سندھ اسمبلی کا تاریخ شکن اجلاس اوراتحادیوں کا تصادم

جمعہ 16 مارچ2012ءکو سندھ اسمبلی کا اجلاس اس اعتبار سے تاریخ شکن تھاکہ اس میں احتجاج، ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کرنے والے ممبران کا تعلق اپوزیشن کی بجائے حکومتی بینچوں سے تھا اور وہ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج تھے جب کہ احتجاجیوں میں ایک درجن کے قریب وزراءبھی شامل تھے۔اگرچہ اتحادی جماعتوں میں بعض معاملات میں کئی ماہ سے شدید تناﺅ تھا اورسینیٹ انتخابات کے بعد احتجاج کی بازگشت سنائی دے رہی تھی مگر صورت حال اس حد تک خراب ہونے کا کسی کو خیال نہ تھا۔

ذرائع کے مطابق صوبے کی دو بڑی اتحادی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اورمتحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)گزشتہ کئی ماہ سے ایک دوسرے کے متعلق اندرون خانہ شدید تحفظات رکھتی تھیں،لیکن سینیٹ انتخابات میں اپنے اپنے مفادات کی خاطر ان پر پردہ ڈال کر مفاہمت کو برقرار رکھا گیا، لیکن اندرون خانہ پکنے والا یہ لاوا سندھ اسمبلی میں پھٹ پڑا۔ اگرچہ متحدہ قومی اسمبلی میں اس سے قبل احتجاج اور واک آوٹ کرچکی تھی لیکن جو منظر سندھ اسمبلی میں دکھائی دیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ سندھ اسمبلی میں احتجاج کے لیے متحدہ ایک روز قبل حکمتِ عملی بنا چکی تھی اور اس نے اپنے حامیوں کو اسمبلی کے باہر جمع ہونے کی ہدایت کی۔ یہ احتجاج شہر میں بھتا خوری،لوٹ مار، اغواءبرائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم کے خلاف تھا۔ یہ بات درست ہے کہ کراچی میں بھتا خوری،لوٹ مار، اغواءبرائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2011ءمیں سپریم کورٹ کی کارروائی کے ایک مختصر وقفے کے بعد جرائم کے بڑھنے کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔ اس ضمن میں تاجروں اور شہریوں کی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ اپنی عوامی حمایت اور پارلیمانی قوت کواپنے مطالبات اورموقف کے حق میں استعمال کی بھر پور مہارت رکھتی ہے۔ 16مارچ کو بھی سندھ اسمبلی کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج اس کی ایک مثال تھا، جس کو قائم مقام اسپیکر شہلا رضا اور سیکریٹری اسمبلی ہادی بخش برڑو تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔ دو دن کے وقفے کے بعد اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو دن 10 بجے ہونا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا، 11 بجے تک ایوان خالی رہا اور ساڑھے 11بجے تک پیپلز پارٹی کے ارکان نے ایوان میں آنے کی زحمت نہ کی ، جب کہ متحدہ نے صبح 9بجے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس کیا جو تقریباً 2گھنٹے جاری رہا، جس میں احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی طے کی گئی۔ 11بج کر 2 منٹ پر متحدہ کے ارکان جلوس کی شکل میں اپنے چیمبر سے نکل کر نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان میں داخل ہوئے۔اکثر ارکان نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے اور عبارات درج تھیں۔ ایوان میں اجلاس کے آغاز تک تقریباً 29 منٹ تک ان کا احتجاج نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں شدت آتی رہی، احتجاج میں ہر اول دستے کا کردار وزراءادا کررہے تھے۔ دوسری جانب اسمبلی کے باہر بھی ہزاروں افراد جمع تھے جنہوں نے متحدہ کے جھنڈے اور احتجاجی پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

