کراچی میں باغی اوربھگوڑوں کا جلسہ

پاکستانی سیاست اپنی تاریخ کے اہم مرحلے میں داخل ہوئی ہے اور یہ مرحلہ اس وقت آیا جب سال 2011ءاپنی تمام تر خوشیوں اور غموں کے ساتھ رخصت ہوا اور 2012ءکا آغاز ہے۔ اگر ہم 2011ءکا جائزہ لیں تو گزرے 365 دنوں میں اس ملک کے سیاسی، حکومتی، مقامی اور عالمی حالات میں بہت حد تک تبدیلی آئی ۔ جس کا فائدہ اٹھانے کے لیے عمران خان سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔

تحریک انصاف کی بنیاد 1996ءمیں رکھی گئی لیکن گزشتہ 15 سالوں میں اسے سوائے ناکامی کے کچھ نہیں ملا۔ جن لوگوں نے تنظیم کی بنیاد رکھی، ان میں سے آج چند ہی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ 2011ء عمران خان کے لیے بظاہر کامیابی کا سال ثابت ہوا۔ لاہور میں30 اکتوبر کے تاریخی جلسے کے بعد تو عمران خان کی خوشی قابل دید ہے۔ ہر طرف سے ان کی طرف آنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ 30 اکتوبراور 25 دسمبرکے درمیانی عرصے کا جائزہ لیں تو تحریک انصاف میں بہت کچھ تبدیل ہوا نظر آتا ہے۔ 30 اکتوبر تک لال مسجد میں پرویزی دہشت گردی اور درندگی کا شکار ہونے والے سینکڑوں معصوم طلبہ وطالبات کے قاتلوں کے انچارج ظفر اقبال وڑائچ کی شمولیت پر لوگ عمران خان پر انگلیاں اٹھاتے تھے، لیکن 25 دسمبر کے کراچی میں ہونے والے تاریخی جلسے کے لیے بنے ہوئے اسٹیج پر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہاں تو ہر طرف بھگوڑوں کی صورتیں نظر آ رہی تھیں۔

ان میں مگرایک باغی بھی تھا جس کی پوری سیاسی زندگی سچ اور اصول کے لیے بغاوت کرتے ہوئے گزری ۔یہ باغی کبھی مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے بغاوت پر اترا توکبھی ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت کے خلاف قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پرنمایاں نظر آیا۔ ضیاءالحق نے اسے اپنی کابینہ میں بطور وزیر مملکت شامل کیا تاکہ باغی سے چھٹکارا ملے، لیکن کچھ ہی عرصہ بعدو ہ پھر بغاوت پراتر آیا۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو ا پوزیشن نام کی کوئی چیز پارلیمنٹ میں نہیں تھی، لیکن باغی چند دوسروں کوساتھ ملا کر آزادپارلیمانی گروپ کے نام پر اپوزیشن بن گیا۔ 1988ءمیں اس نے ن لیگ سے رشتہ جوڑ لیا، جو 24 دسمبر 2011ءتک برقرار رہا۔ 23 برس میں باغی کو کئی مواقع پر جماعت کے اندر بغاوت کرنا پڑی اور پھر 2000ءمیںجماعت کی ذمہ داری باغی کو دے کر شریف خاندان جدہ چلا گیا۔ باغی نے آخری وقت تک اس ذمہ داری کو نہ صرف احسن طریقے سے نبھایا بلکہ بغاوت کے مقدمے میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جیل جانااس کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھا ۔ ایک برس قبل اس کو برین ہمریج ہوا لیکن اللہ کی مدد سے باغی نے اس بار بیماری کو بھی شکست دے دی ۔24 دسمبر 2011ءکا دن شاید اس کی زندگی کا منفرددن ہے۔

