کی نصرت و مدد کو دیکھ کرشکر کے جذبات سے سرشارحمد بیان کرنےکے بجائے بلاوجہ کے اندیشوں میں گرفتار قنوطیت کےخودساختہ سمندر میں غوطہ زن رہتےہیں اوراپنے آپ پر لعنت و ملامت کے شغل میں مصروف رکھتے ہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ تیونس کے انقلاب کے بعد اسلام پسندوں کی کامیابی اور اسی کے ساتھ غزہ میں مجلسِ قانون ساز کی رکن اورحماس کی قابلِ احترام خاتون رہنما کا دورۂ تیونس ان کی نظروں سے اوجھل ہو جائے ۔ حماس کا شمار آج بھی امریکہ کی نام نہاد دہشت گرد تنظیموں میں ہوتا ہے اور یوروپ کے بیشتر ممالک اسے تسلیم نہیں کرتے اس کے باوجودالنہضہ نے انہیں اپنے ملک کا دورہ کرنے دعوت دی نیز ایک عوامی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے نامزد وزیر اعظم حمادی جبعلی نے اعلان کیا کہ یہ نئی ریاست کیلئے قدرت کی جانب سے عطا کردہ عظیم لمحہ ہے اور ساتھ امید کا اظہار کیا کہ یہ باذن اللہ چھٹی عالمی خلافت کا سنگِ میل ثابت ہوگا ۔

خلافت کے نام سے مغرب اور اس کےحواریوں کے اندر جس طرح کی بے چینی اور سراسیمگی پلتی ہے اسے کون نہیں جانتا؟ امریکی پچاس ریاستوں کا اتحاد گوارہ ہے ۔ یوروپی یونین کا قیام پسندیدہ ہے ۔ عرب لیگ قابل ِ برداشت ہے ۔لیکن اسلامی خلافت تو گویا قیامت ہے ۔ یہ کسی طور ان کے گلے سے نہیں اترتی ۔حمادی کے اس اعلان کا ردعمل تو یہ ہوا کہ تابڑ توڑ دائیں بازو کی جماعت اتکتلول نے( جس کے قانون سازاسمبلی میں ۲۰ ارکان ہیں) النہضہ کے ساتھ جاری اپنی گفتگوکو معطل کردیا اور پی ڈی پی کے ساتھ متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔

پی ڈی پی کا یہ حال ہے کہ انتخاب سے قبل اس نے راشد غنوشی کے اس بیان پر اعتراض کیا تھا کہ ‘‘تیونس کی تاریخ میں سب سے زیادہ شہادت کی سعادت ہماری جماعت کے لوگوں کو حاصل ہوئی ہے ’’پی ڈی پی کے رہنما سواب نے اعتراف کیا اسیّ اور نوے کی دہائی میں اسلام پسند سب سے زیادہ آزمائش کا شکار ہوئے لیکن ساتھ ہی یہ کہا شہادت پانے والوں میں اکثریت ان کی نہیں تھی کاش کہ سواب یہ بھی بتلاتے کہ کیا ان کی جماعت کے لوگ اس معاملے میں اکثریت تو کجا اقلیت میں بھی ہیں ۔ سواب نے راشد غنوشی کے بیان کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اسے مذہب کا ناحق استعمال بتلایا جبکہ اس بیان میں کہیں مذہب کا ذکر نہیں پایا جاتا۔سواب نے انتخاب سے قبل پیشن گوئی کی کہ النہضہ کو ۲۰ فی صد ووٹ بھی نہیں ملیں گے جبکہ اسے ۴۱ فی صد ووٹ مل گئے ہاں یہ ضرور ہوا کہ خود انکی پی ڈی پی کو جو بن علی کے زمانے قربانیاں دینے کے بجائے اقتدار کے ساتھ نورہ کشتی اور بدلے میں ملائی کھانے کا کھیل کر رہی تھی ۲۰ فی صد ووٹ بھی نہیں ملے ۔