11 بج کر 32 منٹ پر قائم مقام اسپیکر کی صدارت میںجلاس کا آغاز ہوا۔ تلاوت اور نعت کے دوران متحدہ کے ارکان نے خاموشی اختیار کی تاہم پلے کارڈ اپنی نشستوں کے سامنے آویزاں کر کے کھڑے ہو کر اپنے احتجاج کے سلسلے کو جاری رکھا۔ جونہی نعت ختم ہوئی، ایم کیو ایم کے ارکان نے بھتاخوری، غنڈہ گردی،لوٹ مار، اغواءبرائے تاوان اور دہشت گردی بند کرو کے نعروں کے ساتھ اسپیکر سے بولنے کی اجازت چاہی۔ قائم مقام اسپیکر نشستوں پر بیٹھنے کے بعدبولنے کا موقع دینے اوراس سے پہلے فاتحہ خوانی کی تلقین کرتی رہیں، مگر یہاں کس نے کس کی سننی تھی اور فاتحہ خوانی ہوئی اور نہ ہی کسی کی آواز کو سنا گیا۔ ایوان نعروں سے گونج اٹھا اور پھر مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا، پرجوش اور جذباتی نعروں کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ احتجاجی ارکان نے مائیک چلانے والے عملے کو مائیک کھولنے کا کہا اس عمل کو قائم مقام اسپیکر نے ملازمین کو ہراساں کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ قائم مقام اسپیکر نے اپنی آواز پر زور بنانے کے لیے خصوصی مائیک منگوایا، لیکن تب بھی آواز سنائی نہ دی اور وہ ارکان کو فاتحہ خوانی کے لیے کہتی رہیں۔ لیکن کوئی نہیں اٹھا جب حاجی منور علی عباسی بولنے کے لیے اٹھے، دو احتجاجی ارکان وہاں وارد ہوئے اور مائیک کے ذریعے نعرے بازی شروع کر دی چند لمحوں بعد مائیک بند کردیا گیا۔

قائم مقام اسپیکر نے وقفہ سوالات شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے نیشنل پیپلز پارٹی کے عارف مصطفی جتوئی کانام پکارا جن کے ابتدائی پانچ سوالات تھے، مگر ان کامائیک کھلتے ہی کچھ ارکان وہاں آئے اور مائیک سے نعرے بازی شروع کی، اسی دوران مائیک ٹوٹ گیا، عارف مصطفی جتوئی قائم مقام اسپیکر کی توجہ اس طرف مبذول کراتے رہے مگر ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی اور وہ احتجاجیوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے اسپیکر کی ڈائس کے قریب پہنچے، جہاں پر احتجاجیوں کا قبضہ تھا اورقائم مقام اسپیکر سے کہا کہ میرا مائیک توڑ دیا گیا ہے۔ اسی دوران دو ارکان نے انہیں وہاں سے ہٹایا اور ان کو اپنی نشست کی طرف دھکیلا اور یہیں سے صورت حال یکسر تبدیل ہوئی۔ اس عمل کو دیکھتے ہی چند لمحے قبل تک احتجاج سے ہنستے مسکراتے انجوائے کرنے والے پیپلز پارٹی کے وزراءسید مراد علی شاہ، محمد ایاز سومرو اور دیگر آگ بگولا ہوئے۔ انہوں نے متحدہ کے ارکان کے اس عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انتباہ کیا کہ وہ اس سے گریز کریں جس کو شاید متحدہ کی موجود صف اول کی قیادت نے بھی محسوس کیا اور اپنے ارکان کو سمجھا کر سائیڈ پر کرنے کی کوشش کی، لیکن اسی دوران پیپلز پارٹی کے وزیر نادر مگسی بھی درمیان میں کود پڑے۔ متحدہ کے ایک رکن اور نادر مگسی کے درمیان ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی تاہم تلخ کلامی جاری رہی۔ بعض ارکان کی سنجیدگی کی وجہ سے کوئی بڑا تصادم نہیں ہوا۔

دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوگئی جب سندھ کے متحدہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر عبدالحسیب خان اپنی نشست پر چڑھ کر زبردست جذباتی نعرہ بازی کرتے ہوئے ”الطاف الطاف“ کے نعروں کے ساتھ اپنے جذبات کو قابو نہ رکھ سکے اور پیچھے کی نشست کی طرف جھکے جس سے یہ محسوس ہوا کہ شاید وہ بے ہوش ہوئے ہیں، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سید رضا ہارون سمیت دیگر ارکان نے انہیں سمجھایا اور سہارا دے کر ایوان سے گیلری کی طرف لے گئے جس سے یہ محسوس ہوا کہ شاید ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے لیکن چند ہی منٹ بعد وہ ایک مرتبہ پھر واپس آکر اسی جگہ نعرے بازی کے عمل میں شامل ہوئے اور آخر تک موجود رہے۔

احتجاج کے دوران سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری، وزیراعلیٰ، قائد حزب اختلاف سمیت ایک درجن سے زائد ارکان کی نشستوں کے مائیک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور بعض کا ہتھیار بن گئے، اسمبلی ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ پھاڑ کر ایوان میں اچھالی گئیں جس کے باعث اسپیکر کی ڈائس کے سامنے والی جگہ ایک کوڑے دان کا منظر پیش کررہی تھی۔ شدید ہنگامہ آرائی کے دوران 11 بجکر 45 منٹ پرقائم مقام اسپیکر نے اعلان کیا کہ” وہ متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کے نا مناسب رویے کی وجہ سے اجلاس پیر تک ملتوی کرتی ہیں“ لیکن احتجاج پھر بھی تھم نہیں سکا اور متحدہ کے فیصل سبزواری اور سید رضا ہارون نے اسپیکر کی ڈائس کے سامنے ہی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا انہوں نے قائم مقام اسپیکر پر جانبداری کا الزام لگایا۔ اس دوران بیشتر عملہ ایوان سے باہر جا چکا تھا اور پیپلز پارٹی کے اکثر ارکان بھی جاچکے تھے۔ تاہم سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان، سینئر وزیر پیر مظہر الحق سمیت نصف درجن کے قریب وزراءاس منظر کو دیکھنے کے لیے ایوان میں موجود رہے۔ پیر مظہر الحق مسکراتے رہے اور باقی کافی غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن مفاہمانہ پالیسی کی وجہ سے اپنے غصے کو قابو کیے ہوئے تھے۔ 10 منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر آہستہ آہستہ ایوان کے عملے کے ساتھ ساتھ بتیاں بھی گل ہونا شروع ہوگئیں اور ایوان میں اندھیرا چھاگیا اور مجبوراً متحدہ کے ارکان کو نعرے بازی کرتے ہوئے باہر آنا پڑا،اور جلوس کی شکل میں اسمبلی کی حدود کے باہر موجود مظاہرین میں شامل ہوئے۔

نماز جمعہ کے بعد قائم مقام اسپیکر نے میڈیا کے نمائندوں کے ہمراہ ایوان کا معائنہ کیا اور انکشاف کیا کہ ہنگامہ آرائی کے باعث 19 مائیک مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار جب کہ 30 کے قریب کا ساﺅنڈ سسٹم تباہ ہوچکا ہے،اس طرح سندھ اسمبلی کا ایک تہائی ساﺅنڈ سسٹم تباہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی بدترین ہنگامہ آرائی اور عملے کو ہراساں کرنے کی کوشش ہوئی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔ اس کی تصدیق سیکریٹری اسمبلی ہادی بخش بڑرو نے بھی کی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ احتجاج واقعی صرف بھتہ خوری،لوٹ مار، اغواءبرائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم کے خلاف متحدہ کا غیر سیاسی اور صرف عوامی ردعمل تھا؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ احتجاج کے مقاصد کسی حد تک عوامی ضرور ہیں مگر اصل مقاصد سیاسی ہیں۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے تناﺅ کا سلسلہ جاری تھا۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے عمل،آئین کے آرٹیکل 239 (4) میں متحدہ کی ترمیم کے خلاف سندھ اسمبلی میں جمع ہونے والی قرار داد کی پیپلزپارٹی کے متعدد ارکان کی حمایت،کراچی شہر میں مہاجر صوبے کی چاکنگ اور اس کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد کی متفقہ منظوری، قرارداد کی حمایت کے باوجود دستخط نہ ہونے کی وجہ سے سندھی قوم پرستوں کی متحدہ پر الزام تراشی،قرارداد پیش کرنے والی مسلم لیگ (ف) کی خواتین کو دی جانے والی مبینہ دھمکیوں، صوبے میں مستقبل کے بلدیاتی نظام، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے فرزند حسنین علی مرزا کا پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب اورووٹر فہرستوں میں ردوبدل سمیت دیگر کئی امور پر دونوں اتحادیوں میں اندرون خانہ شدید اختلافات اور تحفظات ہیں اور دونوں موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (جو اپنی عوامی حمایت اور پارلیمانی قوت کے استعمال کی مہارت رکھتی ہے) نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایااور ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کردیا، کیوں کہ 17مارچ 2012ءکو صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرناتھا اور وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس موقع پر اتحادی بائیکاٹ کریں۔