ایک رات قبل باغی کو منانے کے لیے ن لیگ کی مرکزی قیادت اور خواتین دہاڑیں مار کر روتی رہیں لیکن باغی اڑ گیا۔ منانے والوں میں وہ خاتون بھی شامل تھی جس نے 1999ءکی فوجی بغاوت کے بعد اپنے اہل خانہ کو بچانے کے لیے گھر سے باہر قدم رکھا۔ ایک سال میں راقم نے متعدد بار اس خاتون کی مختلف تقریبات کی کوریج کی لیکن کبھی اس کو سر اٹھا کر لوگوں سے نظریں ملاتے ہوئے نہ دیکھا۔ ایک روز کارساز پر واقع مسلم لیگ ہاﺅس میں کسی نے اس خاتون سے سوال کیا کہ آپ گھر سے باہر کیوں آئیں؟۔ اس بار بھی نظروں سے نظروں ملانے کی بجائے نظریں زمین کی جانب جھکا کر کہا کہ جب گھر کے مردجیل کی کال کوٹھری میں ہوںتو عورت اپنے سہاگ کو بچانے کے لیے نکلتی ہے۔ میں بھی اپناسہاگ بچانے نکلی ہوں اور اگر کامیاب ہو گئی تو پھر آپ مجھے سیاست اور جلسہ جلوس میں کہیں نہیں دیکھ پائیں گے ۔ ہوا بھی یہی کہ میاں برادران کی سعودی عرب روانگی کے بعد اس خاتون کو سیاست کے میدان میں نہیں دیکھا گیا۔ جب اس خاتون (کلثوم نواز) کو باغی کی بغاوت کی اطلاع ملی،تو وہ منانے نکلی لیکن باغی اب نہیں مان رہا تھا۔ ایک طرف یہ خاتون منت سماجت کررہی تھی تودوسری طرف سعد رفیق کی بیٹیاں رو کر باغی کو منانے کے لیے کوشاں تھیں۔باغی نے ساری زندگی سچ کے لیے جدوجہد کی مگر اب کی بار اپنی بغاوت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ کہاکہ کل ملتان میں بات ہوگی ،لیکن جب اس جذباتی ماحول سے نکلا تو اطلاع دی کہ ملتان آنے کی ضرورت نہیں، میرا فیصلہ اٹل ہے۔ لیکن کیاکریں ان کارکنوں کا جنہوں نے 24 دسمبر کی صبح اس کی گاڑی کے سامنے لیٹ کر روکنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔

25 دسمبر کو کراچی میں تحریک انصاف کے اسٹیج پر یہ باغی بھگوڑوں کے درمیان تھا۔ ایک طرف خورشید محمود قصوری تھے جو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا کے علاوہ امریکی دہشت گردی کے وقت فوجی آمر کے دست و بازو تھے اور ان کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائیں تو وہ صرف اور صرف بھگوڑے کی زندگی نظر آئے گی۔ پیپلز پارٹی، تحریک استقلال،ن لیگ، ق لیگ اور اب تحریک انصاف کی چھتری تلے ہیں۔دوسری طرف شاہ محمود قریشی جنھوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ضیاءالحق کے دور میں کیا۔ن لیگ،پیپلز پارٹی کے بعد اب تحریک انصاف ان کا مسکن ہے۔اویس لغاری اور جمال لغاری کے آباءکا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا ۔پارٹی سے بے وفائی کے بعد ملت پارٹی بنائی مگر آمر کے حکم پر اسے ق لیگ میں ضم کردیا، اب تحریک انصاف کو ٹھکانا بنایاہے۔ جہانگیر ترین ،بظاہر تو یہ صاحب بڑے صاف ترین دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی صفائی کی داستانیں معروف دانش ور رسول بخش رئیس سے سنی جا سکتی ہیں۔ ضیاءالحق سے لے کر اب تک مختلف لیگی دھڑوں میں سرگرم رہے اور متعدد بار وزارتی مسندوں کو رونق بخش چکے ہیں اب عمران کے دامن کو تھام لیا ہے ۔سردار آصف احمد علی جن کی تحریک انصاف میں شمولیت کااعلان عمران خان نے کیا،کبھی نواز شریف کے وزیر کی حیثیت سے سود کی حرمت کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرتے نظر آتے تھے ،پھراسی دور میں نوازشریف کوچھوڑ کر غلام اسحاق خان کے ہراول دستے میں شامل ہوئے۔ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثناکی دلیلیں دیتے رہے ۔وزیر خارجہ نہ بنائے جانے پر پیپلز پارٹی سے ناراض ہوئے۔غرض کس کس کانام لیا جائے۔

اسلامی فلاحی ریاست کے قیام اور خلافت راشدہ کا نظام لاگو کرنے کے دعوے دار عمران خان کے جلسے کے آغاز کی حالت یہ تھی کہ تلاوت کے لیے کوئی مناسب فرد ہی دستیاب نہ تھا ،جبکہ جلسے میں میوزک کی بھرمار رہی۔ خان جی ذرا قوم کویہ بھی بتادیں کہ وہ کون سے خلیفہ راشد تھے جن کی اولادیں مرتدین کے ہاں پرورش پارہی تھیں؟۔ جنہوں نے اپنے جلسے یا اجتماع کے لیے لاکھوں افراد کی کم از کم دو وقت کی نمازیں ضائع کروادیں؟۔ان کی شکل وصورت سنت کے مطابق نہ ہو؟۔ یقیناً اس کا جواب یہی ملے گا کہ ایسا کوئی خلیفہ راشدنہیں۔ دراصل پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اسلام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان انھی میں ایک اضافہ ہے۔

