ہمارے دور کی بجلی

دادی اماں نے لالٹین جلا کر کمرے کے درمیان میں رکھے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔علی بیٹا۔۔۔۔آجاؤ۔۔۔۔میں نےلالٹین جلا کر رکھ دی ہے تم اپنا ہوم ورک کر لو۔۔۔۔

آہا۔۔۔۔ ایک ہمارا زمانہ تھا کہ کبھی لوڈشیڈنگ کا کانسیپٹ بھی تھا ۔۔۔ایک یہ زمانہ ہے کہ بجلی کا کانسیپٹ ھی نہیں۔۔۔ کم از کم دن میں دو تیں گھنٹے ہی آ جائے جس سے یوپی ایس تو چارج ہو۔۔۔۔پتہ نہیں کس قسم کے ظالم حکمران آ چکے ہیں ہمارے اوپر۔۔۔ نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے، نہ گیس کا کوئی نام و نشاں۔۔۔ ہائے ہائے کیا بنے گا اس ملک کا۔۔۔ پتہ نہیں کیسے چل رہا ہے یہ اللہ کا خاص کرم ہے اس ملک پر۔۔۔۔

دادی اماں آپ کس سے باتیں کر رہی ہیں۔۔۔۔۔کمرے میں توکوئی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ علی شرارت سے دادی اماں سے پوچھتا ہے۔۔۔۔۔ اپنے ملک کی تقدیر سے باتیں کر رہی ہوں بیٹا جو اس وقت ظالم اور کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔دادی نے رنجیدہ ہو کر جواب دیا۔۔۔۔ دادی جان یہ لوڈ شیڈنگ کی آپ کیا بات کر رہیں تھیں یہ کیا ہوتی ہے؟؟؟؟۔۔۔

بیٹا لوڈشیڈنگ۔۔۔۔۔۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جب بجلی بند کی جاتی ہے تو اسے لوڈشیڈنگ کہتے ہیں۔۔۔۔وہ تو بس ہمارے زمانے میں سے ہونا شروع ہوئی تھی۔ شروع میں تو دن گھنٹہ دو گھنٹے ہی ہوتی تھی پھر جیسے جیسے حکومتیں بدلتی گئیں یہ دورانیہ بڑھتا گیا اور بیس پچیس سالوں میں تو بجلی ہی ختم ہو گئی۔۔۔ ہمارے آباو اجداد ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ان کے زمانے میں بھی لوگ لالٹین اور چراغوں کی روشنی سے ہی پڑھا کرتے تھے۔۔۔۔اب دوبارہ وہی زمانہ آ گیا ہے۔۔۔ جو لوگ پیسے والے ہیں وہ تو جنریٹر سے بجلی پیدا کر لیتے ہیں اور جو ہمارے جیسے مڈل کلاس ان کے نصیب میں پھر سے وہی لالٹین اور چراغ۔۔۔۔

دادی اماں ہم نے تو پڑھا ہوا ہے کہ یہ کمپیوٹر کا دور ہے اور دنیا بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ نئی نئی ایجادات ہوں رہیں ہیں۔۔۔۔ تو کیا وہ لوگ بھی لالٹین اور چراغوں کی روشنی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔ علی نے معصومیت سے دادی سے پوچھا۔۔۔۔۔۔

نہیں بیٹا ۔۔۔۔ وہ لوگ ہم سے بہت آگے ہیں وہاں چور لٹیرے اور کرپٹ حکمران حکومت نہیں کرتے اور نہ ہی وہ قومیں مردہ ضمیر کی مالک ہیں۔ ان ملکوں میں ہر کوئی اپنا کام بڑی ایمانداری سے کرتا ہے۔۔۔ وہ لوگ جتنی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ہم لوگ اتنی ہی تیزی سے پیچھے کو جا رہے ہیں اور اگر یہی صورت حال رہی تو تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمارا نام و نشان اس دنیا سے ختم ہو جائے گا۔۔۔۔۔

نہیں دادی اماں۔۔۔۔ آپ اس قدر مایوس مت ہوں۔۔۔۔۔ اس ملک کی نئی نسل میں اتنی غیرت ہے کہ اپنے پیارے ملک پاکستان کو تباہ ہونے سے بچا لیں۔۔۔۔ علی نے بڑے جذباتی انداز سے اپنی دادی کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

شاباش بیٹا شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے میری ٹوٹتی ہوئی امید کو بچا لیا ہے خدا تمہیں اور تم جیسے سبھی نوجوانوں کو سلامت رکھے۔۔۔۔ اس ملک کی آخری کرن تم لوگ ہی ہو۔۔۔ اور تم نے ہی اس ملک کو ختم ہونے سے بچانا ہے۔۔۔۔ خدا تمہیں سلامت رکھے۔۔۔۔۔۔ خدا تمہیں سلامت رکھے۔۔۔۔۔ دادی نے لرزتے ہونٹوں اور سے علی کا ماتھا چوما اور بھیگی پلکوں کو اپنے دوپٹے سے صاف کیا اور خدا کا شکر ادا کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100535 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.