میمو اسکینڈل ، منصور اعجاز اگر چوبیس جنوری کو پاکستان نہ آیا تو جھوٹا کون

منصور اعجاز ایک مکمل امریکی شہری کہ جس کی اپنی کہی کے مطابق اسکی ساری وفاداری امریکہ کے ساتھ ہے اور اس کا پاکستان کے مفاد اور سلامتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک ایسا بزنس مین کہ جو پاکستانی وی وی آئی پیز کو مختلف طریقوں سے اپنے پھندے میں پھنسانے میں ہر وقت مصروف رہتا ہے یہ وہی منصور اعجاز ہے کہ جس نے 1990 کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف سازشوں کے انبار لگادیے۔ بظاہر منصور اعجاز ایک بزنس مین ہے مگر اسکی دولت کا اندازہ اس قدر زیادہ ہے کہ خود منصور اعجاز اس بات پر اصرار نہیں کرتا کہ اس نے یہ ساری دولت کاروبار سے کمائی ہے-

منصور اعجاز میمو گیٹ اسکینڈل کو سامنے لایا اور الزام تراشیوں پر مبنی اپنی باتیں منظر عام پر لاتا رہا تاکہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شروع ہونے والے کھچاؤ کو اتنا بگاڑ دیا جائے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ حکومت وقت کا تختہ الٹ دے۔ یہ تو شکر کا مقام ہے کہ آرمی چیف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے غیر معمولی تناؤ کے درمیان بھی بنے گئے تانے بانوں میں اپنے آپ کو اس قدر ملوث ہونے سے بچایا کہ جہاں سے واپسی کا راستہ کسی کے لیے بھی نہ رہ پاتا۔ اس سارے میمو گیٹ میں منصور اعجاز نے انتہائی چابکدستی سے اپنی چالوں کو روائتی امریکی جھوٹ اور مکر و فریب سے اس قدر مہارت سے چنا کہ بہت سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا کہ منصور اعجاز اصل میں پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے انتہائی مخلص ہے مگر یاد رہے کہ منصور اعجاز یہ بات پہلے ہی واضع کرچکا تھا کہ اس کو پاکستان کی سلامتی اور بقا سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اس میمو اسکینڈ ل کو اس قدر کھینچا گیا کہ پاکستانی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا پر منصور اعجاز اور اسکی بیان کی گئی مکاریوں کے ڈھنڈورے کچھ اس انداز سے پیٹے گئے کہ قوم اور دنیا کو یہ منصور اعجاز پاکستان کا سب سے مخلص اور وفادار شخص معلوم ہونے لگا اور کسی بھی قسم کی عدالتی کاروائی سے پہلے ہی حسین حقانی کو پاکستان کا دشمن اور ان کے باس کو پاکستان کا عظیم ترین دشمن ثابت کر دیا گیا۔ چنانچہ عدالت عالیہ نے اس میمو اسکینڈ ل پر ایک تفصیلی انکوائری کا آغاز کیا کہ جس میں یہ اندازہ لگایا جائے کہ یہ اسکینڈل کیونکر شروع ہوا اور اس میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے اور اس کا مقصد کیا تھا۔ میمو گیٹ اسکینڈل شروع ہوا جب منصور اعجاز نے الزام لگایا کہ پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر مسٹر حسین حقانی نے ان سے (منصور اعجاز) سے کہا تھا کہ ایک اہم خفیہ میمو امریکی حکومت کے انتہائی اہم عہدے دار کو پہنچا دیا جائے اور یہ وہ میمو تصور کروایا گیا کہ جو میمو حسین حقانی نے صدر مملکت پاکستان آصف علی زرداری کے کہنے پر لکھا کہ جس میں امریکی حکومت کو یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان کی حکومت کو ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی سے براہ راست خطرات ہیں۔ اس میمو کے خلاف حسین حقانی کا شروع دن سے یہ موقف تھا کہ یہ میمو بالکل غلط ہے اور منصور اعجاز انہیں جال میں پھانس کر تختے پر لٹکوانا چاہتا ہے۔

