سینیٹ انتخاب:دو ارب روپے کے سودے ۔ وحیدہ شاہ کا طمانچہ

ملک میں گزشتہ دو سال سے سینیٹ کے 2 مارچ 2012 ءکو ہونے والے انتخابات سوالیہ نشان اور مختلف خدشات و غلط فہمیوں کا سبب بنے ہوئے تھے،سینیٹ الیکشن کی تکمیل کے بعد ان خدشات و تحفظات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ 2 مارچ کو ہونے والے سینیٹ الیکشن کے نتائج تقریباً وہی آئے جن کی توقع کی تھی، تاہم پیپلز پارٹی کو توقع سے کم نشستیں ملیں جس کی وجہ مبینہ مفاہمانہ پالیسی اور پنجاب میں پارٹی اختلافات نظر آتے ہیں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی ایوان بالا میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، لیکن سادہ اکثریت نہ حاصل کرسکی اور مستقبل میں بھی اسے سینیٹ میں اتحادیوں کی مدد درکار ہوگی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اب آئندہ تین سال تک کوئی بھی حکومت پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر ایوان میں قانون سازی نہیں کرسکے گی۔

اس وقت قومی چاروں صوبوں اوراسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے، تو 2 مارچ 2012 ءسینیٹ الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی( عوامی)،جمعیت علماءاسلام (ف)،مسلم لیگ (ن)اورمسلم لیگ (ق) فائدے میں رہیں،جبکہ پیپلز پارٹی نقصان میں اور عوامی نیشنل پارٹی مناسب رہی ۔ جمعیت علماءاسلام(ف)اورمسلم لیگ (ن)کی پوزیشن تو مجموعی طور پر تو بہتر رہی، لیکن خیبر پختونخوا میں دونوں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے باالترتیب کارکردگی مناسب نہ رہی ،تاہم جمعیت علماءاسلام (ف)بلوچستان میں بہتر حکمت عملی کی وجہ سے3 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 2 مارچ 2012 ءسینیٹ الیکشن کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی کو19،مسلم لیگ (ن) کو9،(ایک آزاد، حمایت یافتہ) عوامی نیشنل پارٹی کو7، جمعیت علماءاسلام (ف) کو5(ایک آزاد حمایت یافتہ)، متحدہ قومی موومنٹ کو4 ،مسلم لیگ (ق) کو4،بلوچستان نیشنل پارٹی( عوامی) کو2،آزاد5اورمسلم لیگ (ف) کو ایک نشست پر کامیابی ہوئی۔ پیپلز پارٹی کو23 سے 25 ملنے کا امکان تھا، مگرمبینہ مفاہمانہ پالیسی اور پنجاب میں اپ سیٹ کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو سندھ، پنجاب،وفاق اور بلوچستان میں 4سے6 نشستوں کی قربانی دینی پڑی۔ مفاہمت کا سب سے زیادہ فائدہ متحدہ قومی موومنٹ اورمسلم لیگ (ق) کو ہوا، جس کے نتیجے میں یہ دونوں جماعتیں اپنی دو دو غیر یقینی نشستیں حاصل کرنے میں کامیا ب رہیں۔ تاہم وقت نے یہ ثابت کردیا ہے مسلم لیگ (ق) عملاً ختم ہوچکی ہے اورپیپلزپارٹی کے سہارے کے بغیر مسلم لیگ (ق) صفرہے۔

104رکنی ایوان بالا میں اب پیپلزپارٹی کو 41،مسلم لیگ (ن)کو15(ایک آزاد حمایت یافتہ)،عوامی نیشنل پارٹی کو12، جمعیت علماءاسلام(ف)کو10(3آزاد حمایت یافتہ)، متحدہ قومی موومنٹ کو3 ،مسلم لیگ (ق) کو5،بلوچستان نیشنل پارٹی( عوامی) کو3، آزاد 11اورمسلم لیگ (ف) کو ایک رکن کی حمایت حاصل ہوگی ۔ 2مارچ کے سینیٹ الیکشن میں سب سے بڑا اپ سیٹ پنجاب میں ہوا، جہاں پر پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ق) کے چکر میں اپنی یقینی نشست پر اپنے دیرینہ کارکن اسلم گل کو شکست سے دو چار کر بیٹھی۔پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی غلط حکمت کی وجہ سے پیپلزپارٹی اسلم گل 43ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ناکام، جب کہ مسلم لیگ( ن)کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے 22ووٹ حاصل کرنے والے آزاد امید وار محسن لغاری(ن لیگ حمایت یافتہ) کامیاب رہے۔ سینیٹ کے نو منتخب 54 ارکان 12 مارچ2012ءکو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، جبکہ 50 ارکان 11مارچ2012ءکو ریٹائر ہوں گے۔

