امریکی ”ڈھول سپاہی “ ۔پیمپرز اور پتھر کا دور

خبر ہے کہ امریکہ بہادر اور نیٹو کے فوجی پیمپر باندھ کر لڑتے ہیں ۔کیونکہ جب ”سپر پاور“ کے ان ”بہادر“ اور ”جانباز“ سپاہیوں کا طالبان اور مجاہدین سے سامنا ہوتا ہے تو ان کا پیشاب اور ۔۔۔۔۔خطا ہوجاتاہے۔بڑی حیرت انگیز خبر ہے لیکن سچ ہے۔ اب حقیقت کھلی کہ یہ ہے وہ ”سپر پاور “ کی ”توپ “ قسم کی فوج جس سے جنرل پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے نفس ناطقہ شیخ رشید احمد قوم کو ڈرایا کرتے تھے کہ اگر امریکہ سے پنگا لیا تو وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا۔

اب ذرا تصور تو کریں کہ اس وقت کیا عالم ہوتا ہوگا جب امریکہ کے یہ ”ڈھول سپاہی “طالبان کی تلاش میں نکلتے ہونگے اور طالبان کا سامنا ہوتے ہیں ان کی پینٹ”گیلی “ ہوجاتی ہوگی۔ خبر کے مطابق امریکی حکام نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی ہے کہ کم از کم پیمپرز تو فوری طور پر روانہ کئے جائیں جبکہ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ ”بہادر“ فوجی بکتر بند گاڑیوں میں ہونے کے باوجود رفع حاجت کے لئے باہر نہیں نکلتے بلکہ وہیں فارغ ہوتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ہنسنے کی بات ہے لیکن دراصل یہ عبرت کا مقام ہے کہ دنیا کی سپر پاور کہلانے والی اور نیا کے ہر معاملے میں چوہدری کا کردار ادا کرنے والے ملک کے فوجیوں کی ہمت اور دلیری کا یہ حال ہے کہ وہ آرام سے رفع حاجت بھی نہیں کرسکتے ہیں۔فاعتبرو یا اولی الابصار

بات یہ ہے کہ جدید اسلحہ،مادی وسائل ،اور کثیر تعدادمیں ہونا ایک اور بات ہے لیکن بہادری اور دلیری کا تعلق اخلاقیات سے ہوتا ہے۔اس خبر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکیوں کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ وہ افغانستان کے نجات دہندہ نہیں بلکہ قابضین ہیں،اسی وجہ سے ان کے اندر وہ اخلاقی جرات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بہادری نہیں ہے۔انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ وہ جن سے مقابلہ کرنے آئے ہیں وہ اس گھر کے مالک ہیں اور کوئی چور یا قبضہ گیر چاہے کتنا ہی طاقتور اور با اثر کیوں نہ ہو اس کے دل میں چور تو ہوتا ہی ہے ۔

اس کے برعکس مجاہدین (طالبان) یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں،وہ جانتے ہیں کہ عددی برتری،مادی وسائل کی کثرت کے باوجود اللہ تعالیٰ حق کےساتھ ہے ۔وہ اسلام کی تاریخ سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں کہ کس طرح 313نے 1000کے لشکر کو شکست دی،کس طرح 10ہزار نے تبوک کے میدان میں لاکھوں کے لشکر کو للکارا تھا اور وقت کی سپر پاور روم کا لاکھوں کا لشکر مقابلے پر آنے کی ہمت ہی نہیں کرسکا تھا۔نصرت اور تائید غیبی تو مجاہدین اور اہل ایمان کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ذرا غور سے ان تصاویر کو دیکھئے
 

image

ایک جانب امریکہ اور ناٹو کے جدید اسلحے سے لیس وہ فوجی ہیں جنہوں نے مکمل حفاظتی لباس زیب تن کررکھا ہے،سر پر ہیلمٹ،سینے پر بلٹ پروف جیکیٹ،پتھریلے اور سخت راستوں پر چلنے کے لئے فل بوٹ،حتیٰ کہ گھٹنو ں اور کہنیوں پر حفاظتی پیڈز باندھے گئے تاکہ اگر کہیں زمین پر لیٹ کر آگے بڑھنا پڑے تو گھٹنے اور کہنیاں نہ چھلیں۔
 

