وہ فوجی تھے فوجی....!

مہمند ایجنسی میں پاکستانی چوکیوں پر امریکی اور نیٹو کے ہیلی کاپٹرز کی بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا کر بلا اشتعال فائرنگ سے دو افسروں سمیت پچیس کے قریب اہلکار شید ہوگئے۔ یہ وہ خبر ہے جس نے پورے پاکستان کو دہلا کر رکھ دیا۔ سیاسی و عسکری قیادت نے اس پر بھرپور احتجاج اور مزاحمت کا اعلان کردیا ہے اور فوری طور پر نیٹو کنٹینرز کو روک کر افغانستان میں اتحادی افواج کو سپلائی بند کردی گئی ہے۔ گزشتہ روز رات دیر تک وزیر اعظم ہاﺅس میں پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس جاری رہا جس میں پندرہ دن کے اندر شمسی ائر بیس خالی کرانے، نیٹو کنٹینرز کی راہداری ختم کرنے اور امریکہ سے فوجی سمیت تمام تعلقات پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا۔ نیٹو سے شدید احتجاج کیا گیا اور امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرلیا گیا۔ نیٹو کے افغانستان میں موجود کمانڈر نے تحقیقات کا حکم دیدیا ہے اور شہادتوں پر گہرے دکھ اور شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے واضح الفاظ میں بتایا کہ مہمند ایجنسی شدت پسندوں سے پاک ہے اور نیٹو کسی بھی طور اس حملے میں شدت پسندوں کے تعاقب اور کسی غلطی کا بہانہ نہیں بنا سکتا، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ملکی سالمیت پر حملہ کیا گیا، صدر فرماتے ہیں کہ سخت جواب دیا جائے جبکہ آرمی چیف نے فوج کو تیاری کا حکم صادر کیا ہے۔ ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے بھی اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے جبکہ عوام پہلے ہی امریکہ اور نیٹو کی جانب سے آئے روز کے حملوں سے نہ صرف تنگ ہیں بلکہ بہت حد تک جذباتی سوچ بھی رکھتے ہیں۔

پاکستانی فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادت ایک عظیم نقصان ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اللہ تعالیٰ شہداءکو جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین) تازہ ترین نیٹو حملے اور افسروں و جوانوں کی شہادت سے ایک بات بہت واضح ہوگئی ہے کہ ہماری فوج کی کم از کم افغانستان کی سرحد پر اس طرح کی تیاری ہرگز نہیں ہے جس طرح کی تیاری حالت جنگ میں کسی بھی فوج کی ہونی چاہئے۔ 2 مئی کا واقعہ اور اس کے مابعد اثرات ، جس میں حقانی میموگیٹ سکینڈل بھی شامل ہے، اس طرح کے تھے کہ پاک فوج کو ”ریڈ الرٹ“ رہنے کی ضرورت تھی۔ اب اگر تحقیقات ہو بھی جاتی ہیں، کسی نیٹو کمانڈر کو ملزم نامزد کرکے تحقیقات کے بعد اس کو مجرم بھی ثابت کردیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر اسے سزا بھی ہوجاتی ہے، جس کے امکانات بہت کم ہیں، تو بھی کیا وہ افسر اور جوان جو غیروں کی جنگ کا ایندھن بن گئے ہیں، وہ واپس آسکتے ہیں۔ کیا ان کے گھروں میں جو صف ماتم بچھ چکی ہے، اس کو خوشی کی لہر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، کیا ان بیواﺅں کو ان کے سہاگ واپس ہوسکتے ہیں جو اپنے سرتاجوں کی راہ تک رہی تھیں، کیا ان یتیموں کو، جو بے آسرا ہوگئے، ان کے شفقت کرنے والے والد واپس مل سکتے ہیں، نہیں، ہرگز نہیں، ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ البتہ ان شہادتوں سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت پر جو بے غیرتی اور بے حمیتی چھائی ہوئی تھی اس کے بادل ذرا ذرا چھٹتے نظر آرہے ہیں۔ جو کام پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کو کم از کم مشرف کے یہاں سے کوچ کرنے کے ساتھ ہی کر لینے چاہئے تھے اب ان کو کرنے کا سوچا جارہا ہے۔ شمسی ائر بیس خالی کرانے کا فیصلہ اور نیٹو کنٹینرز کی بندش، یہ سب کچھ اس وقت ہونا چاہئے تھا جب امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اور جب اس میں معصوم لوگ شہید ہوتے تھے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ جنگ کبھی بھی ہماری نہیں تھی اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ بزدلی اور امریکی ڈالروں کے لالچ نے اس جنگ کو اس ملک اور یہاں کے عوام پر مسلط کرادیا۔ کیا اب بھی ان سیاسی و عسکری دانش وروں اور اخبار نویسوں کی سمجھ میں اللہ کی بات نہیں آسکتی کہ ”یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے“ ....!

