کیانی صاحب ! ابھی بھی آئیندہ

امریکی دہشت گردوں اور غنڈوں نے بالآخر وہی کیا جس کا محب وطن بہت مدت سے واویلا کر رہے تھے۔مشرف کو اللہ معاف کرے اس شخص نے صرف اپنے ذاتی اقتدار کے لئے پاکستان کو ایسی جنگ میں الجھا دیا جس میں روز ہمارے بچے شہید ہوتے ہیں۔کبھی یہ لاشے ہم شہروں میں مسجدوں سے اٹھاتے ہیں کبھی بازار لہو رنگ ہوتے ہیں اور کبھی ہماری سرحدوںپہ ہمارے فوجی جوان لہو میں نہلا دئیے جاتے ہیں۔ابھی تو ہم دو مئی کے واقعے ہی سے نہیں سنبھلے تھے کہ جہاں ان غنڈوں نے دنیا کے سارے قوانین کو پاﺅں میں روندتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو تمام عالم میں تماشہ بنا کے رکھ دیا تھا۔اللہ جانے وہاں اسامہ تھا یا نہیں لیکن ان دہشت گردوں نے اپنا ایک ہیلی کاپٹرتباہ کر کے پوری دنیا کے سامنے ہمیں اور ہماری دفاعی صلا حیتوں کو مذاق بنا کے رکھ دیا تھا۔ہم اس ساری صورت حال کو بھی ٹھنڈے پیٹوں پینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پائے تھے۔

ان بد معاشوں کے لئے، ان کی ہٹ دھرمی کے لئے ہم نے اپنا ملک برباد کر ڈالا۔اپنی معیشت کو خود اپنے ہی ہاتھوں آگ لگا لی۔اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر ہم نے اپنے بے حساب دشمن پیدا کر لئے۔وہ قبائلی جو کبھی پاکستان پہ جان چھڑکا کرتے تھے۔انہیں ہم نے انہی بد بختوں کے ایما پہ وہاں لگا تار آپریشن کر کے پاکستان کے اتنا خلاف کر لیاہے کہ وہ نہ اپنی جانوں کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ انہیں اب پاکستان سے کوئی پیار رہ گیا ہے۔وہ شاید بجا طور پہ ہمیں کافروں کا مدد گار سمجھتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ ہمارے اپنوں نے ہی ہمیں اس جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔جہاں ہم نے اپنے اتنے آفیسر اور جوان شہید کروا لئے ہیں کہ جن کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

جنرل !کیا یہ قربانیاں کافی نہیں۔کیا ابھی انتظار ہے کہ یہ بد معاش جی ایچ کیو پہ اپنے طیارے لے کے حملہ آور ہوں۔جناب آپ اور آپ کے ساتھی جانتے ہیں کہ جی ایچ کیو پہ حملہ بھی انہی کی آشیرواد سے ہوا تھا اور پی این ایس مہران کا حملہ بھی انہی کے اشارہ ابرو کا مرہون منت تھا۔ہماری کمزوریاں اور ناتوانیاں کہ ہم کھل کے ان بد معاشوں کا نام بھی نہیں لے سکے۔انہوں نے آپ کو یاد ہو گا کہ کیری لوگر بل پہ امداد کے بہانے ہماری فوج کو کیسا مطعون کیا تھا اور اس پہ کیسی کیسی قدغنیں لگائی تھیں۔جب سے لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا اسی دن سے ہماری بد بختی اور تباہی کے دن شروع ہو گئے تھے۔ان ظالموں نے کب کب ہمیں دھوکہ نہیں دیا۔ کہاں کہاں ہم ان کی وجہ سے شرمندہ نہیں ہوئے۔ان کی دھوکہ دہی اور کہہ مکرنیوں کی ایک لمبی داستان ہے۔