image

اور اس کے بر عکس زرا مجاہدین اور تصاویر بھی دیکھیں،نہ کوئی ہیلمٹ،نہ بلٹ پروف جیکٹ حتیٰ کہ پیروں میں ایک جیسے جوتے تک نہیں لیکن پھر بھی اللہ کے راستے پر چلنے کے باعث،جہاد کی سنت کو زدنہ کرنے کے باعث اللہ نے دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب ڈال دیا ہے اوران کو دیکھتے ہی امریکہ کے بہادر فوجیوں کا پیشاب خطا ہوجاتا ہے۔

تو جناب یہ ہے وہ توپ قسم کی فوج جس سے جنرل مشرف قوم کو ڈراتے رہتے تھے کہ اگر امریکہ کی بات نہ مانی تو وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا۔اور پھر یہ ہوا کہ پتھر کے دور سے بچنے کے لئے ہم امریکہ اور مغربی اقوام کے سامنے جھکتے چلے گئے،جہاد کو دہشت گردی،مجاہدین کو دہشت گرد کہا جانے لگا۔دین پر عمل کرنا مشکل بنایا جانے لگا،روشن خیالی کا تصور پروان چڑھایا جانے لگا۔دینی رجحان رکھنے والے ڈاکٹرز،انجنیئرز، اور تاجروں کو ماورائے عدالت ایجنسیوں کی حراست میں لیا جانے لگا( اور درجنوں ایسے افراد آج بھی لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لئے سپریم کورٹ میں کیس داخل کیا جاچکا ہے )۔پتھر کے دورمیں جانے سے بچنے کے لئے کشمیر کاز کو چھوڑ دیا گیا،کشمیر پالیسی پر یو ٹرن لیا گیا،بھارت کو لچک دکھائی جانے لگی،اس قدر لچک کہ اب ان کی ثقافت ہمارے گھروں میں داخل ہوگئی ہے اور ہمارے نوجوان کمر لچکانے لگے ہیں۔یہ سارے کے سارے کام اس امید پر کئے گئے تھے کہ ان سب کے عوض ملک میں خوشحالی آئے گی،قرضوں سے نجات ملے گی،کشمیر کو آزادی نصیب ہوگی اور ملک کی سرحدیں محفوظ ہونگی اور امن و امان کی صورتحال مستحکم ہوگی مدنیا بھر ممالک میں ہمارا ”سافٹ امیج“ اجاگر ہوگا۔لیکن یہ سارے کام کرکے بھی ہم کچھ بھی حاصل نہ کرپائے

آئیے ذرا ایک انمول حدیث قدسی کا مفہوم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اللہ تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے کہ اے ابنِ آدم! ایک میر ی چا ہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تو نے سپرد کر دیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے تو وہ بھی میں تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے۔ ہوگا پھر وہی جو میری چاہت ہے۔