میرا ایک دوست ہے جو اس ملک میں فوجی آمریتوں اور فوج کی سیاست میں آمد کا شدید مخالف ہے۔ وہ اکثر ایک بات کہا کرتا تھا اور میں ہوا میں اڑا دیا کرتا تھا۔ کل شام کو جب ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ جب وزیر اعظم، صدر اور آرمی چیف اجلاس میں شریک تھے اور جب اس قوم کے فیصلے بند کمرے میں ہونے جارہے تھے تو اس کا فون آگیا۔ مجھے کہنے لگا تمہیں یاد ہے کہ میں تمہیں ایک بات کہا کرتا تھا کہ یہ ملک اس وقت صرف فوجیوں کے لئے ہے، میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا کہ یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں بلکہ یہ دکھ کے لمحے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم آپس کے اختلافات بھلا کر متحد ہوجائیں، فوجی بھی ہمارے بھائی اور بیٹے ہیں، مشکل وقت میں انہیں ہماری اخلاقی حمائت کی ضرورت ہے ، سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا منفی پراپیگنڈے کی نہیں، مہربانی فرما کر اس وقت ان سے ہمدردی کرو، مخالفت نہیں کیونکہ وہ ہمارے ہی لئے، اسی قوم اور اسی ملک کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرتے ہیں ، اپنی جانوں کو ہتھیلی پر لے کر اس ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت یقینی بناتے ہیں، اس نے میری بات توجہ سے سنی اور جب میں چپ ہوا تو کہنے لگا آفرین ہے تم پر، میں نے اس کا کبھی انکار نہیں کیا لیکن تم ذرا اپنا صیغہ بدل دو، موجود کو ماضی کردو، اگر جملے کو اس طرح کردو کہ وہ ہماری حفاظت کرتے تھے، ہمارے لئے اور اس ملک کے لئے جانیں نچھاور کرتے تھے تو میں یقینا مان لوں گا لیکن اس وقت میں جو بات کرنا چاہ رہا تھا وہ ذرا غور سے سن لو، میں نے کہا جی فرمائیں، تو وہ یوں گویا ہوا ”میں پہلے بھی تمہیں کہا کرتا تھا کہ یہ ملک اس وقت صرف فوجیوں کے لئے ہے، بنا تو ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے تھا لیکن اب خود دیکھ لو کہ کیا اس میں کسی بلڈی سویلین کی کوئی اوقات ہے، تمہیں سویلین علاقوں میں کبھی اس طرح کے ناکے نظر آئے ہیں جس طرح کے کینٹ کے علاقوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جہاں سے چڑیا کا بچہ بھی پر نہ مارسکے، کیا بم دھماکے صرف کینٹ کے علاقوں میں ہوتے ہیں، کیا بم دھماکوں میں صرف فوج کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، اگر ڈرون حملوں کی بات کریں تو اس میں نوے فیصد کے قریب معصوم لوگ شہید ہوتے ہیں جسے نہ صرف پاکستانی فوج بلکہ مغربی میڈیا بھی مانتا ہے کہ ڈرون حملوں میں اکثر بے گناہ اور معصوم لوگ مارے جاتے ہیں لیکن ان حملوں کے شکار لوگوں کو کوئی انصاف نہیں ملتا، نہ امریکہ کی سپلائی لائن بند کی جاتی ہے، نہ ان کو سخت الفاظ میں جواب دیا جاتا ہے، صرف ایک نیم دلانہ سا احتجاج کرکے ایسا سمجھ لیا جاتا ہے جیسے سارے فرائض منصبی پورے ہوگئے، کیا سپریم کورٹ بھی ”مسنگ پرسنز“ کی بابت کوئی کام کرسکی اور ان کو برآمد کراسکی، کیا سب کے علم میں نہیں کہ گمشدہ افراد کن اداروں اور کن ایجنسیوں نے غائب کئے؟کیا فوج کی مرضی کے بغیر کوئی ایک فرد بھی امریکہ کے ٹارچر سیلوں میں پہنچ سکتا ہے، کیا پورے ملک خصوصاً بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ غائب نہیں کئے گئے لیکن ان کے لواحقین کا نہ کوئی پرسان حال ہے نہ کوئی جوابدہ، اس سے پہلے پاک آرمی پر اس طرح کا حملہ شائد کبھی نہیں ہوا، چھپ چھپا کر اور خود کش دھماکوں کی بات الگ ہے لیکن امریکہ یا نیٹو افواج نے براہ راست کبھی اس طرح کا حملہ نہیں کیا، یہ پہلا حملہ ہی ہماری فوج کی جانب سے فیصلہ کن بن گیا ہے اور وہ سارے اقدامات جو نہتے اور بے گناہ لوگوں کی شہادتوں پر اٹھا لینے چایئے تھے وہ آج اٹھانے کی بات سوچی جارہی ہے، ایک طرح ہزاروں لوگ ہیں، معصوم بچے ہیں، شادیوں میں شامل عوام ہیں جو ڈرون حملوں میں شہید ہوچکے ہیں اور ایک طرف چھبیس فوجی ہیں، ڈرون حملوں میں تو مارے جانے والوں کی گنتی بھی کسی کو یاد نہیں، ان کے تو نام بھی ان کے ساتھ ہی مٹ چکے ہیں ان کا حساب کتاب تو اب ان کے اللہ کے پاس ہے لیکن چھبیس فوجیوں کو ایوارڈ بھی دئے جائیں گے اور دنیا میں شہادتوں کے صلے بھی ملیں گے، کیونکہ وہ فوجی تھے فوجی....“ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، فون کٹ چکا تھا، اب پتہ نہیں نیٹ ورک کا مسئلہ ہوا یا اس نے خود لائن کاٹ دی، لیکن اس کی باتیں مجھے ایک گہری سوچ میں غرق کرگئیں۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 208582 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.