پی ڈی پی جیسے مغرب نوازاور مغربی دنیا نے چونکہ مذہبی آزادی کا مکھوٹا اپنے چہرے پر چڑھا رکھا ہے اسلئے وہ مذہبِ اسلام کی براہِ راست مخالفت نہیں کر سکتے اس لئے شریعت کو تنقیدو تنقیص بلکہ تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں ۔انسانی حقوق اور خاص طورپر حقوقِ نسواں کی دہائی دیتے ہیں ۔اس یلغار کےجواب میں اکثر و بیشتر مسلم دانشور یا تو مدافعانہ رخ اختیار کرتے ہیں اور بلاوجہ کی صلح صفائی میں لگ جاتے ہیں یا جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ان دونوں رویوں سے اسلام دشمنوں کا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوتا ہے ۔ مغرب کو مسلم خواتین کے حقوق کی بڑی فکر ستاتی ہے لیکن ان مگر مچھ کے آنسووں کی قلعی اس وقت کھلتی ہے جب ریمنڈ ڈیوس نامی ایک امریکی درندہ پاکستانی نوجوان فہیم کو بلاجواز سرِِ عام بھرے بازار میں قتل کر دیتا ہے اور اس کی بیوی شمائلہ خودکشی کر نے پر مجبور ہو جاتی ہے اس کے باوجود ان کے دل نہیں پسیجتے اور اوبامہ انتظامیہ ریمنڈ کوبچانے میں اپنی ساری توانائی جھونک کراسے چھڑا نے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ اس پر نہ کوئی مقدمہ قائم ہوتا ہے اور نہ اسے کوئی سزا سنائی جاتی ہے۔

اس کے برعکس مسلم خواتین کے ان نامردہمدردوں کومعصوم ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے اندر خطرنک دہشت گرد نظر آتا ہے ۔وہ انہیں اغوا کرکے افغانستان لے جاتے ہیں اور بغیر کوئی مقدمہ چلائے اپنی جیل میں قیدکر دیتے ہیں ۔ آگے چل کر جب یہ راز افشا ہو جاتا ہے تو انہیں پاکستان میں لاکر دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے اور بے غیرت پرویز مشرف اپنے قوم کی بیٹی کو غیروں کے حوالے کر دیتا ہے ۔ امریکی عدالت میں اس کمزور اور لاغر خاتون پرپولیس کی پستول چھین کراس پر حملہ کرنے کا بے بنیاد الزام لگا دیا جاتا ہے ۔ امریکی عدالت انتظامیہ سے یہ نہیں پوچھتی کہ آخر آپ لوگ جس دہشت گردی کے الزام میں اسے پاکستان سے یہاں لائے ہو اس کے حق میں پہلے ثبوت پیش کرو اور یہ ثابت کرو کہ ان کی گرفتاری حق بجانب تھی بلکہ وہ پولیس پر حملے کے احمقانہ الزام میں عافیہ کو ۸۶ سال کی سزا سنا دیتی ہے ۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جن کو حفاظتی اہلکاروں سے بندوق چھین کر ان پر حملہ کرنے کے الزام میں سزا دی گئی وہ کس قماش کے لوگ ہیں اس کا ایک ثبوت اسی ہفتہ امریکہ کےلوئیس میک کورڈ فوجی اڈے میں ہونے والے کورٹ مارشل میں سامنے آیا جبکہ سارجنٹ کیلون گبس کو اس کے اعتراف جرم پر سزا سنائی گئی ۔۲۶ سالہ کیلون پر گزشتہ سال جنوری کے اندر ۳ شہریوں کو قندھار میں ہلاک کرنے کا الزام تھا یہ مقدمہ اس کے علاوہ ۱۲ فوجیوں پر قائم کیا گیاتھا جن میں سے دس بری ہو گئےمگرکیلون کے علاوہ مورلوک کو مجرم پایا گیا ۔ کیلون کے خلاف خود اس کے ساتھی فوجیوں نے گواہی دی جس کے بعد کیلون نے تین میں سے ایک قتل کا اعتراف کر لیا ہے ۔اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے چونکہ وہ وہاں بور ہوگیا تھا اس لئے تفریحاً اس نے یہ قتل و غارتگری کی ۔وائس آف امریکہ نے اسے شوقیہ قتل کا معاملہ قرار دیا ہے لیکن کیلون کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے تحت کام کرنے والے فوجیوں پر اپنا رعب جمانے کی غرض سے یہ قتل کیا اس کے مطابق اگر وہ ایسا نہ کرتا تو دیگر فوجی اسے مخنص ہونے کا طعنہ دیتے۔ اس ظالم نے مہلوکین کی انگلیاں کاٹ کر اور دانت اکھاڑ کر اپنے پاس تمغوں کی مانند محفوظ کر لئے ۔اس سفاک مجرم کیلئے امریکی عدالت کے پاس ۵ سال کی سزا ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے جس کے ہاتھوں کوئی ہلاک تو کجا زخمی بھی نہیں ہوا ۸۶ سال کی سزا ۔ یہ ہے خواتین کے حقوق پر ٹسوے بہانے والوں کا اصلی چہرہ ۔