2 مارچ 2012 ءکے سینیٹ کے انتخاب کے نتیجے میں پیپلز پارٹی شیرپاﺅ، جماعت اسلامی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،تحریک انصاف اور جمہوری وطن پارٹی کا ایوان بالاسے صفایا ہوچکا ہے اور آئندہ تین سال تک ایوان بالا میں ان کی نمائندگی نہیں ہوگی۔ اگر یہ قومی اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل کرلیں تو بھی ایوان بالا میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کی پوزیشن کافی کمزور ہوئی ہے، اس کے تین سینٹرز 11 مارچ کو ریٹائر ہوں گے،جس کے بعد ایوان بالا میں مذہبی قوتوں کی نمایندگی صرف جمعیت علماءاسلام (ف)کے پاس ہی ہوگی۔

2 مارچ 2012ءکے سینیٹ کے انتخاب میں خرید وفروخت بھی انتہائی عروج پر رہی، جس سے نہ صرف پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے بلکہ کرپشن کی بدترین مثال قائم کی ۔ اس حوالے سے بالترتیب بلوچستان، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے نام زبان زد عام رہے، تاہم سندھ اور پنجاب کی نیک نامی رہی۔ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے مطابق سینیٹ انتخاب دوران 2 ارب روپے کی خریدو فروخت ہوئی ۔ بلوچستان میں ایک رکن کو ووٹ کے عوض 65 کروڑ کے فنڈ کی ادائیگی کی گئی، جب کہ عام طور پر ایک ووٹ کی قیمت تین سے چار کروڑ نقدتک بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جنرل نشستوں پر پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح کے لیے بالترتیب 3 سے 4 کروڑ، 2 سے ڈھائی کروڑ اور 50لاکھ سے ایک کروڑ تک کا ریٹ مقرر تھا، جب کہ فاٹا کی نشستوں کے لیے بھی ریٹ اسی طرح کا بتایا جاتا ہے جہاں 50کروڑ کے لین دین کی بات کی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے ووٹ کی قیمت دو سے تین کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔جنرل نشستوں پر پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح کے لیے بالترتیب2 سے 3کروڑ، 2 سے ڈھائی کروڑ اور 50لاکھ سے ایک کروڑ تک کا ریٹ مقرر تھا۔بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر40 سے45 کروڑ روپے کا لین دین ہوا۔