اور واقعی اللہ کا وعدہ سچا ہے ” اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے۔“ہم نے اللہ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی اور ترقی کرنا چاہی،استحکام پیدا کرنا چاہا،معیشت مضبوط کرنا چاہی،خزانہ بھرنا چاہا،کشمیر آزاد کرانا چاہا لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوا،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمادیا کہ ’ہوگا وہی جو میری چاہت ہے“ آج ہم امریکہ اور صلیبی افواج کا ساتھ دینے کے باوجود پتھر کے دور میں پہن چکے ہیں۔جی ہاں سوچیں اور غور کریں کہ کیا پتھر کے دور میں یہی کچھ نہ ہوتا تھا کہ کسی کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے اور لوگ باگ چھین چھپٹ اور شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتے تھے،آج ملک میں بیروزگاری ہے،چوری،ڈاکے،موبائل چھننے کی وارادتیں ہیںچھینا چھپٹی ہے۔پتھر کے دور میں بجلی نہیں ہوتی تھی اور آج ہم بھی بجلی کی قلت کا رونا رو رہے ہیں،صنعتیں بند ہورہی ہیں،پتھر کے دور میں گیس نہیں ہوتی تھی بلکہ لوگ باگ لکڑیاں وغیرہ جلا کر اپنا کام چلایاکرتے تھے ،آج ہم گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کررہے ہیں،آج ہمارے چولہے بجھے ہوئے ہیں۔ذرا خبارات پر ایک نظر تو ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر اخبار میں یہی خبریں ہوتی ہیں کہ فلاں جگہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث مظاہرے ہورہے ہیں،فلاں جگہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف لوگ جمع ہوگئے،فلاں علاقے کے صنعت کاروں نے مظاہرہ کیا،فلاں علاقے میں صنعتیں بند ہونے سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے۔ہماری سرحدیں پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہیں،ہماری معیشت دگرگوں ہے،آج ڈالر 91روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے،قرضوں کا حجم بڑھتا چلا جارہا ہے۔اور ایٹمی پروگرام خطرات کی زدمیں ہے اور ان سب کے باوجود دنیا بھر میں ہمارا امیج کیا ہے؟ ایک دھوکے باز ریاست کا امیج،ایک دہشت گرد ملک کا امیج۔

سوچیں اور غور کریں کہ کیا امریکہ کی مخالفت کرکے اس سے زیادہ نقصان ہوسکتا تھا؟

ہمارے خیال میں تو ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس ہوتا،ہمارے پڑوس میں ایران امریکہ کو للکارتا رہتا ہے،امریکہ اور اس کے حواری آئے دن ایران کو دھمکاتے رہتے ہیں لیکن وہ ان کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتا،تو کیا وہ پتھر کے دور میں پہنچ گیا؟جی نہیں

بے سروسامان مجاہدین نے آج امریکہ غرور خاک میں ملا دیا ہے،وہی امریکہ جس کے لئے ملا عمر دنیا کے مطلوب ترین افراد میں سے ایک تھا اسی امریکہ نے ملا عمر کا نام مطلوب ترین افراد کی فہرست سے نکال دیا ہے۔آج طالبان کو قطر میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے تاکہ وہاں موجودہ امریکی سنٹرل کمانڈ آفس طالبان سے بہ آسانی اور براہ راست رابطہ کرسکے اور واپسی کی بھیک مانگ سکے لیکن طالبان اسے یہ بھیک دینے کو تیار تو ہیں لیکن اپنی شرائط پر،حال ہی میں امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کے بعد گوانتاناموبے میں قید پانچ طالبان کمانڈرز کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور عین ممکن ہے کہ جس ووقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں اس وقت ان کمانڈرز کو رہا کردیا گیا ہو۔آج رحمان ملک صاحب کبھی طالبان سے اپیل کرتے ہیں اور کبھی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔کیوں کہ ان کے مائی باپ امریکہ نے بھی تو طالبان کی حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے۔

امریکہ تو اس خطے سے جارہا ہے اور اس کو جانا ہی ہے لیکن اس مسئلہ تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے پرائی جنگ میں اپنے لوگوں کو قتل کیا،جو امریکی تہذیب و ثقافت کی غلاظت روشن خیالی کے نام پر یہاں پھیلانا چاہ رہے تھے ،جنہوں نے امریکہ کے ہر ہر اقدام کی حمایت کی ۔اب ان کو یہ فکر لگ گئی ہے کہ اگر امریکہ چلا گیا تو ہمارا کیا ہوگا؟ کچھ نہیں ہوگا ! وہی ہوگا جو اللہ چاہے گا۔

”اللہ تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے کہ اے ابنِ آدم! ایک میر ی چا ہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تو نے سپرد کر دیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے تو وہ بھی میں تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے۔ ہوگا پھر وہی جو میری چاہت ہے۔“
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1459012 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More