2008ءکے بعد دوسری مرتبہ متحدہ اس طرح احتجاج میں مصروف دکھائی دی۔ پہلی مرتبہ جولائی 2011ءکو اس وقت احتجاج کیا جب اسمبلی میں پیپلز پارٹی صوبے میں کمشنری نظام کی بحالی کے حوالے سے بل پیش کررہی تھی لیکن اس احتجاج میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کا عنصر دکھائی نہیں دیا تھا لیکن 16 مارچ 2012ءکے اجلاس میں یہ عنصر زیادہ نظر آیا جس سے لگ یہ رہا ہے کہ شاید اب متحدہ اپنی راہیں جدا کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔ اس حوالے سے صوبے میں قائد حزب اختلاف کے عہدے کی اہمیت کو بھی اہم قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ 20 ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں میں قائد حزب اختلاف کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ نگراں حکومت کے قیام اور الیکشن کے عمل دخل میں اس کی مشاورت کی اہمیت ہے۔ سندھ اسمبلی میں یہ عہدہ خالی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ ہم خیال گروپ کے ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو قائد حزب اختلاف بنانے کے لیے درخواست داخل کرائی گئی لیکن اسپیکر نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ مسلم لیگ (ق) کے صوبے میں 11 ارکان ہیں جن میں سے 6 حکومت میں شامل اور صرف 5 نے درخواست پر دستخط کیے ہیں۔

معاملہ کچھ بھی ہو مگر متحدہ کے حالیہ احتجاج کا آئندہ کی سیاست اورالیکشن سے گہرا تعلق ہے۔صدر زردار ی اور عبدالرحمن ملک نے متحدہ کوپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدارتی خطاب کے دوران بائیکاٹ ختم کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں،لیکن کیا تمام معاملات طے ہوگئے ہیں، یقینا ایسا نہیں بلکہ اور ”دلی دور است“ ہے۔ تاہم اس احتجاج سے وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک ایک مرتبہ پھر سندھ کے معاملات میں ان ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل تک متحدہ عبدالرحمان ملک کے بجائے بابر اعوان پر اعتبار کررہی تھی لیکن لگتا یہ ہے کہ بابر اعوان کا برا وقت ہے اس لیے اب عبدالرحمن ملک پر ہی انحصار کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزراءنے سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد اپنی پارٹی کو شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے، مفاہمت کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کو کہا ہے۔ جب کہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر دونوں جماعتیں شیر وشکر ہو جائیں گی، جس کا کچھ اشارہ سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیا اور کہا کہ الیکشن کے دوران متحدہ کو ہمارے ساتھ ہی رہنا ہے۔ جس سے لگتا یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی کچھ کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہیں۔ 16اور 17مارچ 2012ءکے احتجاج کو نئی حکمت عملی کا ابتدائی مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.