25 دسمبر2011ءکو تحریک انصاف کا جلسہ اگرچہ شرکا کے حساب سے تاریخی تھا لیکن اسٹیج پر بھگوڑوں کے مقابلے میں نظریاتی لوگوں کی تعداد کم تھی۔ جلسے میں چند دلچسپ واقعات بھی پیش آئے۔ ایک نوجوان نعرہ بازی کے دوران حقیقت کو چھپا نہ پایا اور جئے عمران کی بجائے جئے الطاف کا نعرہ لگادیا۔ چند نظریں اس نوجوان کی طرف اٹھیں لیکن پھر درگزر کیا گیا۔ جب باغی اسٹیج پر آیا تو ہر طرف سے ہاشمی، ہاشمی اور باغی، باغی کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوئیں، لیکن چند نوجوان ایسے تھے جنہیں شایدباغی اور بغاوت کی حقیقت کا علم نہیں تھا وہ ہاشمی، ہاشمی کی جگہ نواز شریف، نواز شریف کے نعرے بلند کرنے لگے۔ معروف دانشور او ر تحریک انصاف کے مفکر ہارون الرشید کو بابائے قوم محمد علی جناح کی فاتحہ کے لیے اسٹیج پر بلایا گیا۔ موصوف اسٹیج پر بنے ہوئے ڈائس کے پیچھے تک تو پہنچے لیکن معلوم نہیں کہ وہاں کیا ہوا کہ تقریباً ایک منٹ کے بعد فاتحہ ہارون الرشید کے بجائے اسٹیج سیکریٹری کو خود کرانی پڑی۔اس پر صحافیوں نے دلچسپ تبصرے کیے۔ ایک نے کہاکہ” ہارون الرشید نے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے بانی پاکستان کے لیے فاتحہ نہ کرائی“۔ دوسرا یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں فاتحہ پڑھنے کا طریقہ ہی نہ آتا ہو ۔تیسرا یہ بھی قرین قیاس ہے کہ بے وضو فاتحہ نہ پڑنے میں عافیت جانی۔چوتھا دوستو! اگریہ حرکت کسی اور نے کی ہوتی تو دانشور ایک درجن نہیں تو کالموں کی ہیٹ ٹرک ضرور کرتے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے پوتے ولید اقبال کا حال بھی دانشور سے کچھ کم نہ تھا۔ جذباتی تقریر کے دوران دو مرتبہ سورئہ فاتحہ کی ابتدائی آیت پڑھنے کی کوشش کی لیکن پڑھ نہ پائے اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے کہہ رہے تھے کہ”یہ ملک اسلام کے نام پر بنا لیکن یہاں کے حکمرانوں کو تو سورہ اخلاص تک نہیں آتی“ ان کا اشارہ وفاقی وزیر داخلہ کی طرف تھا اور پھر انہوں نے اپنے دادا علامہ اقبال کے اشعار کے ساتھ جو کچھ کیا اگر علامہ موجود ہوتے تو یقینا وہ اپنی تیسری نسل پر روتے۔

امریکا میں قید قوم کی بیٹی کی تصاویر بھی جلسے میںبہت سے افراد کے ہاتھوں میں دکھائی دیں۔ جن پر لکھا تھا” جو عافیہ کو لائے گا وہی لیڈر کہلائے گا“مگر یہ تصایر اورعبارت کسی بھگوڑے کو نظر نہیں آئیں صرف باغی ہی بولا۔ نظر بھی کیوں آتی۔ جس وزیر خارجہ کے دور میں قوم کی اس بیٹی کو امریکا کے حوالے کیا گیااور جس وزیر خارجہ کے دور میں امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنائی، ان دونوں کے علاوہ مشرف کے حامیوں کی کثیر تعداد بھی اسٹیج پر موجود تھی۔ جلسے کی جذباتیت، انفرادیت، اپنی جگہ لیکن ہم جب اسٹیج کی طرف دیکھتے تو یہ کہنے پر مجبور ہوتے کہ یہ سچے باغیوں اور انقلابیوں کا نہیں بلکہ ایک سچے باغی اور بھگوڑوں کا اجتماع تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا باغی جاوید ہاشمی اپنے چیمپیئن عمران خان کادامن ان بھگوڑوں سے بچاپائے گا ؟۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.