جناب والا!آپ قوم کو نہیں بتاتے تو میں ہی آپ کو بتانے کی جسارت کرتا ہوں کہ ہم اپنے ملک کے اندر ہی کمزور ہو گئے ہیں۔وہ لوگ جنہوں نے ماضی میں فوج کے شانہ بشانہ دشمن سے مقابلہ کیا تھا۔آج ہماری چھاﺅنیوں میں ہمارے بچوں کو شہید کر رہے ہیں۔ان کے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ ہماری فوج کافروں کے ساتھ مل کے مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری فوج آج ان بد بختوں سے علیحدگی کا اعلان کرے ہم آج ہی سے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ہم بیگانوں اور بے اعتباروں پہ تو اعتبار کر لیتے ہیں تو اپنوں پہ اعتبار کرنے کو کیوں تیار نہیں۔

آپ کو یاد تو ہوگا کہ آپ کے پیشرو نے 9/11 کے فوراََ بعد ایک پیش گوئی کی تھی کہ ابھی افغانستان کی باری آئی ہے جلد یا بدیر ہماری باری بھی آئیگی۔جناب والا! وہ باری اب ہمارے دروازے پہ دستک دے رہی ہے۔آئیے اسے گلے لگائیں ۔ہماری فوج میں ویسے بھی بم باندھ کے ٹینکوں کے آگے لیٹنے کی روایت ہے۔اب کے قوم بھی آپ کے شانہ بشانہ ہے۔ہم اب مذمت نہیں مزاحمت چاہتے ہیں۔ایک ٹی وی چینل پہ ہمیں آپ کا یہ بیان کہ آئندہ ایسا حملہ ہوا تو مزاحمت کریں گے۔نہ جناب والا! آج ہمارے چوبیس جوان شہید ہوئے کل چوبیس سو ہوں گے۔قوم سیاستدانوں سے پہلے ہی مایوس تھی اب یہ مایوسی پاک فوج کی طرف بڑھ رہی ہے۔خاکم بدہن اگر قوم کا فوج سے بھی اعتبار جاتا رہا تو پھر اس قوم اور ملک کو سنبھالنا شاید آپ کے بھی بس میں نہ رہے۔

ان بد قماشوں کی ان خباثتوں کی وجہ سے ہم بھلے اندر سے کتنے ہی کمزور نہ ہو گئے ہوں لیکن اگر آپ ان غنڈوں کے خلاف کسی اقدام کا اعلان کریں تو پاکستان کا بچہ بچہ لڑے گا۔ہم ان بھیڑیوں کے لئے انشاءاللہ لوہے کے چنے ثابت ہوں گے۔آج چین بھی ہماری مدد کو آئے گا کہ ہم دراصل اس کے آگے ایک حفاظتی دیوار بن کے کھڑے ہیں۔کل کو اگر ہم مزید انتشار اور افتراق کا شکار ہوئے تو چین بھی ہماری مدد کو نہیں آ پائے گا۔آج ہی وقت ہے کہ ہم ان بزدلوں کو بتا دیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔آپ نے سنا تو ہوگا کہ میجر مجاہد علی میرانی جو مہمند ایجنسی میں ان بد قماشوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اس عظیم سپوت کی ماں نے کیا کہا۔اس عظیم خاتون نے ٹی وی کیمرے کے سامنے ان بد بختوں کے منہ پہ یہ کہہ کے تھپڑ مارا کہ " کہ میرا بیٹا شہید ہے اور مجھے اس کی شجاعت اور شہادت پر فخر ہے "جناب والا! پاکستان کی جنتی مائیں اسی طرح کے سپوت جنتی ہیں اور جنتی رہیں گی لیکن کسی شہید کی ماں نے کبھی آپ کو سر راہ روک کے پوچھ لیا کہ میرے بیٹے کو شہید کرنے والے کون ہیں تو آپ کیا کوئی جواب دے پائیں گے۔ہم اپنی فوج کے ساتھ اور شانہ بشانہ لڑیں گے۔ہمیں آپ پہ فخر ہے لیکن جناب والا اب کبھی آئیندہ کا لفظ استعمال نہ کیجیئے گا۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.