قبل از وقت عام انتخابات اور نئے صوبوں کی بازگشت!

ملک میں بڑھتے ہوئے بحرانوں اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاستدانوں کی اکثریت کی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت بھی قبل از وقت عام انتخابات پر غور کررہی ہے اور اس کے لیے حکمرانوں نے مشاورت بھی شروع کردی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں قبل از وقت انتخابات کے لیے نواز شریف سے ملاقات کے لیے آمادگی کے بعد صورت حال کافی واضح ہوگئی ہے۔ جبکہ جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کئی روز سے کہہ رہے ہیں کہ عدالت یا فوج کی جانب سے زبردستی کسی فیصلے پر عمل درآمد کرانے یا فیصلہ مسلط کرنے سے پہلے سیاستدان خود مل کر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کریں تو یہ عمل آئینی ہوگا تاہم اس سے قبل شفاف ووٹر فہرستوں کی تیاری، آزاد الیکشن کمیشن کا قیام، غیر متنازع اور غیر جانبدار عبوری حکومت سمیت دیگر کئی امور پر تمام سیاسی قوتوں کامتحد اور متفق ہونا نہایت ضروری ہے۔ مسلم لیگ( ن )کے سربراہ نواز شریف پہلے ہی ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرچکے ہیں اور اس مطالبے پراب جماعت اسلامی کے سید منور حسن اور دیگر سیاسی قوتیں بھی سنجیدہ نظر آتی ہیں۔

قبل از وقت انتخابات کے مطالبے اور ملک بھر میں جلسوں کی بہار کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اب تمام قوتیں وقت سے پہلے انتخابات کے لیے سنجیدہ ہیں ،تاہم اختلاف اس بات پر ہے کہ عام انتخابات مارچ 2012ءکے سینیٹ انتخاب سے قبل ہوں یا بعد۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما بھی اس بات پر متفق ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات کے فوراً بعد ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا جائے، ورنہ ملکی حالات، سیاستدانوں کے کنٹرول سے باہر ہوں گے۔ جس کا نتیجہ ملک میں کسی تیسری قوت کی مداخلت کی صورت میں نکل سکتا ہے، جبکہ کچھ قوتیں سینیٹ کے انتخابات سے قبل ملک میں عام انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں تاکہ پیپلز پارٹی کو ایوان بالا میں سادہ اکثریت حاصل نہ ہوسکے۔

سینیٹ کے قواعد کے مطابق اپنی مدت مکمل کرنے والے 50 سینیٹروں کا انتخاب مقررہ وقت پر ہوتا ہے تو پیپلز پارٹی کی نشستیں 41 سے 44 تک ہوسکتی ہیں۔ ایسی صورت میں آئندہ کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بھی بنے تو بھی قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ میں اس کو اہمیت حاصل ہوگی۔ کوئی بھی جماعت حکومت بنالے، مگرقانون سازی اور بجٹ کی منظوری سمیت تمام امور پر اسے پیپلز پارٹی کی مدد درکار ہوگی اوراس مددکے بغیر نظام حکومت چلانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا ۔

بعض باخبر حلقے نئے انتخابات کے حوالے سے مئی 2012ءیا اکتوبر2012ءکو انتہائی اہمیت دے رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ سیاسی صورت حال کے حوالے سے عدلیہ میں زیر سماعت بعض اہم معاملات پر بڑھتی مشکلات کے باعث حکومت خود سنجیدہ فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کی پہلی کوشش یہ ہوگی کہ سیاسی قوتوں اور عوام کے سامنے اصل مسائل کاحل رکھنے کی بجائے مصنوعی ، جزوقتی اور متنازعہ مسائل میں قوم کو الجھا کر وقت گزاری کی جائے اس سے بھی بات نہ بنی تو سینیٹ کے انتخابات کے فوراً بعد نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت اتحادی جماعتوں نے صدر آصف علی زرداری کو اختیار دیا ہے کہ وہ جب چاہیں سینیٹ کے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں۔

قواعد کے مطابق 11 فروری اور 11 مارچ کے درمیان ہی سینیٹ کے انتخابات ہوسکتے ہیں، جس کی تصدیق الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور محمد دلشاد کرچکے ہیں، جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات ایک ماہ قبل بھی ہوسکتے ہیں، تاہم اگر آئین کے مطابق ہی شیڈول کو مدنظر رکھا جائے تو سینیٹ انتخاب کے شیڈول کے اجراءمیں تقریباً ایک ماہ ہی رہ گیا ہے۔