تیونس میں النہضہ کی کامیابی کے بعد ان نام نہاد آزادیٔ نسواں کے حامیوں کو مسلم خواتین کے حقوق کی فکر ستانے لگی ہے ۔ گزشتہ ۲۵ سالوں سے جب اسلام پسندوں کو بلاوجہ جیل بھیج دیا جاتا۔ اس قیدو بند کی صعوبت سے گزرنے کے لئے ان کا یہ جرم کافی ہوتاتھا کہ وہ فجر کی نماز میں نظر آ گئے تو ان معصوموں کےاہل خانہ ان کی ماؤں ،بہنوں،بیووں اور بیٹیوں کی حق تلفی کسی کو دکھلائی نہ دیتی تھی بلکہ تیونس کو انسانی حقوق کے حوالے سے نہایت ترقی پذیر ہونے کا اعزاز بخشا جاتا تھا ۔جب خواتین کو سرکاری دفتروں سے محض اسکارف اوڑھنے کے باعث ذلیل کرکےنکال دیا جاتا اور یہ دھمکی دی جاتی تھی کہ اگر آئندہ انہوں نے ایسی جرأت کی سزا دی جائیگی ۔ اس قانون پر اس قدر سختی سے عملدر آمد ہوتا تھا کہ صرف زبانی انتباہ پر اکتفا کرنے کے بجائے تحریری معافی نامہ لکھوایا جاتا تھا اس وقت یہ مغرب زدہ ہمدردانِ نسواں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ جب پردہ نشین خواتین کو تعلیم یافتہ اور اہل ترین ہونے کے باوجود محض حجاب کے باعث ملازمت کے حق سے محروم کر دیا جاتا تھا اسوقت پی ڈی پی اور اتکتول والے خاموش تماشائی بنے رہتے تھے ان کوان کے مغربی آقاؤں کو خواتین کے ساتھ ہونے والے اس امتیازی سلوک سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ کہا جاتا تھا کہ تیونس کے اندر خواتین کی صورتحال دیگر مسلم ممالک سے بہتر ہے ۔

ایک طرف حیا دار خواتین کے حوصلوں کو پست کرنے کا کام کیا جاتا اور اسی کے ساتھ جو خواتین مغرب کے جھانسے میں آکر بے پردگی کا شکار ہوجاتیں انہیں اباحیت و فحاشی کے دلدل میں دھکیل دیا جاتا ۔ ان کے حقوق کی پاسداری کیلئے ا نعام کے طور پر واحد ماؤں [غیر شادی شدہ] کے حقوق طے کر دئیے گئے ۔ان حقوق کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟یہ ایک بنیادی سوال ہے جس پر غوروخوض ہونا ضروری ہے ۔ہوا یہ کہ اول تومردوں نے دھوکہ دے کران خواتین کا جنسی استحصال کیااور انہیں رشتہ ازدواج میں لینے کے بجائے ماورائے عقد ِنکاح اپنی اولاد کی ماں بنا دیا اس کے بعد اپنی پدری ذمہ داریوں سے دامن جھٹک کر ان کے ہاتھوں میں خالی خولی حقوق کی ڈگڈگی تھما ددی ۔ اب جبکہ ہوا کا رخ بدلا ہے ان ماؤں سے زیادہ ان کا استحصال کرنے والے دلالوں اوران سے اپنی ہوس کو سیراب کرنے والے سرپرستوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ اس لئےکہ اگر ان حقوق کے تنکے کا سہارہ بھی ڈوب جائے تو یہ کاغذ کی کشتی کیوں کر تیرسکے گی؟ ان حقوق کے سلب ہو جانے کے بعد یہ استحصال جاری و ساری نہ رہ سکے گاگویا حقیقی پریشانی عورتوں کے فلاح و بہبود کی نہیں بلکہ اپنے حرص وہوس اور استحصال پر منحصرکاروبارکی بند ہو جانےہے۔