منصور اعجاز کی وکالت کی اپنے کندھوں پر مشہور و معروف وکلا رہناؤں میں سے ایک رہنما اکرم شیخ نے اٹھائی اور انہوں نے کسی بھی قسم کی عدالتی کاروائی شروع ہونے سے بھی پہلے میڈیا پر گویا اپنی ایک عدالت ہی سجالی اور اس میں اپنے موکل یعنی منصور اعجاز کو پاکستان کا وفادار اور مخلص اور پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو قابل گردن زنی مجرم ثابت کر ہی دیا۔ منصور اعجاز کو میمو اسکینڈل کے سلسلے میں پاکستان میں کمیشن کے سامنے 24جنوری 2012کو پیش ہونے کا کہا گیا اس سلسلے میں پہلے تو منصور اعجاز اور ان کے وکلا (اکرم شیخ کے علاوہ ٹی پر بے شمار اینکرز اور تجزیہ نگار منصور اعجاز کے بے دام کے وکلا ہی بن بیٹھے تھے) یہ شور شرابا کرتے رہے کہ پاکستان ان کو ویزہ نہیں دے رہا، مگر لندن سے پاکستانی ایمبسی نے انہیں ایک سال کا ملٹی پل ویزہ جاری کردیا، چنانچہ وہاں سے وہ ویزہ لے کر پاکستان آنے کے دعوے کرتے رہے اور اپنے رونے پیٹنے میں یہ کبھی یہ کہتے رہے کہ میں ضرور آؤں گا اور سچ اور جھوٹ کو ثابت کردوں گا، کبھی وہ کہتا رہا کہ میری جان اور فیملی کو دھمکیاں مل رہی ہیں مجھے مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے، ان کو مکمل سیکورٹی فراہم کی گئی مگر ان کے وکیل باہر کو نکلتی آنکھوں کے ساتھ یہ مطالبے کرتے رہے کہ منصور اعجاز کو فوج کی سیکورٹی فراہم کی جائے، فوج نے اس کی بھی حامی بھر لی مگر پھر ان کے مطالبے بڑھے اور کہا گیا کہ ایک بریگیڈ فوج ان کی حفاظت کے لیے متعین کی جائے، منصور اعجاز اور ان کے وکیل کی بے سروپا فرمائشیں بڑھتی گئیں اور سپریم کورٹ سے ان کو یہ حکم بھی عنایت کیا گیا کہ حکومت پاکستان منصور اعجاز کوکسی بھی پٹیشن پر گرفتار نہیں کرے گی، ان کی فرمائشیں بڑھتی گئیں اور بالاخر کل 24 جنوری آہی رہی ہے انشا اللہ کہ جس دن منصور اعجاز کو کمیشن کے سامنے پیش ہونا ہے مگر آنے والی خبروں سے اندازہ ہورہا ہے کہ منصور اعجاز وجوہات کی بنا پر پاکستان نہیں آرہے، دیکھیں کہ وہ کل 24 جنوری کو پاکستان آکر کمیشن کے سامنے پیش ہو کر خود کو سچا اور حسین حقانی اور دوسرے کو کیسے جھوٹا ثابت کرکے پاکستان کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اگر وہ آگئے تو یقیناًاچھی بات ہے کہ انہوں نے جو وعدہ کیا وہ پورا کیا، مگر اگر کل منصور اعجاز پاکستان آنے سے قاصر رہا تو ہم یہ سمجھنے پر حق بجانب ہونگے کہ منصور اعجاز ایک جھوٹا، مکار، فریبی، دھوکے باز اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والا ایک شخص ہے اور ہمیں آئندہ ایسے جھوٹوں، مکاروں اور فریبوں میں پھنس کر اپنے ملک و قوم کے ساتھ ہاتھ کرنے میں کچھ تو سوچ کر مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کل منصور اعجاز کی یہ فرمائش بھی آسکتی ہے کہ میمو کمیشن پاکستان سے باہر کسی ملک میں بنایا جائے پھر شاید یہ کہا جائے گا کہ آئی ایس آئی یا فوج کی ایک بریگیڈ اس ملک میں بھی ان کی حفاظت کرے جہاں کمیشن اپنا کام کرے۔ پاکستان کے بے شمار سیاسی اور معاشرتی پیچیدگیوں میں ایک منصور اعجاز کیا اس جیسے کتنے ہی آکر پاکستان کو راستے سے ہٹا سکتے ہیں کیونکہ جب ہمارے ملک سے مخلص نہیں تو باہر کے سازشی کیونکر پاکستان کے مخلص ثابت ہوسکتے ہیں۔

حکومت نے اس سارے معاملے میں انتہائی چابکدستی کا مظاہرہ کیا حالانکہ فوج اور حکومت کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ کردیے گئے مگر حکومت نے ان تمام حالات و واقعات کے باوجودجمہوریت کی بقا کے لیے موثر اقدامات کیے اور پاک فوج نے بھی بڑی حد تک تصادم سے گریز کیا وگرنہ دشمنوں کی چال بخوبی کامیاب ہوجاتی۔کاش ہم پاکستانی اپنے ملک سے مخلص ہوجائیں اور چاہے ہم ملک میں ہوں یا بیرون ملک صرف میڈیا اور خاص کر الیکٹرونک میڈیا کے شور شرابے اور صرف اور صرف منفی پروپیگنڈے سے ہٹ کر کچھ عملا پاکستان کے لیے کرنے کی ٹھان لیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم ملک کو ترقی نہ دیں سکیں،
یقیناًپاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے مگر ہمارے دشمن باہر تو یقیناًہونگے مگر ہمارے اپنے ہی سادگی میں بے شک مخلص ہونے کے باوجود غیر ارادی اور غیر محسوس طور پر ملک کا امیج خراب کرنے کا سبب بن جاتے ہیں، کاش ہم اپنے ملک کو اتنا اہم سمجھیں کہ جیسا ہم اپنی زات کو اہم سمجھتے ہیں اور کاش ہم صرف تنقیدیں اور صرف برائیاں ڈھونڈنے کے بجائے اپنے ملک کے لیے کچھ واقعی کرنے والے بن جائیں۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495356 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.