حالات کی نزاکت اور مشکلات کے پیشِ نظر اورعام انتخابات کو قریب تر دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی بھی اب جذباتی عوامی مسائل اورنعروں پر توجہ دے رہی ہے۔ جس کی ایک واضح مثال ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے چھڑنے والی بحث ہے ۔ اگرچہ اس کی ابتداءمتحدہ قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے سے کی، جس پر تین روز تک قومی اسمبلی میں بحث جاری رہی ،اس دوران انتہائی جذباتی مناظر بھی دیکھنے کو ملے ۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے جو حربہ ن لیگ کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کیا وہی اب اتحادیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن رہا ہے۔ ایک جانب پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم ، اے این پی،ق لیگ ، جمعیت علماءاسلام اور دیگرسرائیکی صوبے پر تو متفق نظر آتے ہیں لیکن اے این پی ہزارہ صوبے کے مطالبے پر حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکی تک دے چکی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم ،جمعیت علماءاسلام اور ق لیگ کے کچھ رہنما ہزارہ اور سرائیکی صوبہ، دونوں کا قیام چاہتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی نے اسفند یار ولی خان کے احتجاج اور دھمکی کے بعد ہزارہ صوبہ کے حوالے سے اپنی پالیسی میں نہ صرف نرمی کردی بلکہ پیپلزپارٹی اپنے موقف پر نظر ثانی بھی کرچکی ہے، ایسی صورت میں ق لیگ ، ایم کیو ایم اور کچھ دیگر جماعتوں کے لئے دونوں کی بجائے صرف سرائیکی صوبے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑا رہنا آسان نہ ہوگا، اور اتحادیوں کے متحد ہوئے بغیر نئے صوبے کے قیام کی قومی اسمبلی میں کسی قرارداد کی منظوری نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے آئین میں پورا طریقہ کار موجود ہے لیکن کچھ سیاسی قوتیں عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس طریقہ کار کو اختیار کرنے کی بجائے دوسرے راستے تلاش کررہی ہیں، یہی اس ملک کی بدقسمتی ہے ۔ دنیا میں نئے صوبے، ڈویژن، اضلاع، تحاصیل، سب ڈویژن، یونین کونسلوں اور انتخابی حلقوں کاقیام اورحد بندیاں انتظامی بنیادوں پر مسائل کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ذاتی مفادات کو ہی مدنظر رکھا جا تا ہے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ اس بحث کے آغاز سے قبل حکومت اور تمام جماعتیں اس بات پر متفق اور متحد ہوجاتیں کہ نئے انتظامی صوبوں کے قیام کے لیے کوئی ایسا کمیشن بنایا جائے جو غیر متنازعہ اور غیر جانبدار ہو۔ اس کے فیصلوں کی روشنی میں جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں نئے صوبے قائم کئے جائیں۔ اب جب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے کم از کم سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے حوالے سے زور وشور کے ساتھ مہم جاری ہے تو ایسے میں مزید ایک درجن کے قریب صوبوں کے قیام کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ ق لیگ ہم خیال کی خاتون رکن کشمالہ طارق نے تو 15 صوبوں کے قیام کی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کو 5، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کو تین تین صوبوں میں تقسیم کیا جبکہ فاٹا کو ایک الگ صوبے کا درجہ دیا جائے اور ملک میں صوبوں کی تعداد4 سے بڑھاکر 15کردی جائے۔

یہ بھی عجیب تضادہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نئے صوبے تو چاہتی ہے ،لیکن سندھ کے حوالے سے کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی کو اس بات پر غور کرنا ہوگاکہ اگر نئے صوبوں کے قیام کے اختیارات 20 ویں ترمیم کے تحت صوبوں سے وفاق کو ملے تو مستقبل میں پیپلز پارٹی کے گڑھ سندھ میں بھی اس ترمیم کا استعمال ہوسکتا ہے۔ جبکہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم کی پالیسی میں فی الحال سندھ میں نئے صوبے کا قیام شامل نہیں ہے، لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ سیاست میں حالات اور تعلقات اسی طرح برقرار رہیں۔ ہزارہ اور سرائیکی صوبوں کے لسانی بنیاد پر قیام کے بعد کسی اور جگہ لسانی بنیادوں پر صوبے کے قیام کو روکا نہیں جا سکے گاجس کا تمام تر نقصان ملکی وحدت کو ہوگا۔ اب سیاستدانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقتی کے بجائے ملکی و دائمی مفادات کو مدنظر رکھیں۔ عوام کو مصنوعی تنازعات اور بحرانوں میں الجھا رکھنے کی بجائے اصل مسائل پر توجہ دیں۔