النہضہ کی نومنتخبہ رکن پارلیمان ڈاکٹرسعاد عبدالرحیم نے جب ایک ریڈیو انٹرویو میں ان واحدماؤں کے وجود کو شرمناک بتلایا اور کہا کہ ان کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے تو گویا ایک آتش فشاں پھٹ پڑالیکن یہ احمق کس منہ سے اسلام پسندوں پر انگشت نمائی کر سکتے ہیں جبکہ النہضہ کے منتخب شدہ۹۱ میں ۴۷ اراکین پارلیمان خواتین ہیں ایسا کرنے کیلئے اس حزب ِ اسلامی کو فرانس کی مانند قانونی پابندی سے مجبور نہیں ہونا پڑا بلکہ یہ انہوں نے یہ فیصلہ کسی بیرونی دباو کے بغیر بر ضا و رغبت کیا ۔ یاد رہے فرانس کے اندر ہر پارٹی کو۵۰ فی صد خواتین امیدوار لازمی انتخاب میں اتارنے پڑتے ہیں اور ایسا کرنے کیلئے انہیں بزورِ قوت مجبور کیا جاتا ہے جبکہ اسلام پسند النہضہ کو اس کی چنداں حاجت محسوس نہیں ہوئی ۔ امریکہ جہاں فرانس جیسا قانون موجود نہیں ہے اس طرح کی صورتحال کا تصور بھی محال ہے ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی اس بے راہ روی کو دینِ اسلام سے منسوب کر کے ان کو اپنے مذہب سے بیزار کرنےسے مسئلہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جاتا ہے۔ان چیلنجس کا مقابلہ کرنے کیلئے مناسب حکمت عملی وہی ہے جو پاکستان کی حکومت نے حال میں اختیار کی ہے ۔ابھی اسی ہفتہ پاکستان میں خواتین کو شادی پر مجبور کرنے اور جائیداد سے اُنہیں محروم رکھنے کے لیے قرآن مجید سے شادی جیسی غیر اسلامی روایات کے خلاف قومی اسملی نے ایک نئے قانون کی اتفاق رائے سے منظوری دی ہے۔ایوان زیریں نے منگل کو ہونے والے اجلاس میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے اس قانون میں ان روایات کو قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔اس نئے قانون کے تحت صلح کے لیے، ونی، جبری یا قران سے شادی کے جرم میں مرتکب افراد کو ۱۰ برس تک قید اور ۱۰ لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکے گا اور یہ جرائم نا قابل ضمانت ہوں گے۔

اس قانون میں خواتین کو دھوکہ دہی یا غیر قانونی ذرائع سے وراثت سے محروم رکھنے پر سزا کی حد ۵ سے ۱۰ سال اور۱۰ لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔مزید برآں خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے قرآن سے نکاح پڑھوانے کو بھی قابل جرم قراد دیا گیا ہے خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے ملک کےدور دراز علاقوں میں قرآن پر حلف لیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ تمام زندگی غیر شادی شدہ رہیں گی اور وراثت میں اپنا حصہ نہیں مانگے گی۔یہ روایت اسلامی شریعت کے قطعی منافی ہے اس لئے نئے قانون میں اس ممانعت کی گئی ہے۔ اس جرم کے مرتکب افراد کے لیے سزا اور جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا یعنی سینیٹ میں منظوری کئے پیش کیا جائے گا۔دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اسلام دشمن روایات کے خلاف بنایا گیا یہ قانون نافذ العمل ہو گا۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان اسمبلی میں اچھی خاصی تعداد اسلام پسند موجود ہیں اس کے باجود اس قانون کو اتفاق رائے سے منظوری ملی اور کسی نے اعتر اض نہیں کیا۔ النہضہ نے بھی اسی طرح کی غیر معمولی کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ۔ ڈاکٹر سعادہ اپنی طالبعلمی کے زمانے اشتراکیت سے متاثر تھیں اور بعد میں انہوں نے اسلام پسندوں اور اشتراکیوں کے درمیان اشتراک عمل پیدا کی سنجیدہ کو شش کی اس لئے کہ دونوں کا مشترک دشمن بن علی کا ظالمانہ اقتدار تھا۔النہضہ پر پابندی کے دور میں بھی سعادہ نے خواتین کے حقوق کی جدو جہد کو جاری رکھا۔ ان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے النہضہ نے اگست میں انہیں اپنا امیدوار بنادیا اور کامیاب بھی ہو گئیں۔ النہضہ کے ۴۷ میں سے صرف وہ ایک ایسی واحد رکنِ اسمبلی ہیں جو اسکارف نہیں پہنتیں اس لئے مغرب زدہ جماعتیں ان سے بغاوت کی امید لگائے بیٹھی تھیں لیکن غیر شادی شدہ ماؤں کے معاملے میں ان کے موقف نے سبھی کو چونکا دیا ۔النہضہ کی دعوت پر تیونس کے دورے پر آنے والی حماس خاتون رہنماہوضہ کے بیان نے کہ "تیونس کا انقلاب آگے چل کربیت المقدس کی بازیابی کا سبب بنے گا" نے افق پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کی جانب اشارہ اورنامزد وزیر اعظم حمادی جبعلی کی جانب خلافت کے قیام کا مژدہ اسلام کے روشن مستقبل کا ترجمان ہے اس موقع پر بہن سعادہ کی خدمت میں مجاز لکھنوی کا مشہور شعر معمولی سی ترمیم کے ساتھ پیش ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ اس پر غور کریں گی ۔
ترے ہاتھوں میں یہ پر چم بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس پر چم سے اک آنچل بنالیتی تو اچھا تھا

(باقی آئندہ انشا اللہ)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2063 Articles with 1253556 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.