کہاں ہیں داعیانِ اسلام ۔۔۔؟

یہ ایک معروضی حقیقت ہے کہ جدید مشینی آلات اور نت نئی سائنسی ایجادات نے فاصلوں کو اس حد تک سمیٹ کے رکھ دیا ہے کہ یہ دنیا ایک ایسے گاﺅں کی مانند بن گئی ہے ،جس میں رونما ہونے والا کوئی بھی واقعہ اپنی اثر انگیزی اور پھیلاﺅ کے حوالے سے کسی خاص حصے تک محدود نہیں رہتا۔آج ابلاغیات کے ارتقاء کی وجہ سے آواز اور اطلاع کے فاصلے اِس حیرت انگیز حد تک سمٹ گئے ہیں کہ تعمیر بیت اس کے بعد لگائی جانے والی صدائے ابراہیمی کا زمین کی وسعتوں کو لپیٹتے ہوئے تمام بنی نوع انسان کی سماعتوں سے ٹکرانا اعجازی شان رکھنے کے باوجود عقل کے لئے تسلیم کرنا اب مشکل نہیں رہا،آج کوئی بھی پیغام ابلاغ کی ان بیساکھیوں کا سہارا لیے بغیر مخصوص دائروں سے نکل کر زمین کی وسعتوں کو سیر کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکتا،اور صیاد کی عیاری کہیے یا ہماری بدقسمتی اسلام مخالف لابنگ کے لیے وسیع پیمانے پر ان ذرائع ابلاغ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سہارا لیا گیا اور لیا جارہا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام مخالف پروپیگنڈے نے جن لوگوں کو متاثر کیا ہے اُن میں ایک غیر معمولی تعداد پیروان اسلام کی بھی ہے ۔

جب کہ داعیان اسلام کی ابلاغیات کے جدید فورم سے بے اعتنائی نے دعوتِ دین اور اسلام کے پیغام کو مخصوص حلقوں تک محدود کررکے رکھ دیا ہے،حالانکہ ہماری یہ روش کسی طرح بھی داعی حقیقی جناب نبی کریم ﷺ کے طرز ِعمل سے مطابقت نہیں رکھتی،دعوت ِدین کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ پر ذریعہ کو بروئے کار لانے کا تھا ،جو اپنی سرعت اور تاثیر میں مخالفین کے ہم پلہ اور مخاطبین کے مزاج سے ہم آہنگ ہو ۔اس کی ایک واضح نظریہ ہے کہ ایک موقع پر جب مشرکین ِمکہ کی طرف سے اسلام مخالف پروپیگنڈے کے لیے شعر وشاعری کا سہارا لیا گیا ،کیونکہ اس دورمیں زبان کا میڈیا شعر وشاعری تھا،کسی بھی بات کو ہر زبان پر جاری کرنے کا ذریعہ یہ تھا کہ اُس کو شعری قالب میں ڈھال دیا جائے ،چنانچہ انہوں نے جنابِ نبی ِکریمﷺ کی ہجوگوئی کو زبان ِزدِ خاص وعام کرنے کے لیے اُسے شعری لباس پہنادیا تو نبی ِکریمﷺ نے اُس کے رد عمل میں صرف وعظ کردینے اور برسرِمنبر وضاحتی اور جوابی تقریر فرمادینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ اُن کے اُس پروپیگنڈے کا زور توڑنے کے لئے علاج بالمثل کے طور پر اسی ذریعہ کو استعمال فرمایا اور حضرت حسانؓ کو اپنی مدح اور دشمنان ِدین کی مذمت کے لیے شاعری سے مدد لینے کا حکم فرمایا۔

اگر اس سے تھوڑاپیچھے چلیں جائیں تو موسی ؑ کے دور میں سحر عام تھا تو قدرتِ خدا وندی اس وقت موسی ؑ کو ایسا ہی معجزہ دے کر یہ کچھ سبق ہمیں بھی دے دیاہے ۔اسی طرز پہ حضرت ِعیسی ؑ کے دور میں طب عام تھا تو دوسری طرف عیسی ؑ کو بھی ایسا معجزہ دیا، طب کیا طب سے بھی آگے مسیحائی عطا کر دی ۔اگر ہم توجہ دیں اور موجودہ ”یلو“ جرنلزم کو دیکھ کر اس میدان کو خالی نہ چھوڑیں تو بلا شبہ صحافت برائے صحافت مدارس کے پڑھے ہوئے علماءاور طلباءکے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔اور حقیقی جرنلزم کی شمعیں بھی تبھی جلیں گی جب ان کو روشن کرنے والا آسمانی صحیفوں سے روشنی لے کر آئے گا۔ جنابِ نبی کریمﷺ نے کسی بھی اس ذریعہ کونظر انداز نہیں فرمایا جس سے ابلاغ کے دائر ے میں وسعت پیدا ہوتی ہو،موذن کے بلند آواز ہونے کو اذان کا ادب قرار دینا بھی دعوت دین کے دائرے کو ممکنہ حد تک وسیع کرنے کا غماز ہی توہے ! جنابِ نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق اذان کی آواز سن کر شیطان کا بصد ذلت ورسوائی فرار اختیار کرناصرف ایک جزوئی واقعہ ہی نہیں بلکہ اس قدرتی اصول کی طرف راہنمائی ہے کہ دعوت ِحق کے دائرے کی وسعت ہی وہ طاقتور ہتھیار ہے جس کے ذریعہ شیطانی قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔

اس لیے دعوت دین کے فریضہ سے وسیع پیمانے پر سبکدوش ہونے کے لیے اور ہر کچے پکے مکان تک حق کی آوز پہنچانے کے لیے منبر ومحراب کے ساتھ ساتھ میڈیا کے تمام فورمز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے معاصر وسائل کو استعمال کرنا ایسی ناگزیر حیثیت اختیار کرگیا ہے ،جس سے بے توجہی اور بے اعتناعی کا یہ تسلسل ہمیں دنیا سے کاٹ کر دیوار سے لگادینے پر منتج ہوسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک اس کا تجربہ ہمیں ہو بھی چکا ہے ۔اشاعت کے وسائل اور میڈیائی مشنری کی مہارتوں اور ان کے استعمال کی تکنیک سے مسلح ہونے کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آج کے محاورے اور اسلوب بیان سے واقفیت حاصل کی جائے،حق کا پیغام پہنچانے کے لیے اگر یہودیوں کی زبان سیکھنے کی ضرورت پیش آئی تو آپ کے حکم پر صحابہ کرام نے یہ زبانیں نہ صرف سیکھیں بلکہ ان میں اعلیٰ درجہ کی مہارت حاصل کی ہے۔اپنے آباءکی اس تاریخی حقیقت سے ہمیں استفادہ کرکے خشک سالی کو دور کرکے برگ وثمر سامنے لانے ہوں گے ۔
کیسے بتاﺅں کہ برگ و ثمر کے ہوتے ہوئے
مری زمین پہ موسم ہے خشک سالی کا

ایک مدت تک مقتدایانِ اسلام نے ہر مدِمقابل کے طور پر اُبھرنے والی تہذیب اور فلسفے کی زبان اور اُن کے اصول ومبادی میں گہرا اِدراک حاصل کر کے دفاع ِدین کی روایت کو باقی رکھا ،جب تک اس روِّش کو اہل ِعلم کی توجہ حاصل رہی ،کوئی بھی تہذیب اور کوئی بھی فلسفہ اسلام کے سامنے ٹھہرنہیں سکا۔

آج اگر مغربی تہذیب اور فلسفہ کچھ عرصے سے میدان میں کھڑا ہے اور اس کی ظاہری ملمع سازی اور دیدہ ذیبی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے تو صرف اِس وجہ سے کہ ہم نے میدان خالی چھوڑ دیا ہے ۔اس صورت حال میں ترجیحی بنیادوں پر مغربی فکر وفلسفہ کے محاورے طریقہ واردات اور زبان سے آگاہی حاصل کرلینے کے بعد ان کی زبان میں جواب دینا عصرِ حاضر میں دین کی تعبیر وتشریح کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ اور دفاع کا بھی اولین تقاضا ہے ۔