بدلتے ہوئے سیاسی موسم کو دیکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں نے عوام سے رجوع کرلیا ہے اور جلسوں کی حد تک اس کا اظہار بھی ہورہا ہے۔ جنوری کا مہینہ جلسوں کے حوالے سے خصوصاً کراچی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج (اتوار) کو پرویز مشرف کی ”آل پاکستان مسلم لیگ“ مزار قائد کے سامنے جلسہ کر رہی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ لاہور کی طرح ”جلسی“ ہوگی یا واقعی جلسہ ہوتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ پرویز مشرف کا جلسہ دراصل” رینٹل “جلسہ ہوگا۔ شہر میں جلسے کی تیاریوں کے حوالے سے سرگرمیاں کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں،پھر بھی مشرف کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ تاریخی جلسہ کرے گی۔

جلسے کا اعلان توجمعیت علماءاسلام (ف) بھی کرچکی ہے۔جمعیت کے تحت 27 جنوری 2012ءکو شارع قائدین پر” اسلام زندہ باد کانفرنس“کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں صوبے بھر میں تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں۔ جمعیت علماءاسلام کی صوبائی قیادت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک تاریخی جلسہ کرنے میں کامیاب رہے گی۔ ان کی تیاریاں کسی حد تک اس کی نشاندہی بھی کر رہی ہیں تاہم اصل صورتحال تو جلسے میں ہی سامنے آئے گی۔ ویسے گزشتہ دو ماہ سے مولانا فضل الرحمن سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں ایک درجن کے قریب کامیاب جلسے کرچکے ہیں،اگر جمعیت علماءاسلام کراچی میں بھی تاریخی جلسہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ ان قوتوں کے لیے ایک سخت پیغام ہوگا جن کا یہ موقف ہے کہ حکومت کے ساتھ رہنے کی وجہ سے جمعیت علماءاسلام کی ساکھ کمزور ہوئی ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 5 جنوری2012ءکو کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کے قیام کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں تاہم اصل رکاوٹ جماعت اسلامی کا وہ مطالبہ ہے جس کے تحت وہ ایم ایم اے کی بحالی سے قبل ہی خیبر پختونخواہ میں 50 فیصد سیٹیں دینے کا وعدہ چاہتی ہے۔ ایسی صورت میں اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی، تاہم اصول اور ضوابط کے مطابق اگر جماعت اسلامی کا حصہ بنتا ہے تو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ہم اس سے زیادہ حصہ دینے کو تیار ہیں۔کس کو کتنا حصہ ملے اس کا فیصلہ تو جمعیت علماءاسلام اور جماعت اسلامی کی قیادت کی بجائے متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو کرنا چاہئے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ہم نے کسی سے سیٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کی بحالی چاہتے ہیں تو صدر زرداری سے الگ ہوجائیں۔ ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے جمعیت علماءاسلام اور جماعت اسلامی کے درمیان کھینچا تانی مذہبی قوتوں کے لیے انتہائی افسوسناک پیغام ہے۔دونوں جانب سے بظاہر لچک کی بجائے سختی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جو مذہبی قوتوں کے لیے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔دونوں جماعتوں کی قیادت نے سنجیدگی سے کوئی فیصلہ نہ کیا تو آنے والے انتخابات دو نوں کے لیے انتہائی مشکل ثابت گے کیونکہ وہ طبقہ جو مذہبی قوتوں سے ہمدردی رکھتا ہے،ان کا اتحاد چاہتا ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو وہ اپنا ووٹ ضائع کرنے کی بجائے کسی دوسری قوت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس پر مذہبی قوتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

کراچی میں جلسے کا اعلان دفاع پاکستان کونسل بھی کرچکی ہے جو اب 29 جنوری کی بجائے 12 فروری کو ہوگا۔ اس سے قبل دفاع پاکستان کونسل لاہور میں ایک تاریخی جلسہ کرکے یہ ثابت کرچکی ہے کہ وہ عوامی سطح پر ایک بہت بڑی قوت ہے۔ لاہور کا کامیاب جلسہ ان قوتوں کےلئے پیغام بھی ہے جو کالعدم قرار دے کر جماعة الدعوة اور اہلسنت والجماعت پاکستان کا استحصال کرنا چاہتی تھیں۔ لاہور کے کامیاب جلسے میں ان دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد کی شرکت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں عوامی سطح پرمو ¿ثر قوت رکھتی ہیں ۔حکومت اور اداروں کو بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی اور علاقائی حالات کو مدنظر رکھیں تو ہمیںتوڑ کی بجائے جوڑ کی ضرورت ہے۔ یہی جوڑ ہمیں مسائل اور مشکلات سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.