سندھ میں مسلم لیگ ہم خیال کے سربراہ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم چاہتے تو لین دین کرسکتے تھے، مگر انہوں نے سیاسی مطالبات رکھ کر ایک اچھی مثال قائم کی۔ جن کے پورے نہ ہونے پر پوزیشن واضح ہونے کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لیا اور دونوں طرف سے غیر جمہوری اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرنے سے گریز کیاگیا جو مثبت عمل ہے ۔یہی صورت حال پنجاب کی رہی تاہم محسن لغاری کی کامیابی اور اسلم گل کی ناکامی کی شکل میں پیپلزپارٹی کے لیے سخت دھچکا ہے ۔ محسن لغاری کی کامیابی اس لیے بھی زیر بحث رہی کہ ان کے کاغذات ابتدائی طور پر مسلم لیگ( ق) کی اس شکایت پر مسترد کردیے گئے کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہوئے ہیں اس لیے اب پارٹی ٹکٹ کے بغیر سینیٹ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ بعد ازاں اسکو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیاگیا جس نے اعتراض کومسترد کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سینیٹ کے انتخابات میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ تمام قوتیں ملک میں جمہوریت کا استحکام چاہتی ہیں، لیکن خرید وفروخت کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ یقینا جمہوریت کے لیے بدنامی کا داغ ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ حال ہی میں 20 ویں ترمیم کی منظوری کے موقع پر حکومت نے ترمیم میں حمایت حاصل کرنے کے لیے سینیٹروں کے کئی سالوں کے رکے ہوئے 36 کروڑ روپے کے فنڈ آدھے گھنٹے میں جاری کیے، جس کو تمام حلقے سیاسی رشوت قرار دے رہے ہیں۔ اگر حکومتی سطح پر ووٹوں کی خرید وفروخت اس طرح ہو تو پھر کسی نظام میں استحکام آنا مشکل تو کیا نا ممکن ہے۔اس کے تدارک کے لیے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سینیٹ کے انتخابات سے قبل ملک میں مجموعی طور پر 10 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوا۔ یہ وہ نشستیں تھیں جو مختلف ارکان کے استعفوں کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت یا پھر انتقال سے خالی ہوئی تھیں ۔ قومی اسمبلی کے نتائج مسلم لیگ( ن)، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے حق میں ہی آئے۔ لیکن 25 فروری 2012ءکے ضمنی انتخابات پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان رہے گا۔ پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی محسن شاہ کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پی ایس 53 میں پیپلز پارٹی کی نامزد امیدوار وحیدہ شاہ نے اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر اور مخالف امیدوار کی پولنگ ایجنٹ کے منہ پر جو طمانچے مارے وہ یقینا کسی ایک یا چند خواتین کے منہ پر نہیں،بلکہ پوری سیاسی قیادت،الیکشن کمیشن ،انتظامیہ،اخلاقیات،جمہوری نظام، اور بالخصوص پیپلزپارٹی کی قیادت کے منہ پر طمانچہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا پڑا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وحیدہ شاہ کے رویے کے حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری وہاں پر موجود پریزائیڈنگ آفیسر پر عائد ہوتی ہے، جسے قانون کے مطابق سول مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے۔ وہ ایسے رویے یا انتخابی عمل میں مداخلت کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کا حکم دے سکتی تھیں اور حکم پر عمل نہ کرنے والے انتظامی افراد کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جاتی ہے۔ جس وقت وحیدہ شاہ اسسٹنٹ پولنگ آفیسر اور مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹ پر طمانچوں کی بارش کررہی تھی اس وقت پریزائیڈنگ آفیسر نے اپنی موجودگی کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا اور پولیس بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پولنگ اسٹیشن میں پریزائیڈنگ آفیسر الیکشن بھی روک سکتی تھیں۔ ابتدائی طور پر الیکشن کمیشن نے بھی سرد مہری سے کام لیتے ہوئے معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔ لیکن معاملہ بار بار میڈیا میں آنے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوا، جس کی وجہ سے 48 گھنٹے بعد وحیدہ شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنی پڑی۔اس ضمن میں کہا جاتاہے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نتیجہ روکنے اور کارروائی کے حق میں نہیں تھے،لیکن سیکریٹری الیکشن کمیشن نے ایکشن لیا جس پر بعض قوتیں ناراض ہیں۔ شاید یہ وجہ ہے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کرنا پڑا۔

اس پورے عمل میں پیپلز پارٹی کی خاموشی انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ حقیقتاً یہ طمانچے کسی خاتون کو نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے منہ پر طمانچے تھے، جو جمہوریت اورآزادی کی بات کرتی ہے اور اس کی نامزد خاتون امیدوار میڈیا کی موجودگی میں خاتون کو نہ صرف زدوکوب کرتی رہی بلکہ میڈیا میں اس کا اعتراف بھی کرتی رہی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے از خودنوٹس لیا، اب معاملہ عدالت میں ہے ۔ مجموعی طور پر عوام کا یہ خیال ہے کہ وحیدہ شاہ کے ساتھ قانون کے مطابق سخت تادیبی کارروائی ہونی چاہئے تاکہ کوئی فرد آئندہ اس عمل میں مداخلت نہ کرسکے۔ ماہرین کے مطابق اس جرم کی پاداش میں وحیدہ شاہ کو تین ماہ تک سزا ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ 7 سال کے لیے نااہل ہوں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ 2 مارچ کو وحیدہ شاہ نے سپریم کورٹ میں غیر مشروط طور پر معافی مانگی لیکن عدالت نے ان کی معافی کو مسترد کردی۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ وحیدہ شاہ پر ایک نہیں کئی مقدمات بن سکتے ہیں۔ ایک تشدد کا، دوسرا انتخابی عمل میں مداخلت کا، تیسرا مبینہ طور پر کسی دوسری خاتون کی جعلی پریس کانفرنس کرواکر دھوکہ دینے کی کوشش۔ اب وحیدہ شاہ کی قسمت کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے، تاہم کچھ بھی ہو اس کیس کا نتیجہ ایسا ہونا چاہئے جو آئندہ سب کے لیے مقام عبرت ہو۔ ہمارے یہاں جرم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ سزا کے بجائے معاملات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امید ہے کہ موجودہ صورت حال میں ایسا نہیں کیا جائے گا اور وحیدہ شاہ کا یہ عمل عدالتی فیصلے کی وجہ سے شفاف انتخابات کی طرف ایک اور اہم قدم ثابت ہوگا۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.