دور مت جائیے ابھی کے چند واقعات پر نظر ڈالئے ارباب ِ جبہ و دستار کے لئے یہ بھی یقینا کافی ہیں ۔اہل ِ اسلام کی ایک ایسی دینی دسگا ہ کہ جس نے بلا شبہ بڑے بڑے نامورلوگ پیدا کئے ہیں اور اب بھی ایسی شخصیت یہاں پر موجود ہے کہ کوئی بھی سلیم العقل شخص اس سلیم الفطرت ہستی کا نام لیتے ہوئے بھی رشک محسوس کرتا ہے ۔اور ان کی عظیم روحانی اور علمی یونیوسٹی جامعہ فاروقیہ میں کس قدر سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا اور ستم بالائے ستم کہ شنوائی بھی ہوئی کسی فورم پر اور اُلٹا اِس یک طرفہ معاملے کو دو طرفہ بنا کراور وہ بھی خاموشی سے نمٹا دیا گیا ،اس کے بر عکس اگر کسی جگہ کوئی بھی مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جانے والاواقعہ ہوتا تو یہی جرنلزم کے نام پہ دھوکا ،مدارس کی طرف توپوں کا رُخ کرتا ،اور اسی زاویہ سے سانحہ نمائش کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔اور یہی میڈیا ہے جس نے اچھے خاصے مذہبی طبقے کو موجودہ سیاسی اوج پہ نظرآنے والی اور مشرف کی باقیات کے مرکب ،نظام ِخلافتِ راشدہ ؓ کی بات کرنے والے کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لینا اور اُن کے جلسوں میں دانستہ یا نادانستہ شرکت کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ سب میڈیا کا کمال ہے کہ وہ نظر سے اُجھل کیئے جا رہے ہیں کہ جنہوں نے واقعی نظامِ خلافتِ راشدہ ؓ کے لئے قبانیاں دی ہیں ۔شاعر سے معذرت کے ساتھ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا عام نہیں ہوتا

تھوڑا سی سوچ رکھنے والا شخص بھی با آسانی یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ بلا شبہ اس ملک میں اسلام کے لئے جو کام ان مدارس نے سر انجام دئے وہ کسی اور کے نصیب میں آئے ورنہ سرکاری مدارس کے لئے بھی کوششیں کی جا چکی ہیں ۔اور اس دور میں جبکہ یونیورسٹی کا پڑھا لکھا نوجوان بھی انگریزی کے لئے اپنی زبان کو بھی نہ سمجھ سکا اور یوں نہ ”اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا“ کا مصداق اور اس حقیقت کو بھی اہل ِ ادب و قلم تسلیم کر چکے ہیں اپنی محفلوں میں کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں جو مدارس نے کلیدی کردارادا کیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔اتنی حقیقت کے باوجود بھی آج ہم کس جگہ پہ رکھے ہوئے ہیں اس میڈیا کی وجہ سے اس کا اندازہ مشکل نہیں !۔مدرسہ میں چوبیس گھنٹوں میں نصف سے زیادہ وقت کتاب کو دینے والا دہشت گرد اور یونیورسٹی میں اسلحہ لہرانے والا ایجوکیٹڈ متعارف کروانے میں ایک اہم کردار بھی اسی دودھاری تلوار کا ہے ۔جو اغیار میں ہاتھوں میں چلی گئی اگر علماءکے ہاتھوں میں ہوتی تو اس کے نتائج بہت مختلف ہوتے ۔ایسی اگرمثالیں ڈھونڈھیں تو بلا مبالغہ ایک دن میں سینکڑوں نظر سے گزرتی ہیں ۔یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے مگرشاید ہم نے اس طرف توجہ دینا اور اس محاذ پر جانے کو کوئی حیثیت ہی نہیں دی جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم اس کو سامنے غلط دیکھ کر اس کو سدھارنے میں اپنا کردار ادا کرنا اپنی توہین سمجھتے رہے ۔یا اس محاذ پر جانے والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور اِسی وجہ سے بہت سارے اپنے بھی ہمیں وقت آنے پر میسر نہیں آتے ۔موجودہ حالات کو دیکھ کر بھی ہم اگر ہم نے دیر کر دی تو آج اگر تندرست اور توانا اور بظاہر اچھا نعرہ لگانے والوں کو کرسی پہ بیٹھ کر نماز ادا کرتے دیکھ کر بھی ،پھرمیرا نوجوان اُسی کے گُن گاتا نظر آئے گا ۔اور اپنوں کی نظامِ خلافتِ راشدہ ؓ کے لئے دی جانے والی قربانیاں بھلا کروہ اِ سی نظامِ ِ خلافتِ راشدہ ؓ کے دعویدار کے سائبان میں جانے پر اترائے گا اور اس چتھری تلے جمع نہ ہونے والے کو بے وقوف سمجھے گا ۔اب بھی وقت ہے سوچ لیجئے ۔ ورنہ اِن کے ہاتھوں میں پکڑے آئینوں میں ہر اُلٹی چیز کو سیدھا دیکھانا ان کی مجبوری سمجھ کر چپ سادھ لیجئے ۔ اب اندھوں کے شہر میں نہیں پھر علماءکے سامنے بھی آئینے بکتے رہیں گے اور تلواریں چلتیںرہیں گی بیچنے اور چلانے والے ہمارے ہی ملک کے مسلمان ہوں گے ۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 55496 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.