گردنوں میں ”سریا“ اور سروں کی فصلیں

صدر زرداری آجکل کسی غیر ملکی دورے پر نہیں بلکہ ہندوستان یاترا کرنے سے پہلے لاہور کے دورے پر ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ان کا گورنر ہاﺅس میں قیام کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ وہ گذشتہ دو روز سے مسلم لیگ (ن) کے خلاف دھواں دار بیانات دے رہے ہیں، پہلے ان کا کہنا تھا کہ شریفوں کی چمک میری دی ہوئی ہے اور جب چاہوں ان سے واپس چھین لوں، شریف برادران کے پاس تو والد کے جنازے کے لئے لوگ نہیں تھے اسی لئے میاں شریف کی میت کو نماز جنازہ کے لئے سید علی ہجویری کے مزار پر لیجایا گیا تھا۔ یہ ایک ایسی بات تھی جس نے مسلم لیگ (ن) کے قائدین میں جوش کی آگ بھڑکا دی۔ ایک حد تک یہ بیان غیر اخلاقی بھی تھا کہ مرنے والوں اور ان کے جنازوں پر اس طرح کا اظہار خیال ایک عام آدمی کو بھی زیب نہیں دیتا جبکہ زرداری صاحب تو شومئی قسمت سے آج کل صدر پاکستان کے منصب پر فائز ہیں۔ یہاں پر شریف برادران سے یہ کہنے کو دل کرتا ہے کہ ”ہور چوپو....“ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جواب آں غزل کے طور پر جہاں ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں 15 آدمیوں کی شرکت اور صدر زرداری کا دو کلومیٹر دور اپنے والد حاکم زرداری کی تیمار داری کے لئے نہ جانا سامنے آیا وہیں اور بھی بہت سی باتیں کہی گئیں جن میں ایک بات زیادہ اہم ہے کہ کسی صاحب نے یہ کہا کہ صدر زرداری کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہوں نے جو دماغی سرٹیفکیٹ سوئس عدالت کو دیا تھا وہ سرٹیفکیٹ بالکل درست ہے۔ بہرحال آنے والے الیکشن کی تیاری شروع ہوگئی ہے اور گرما گرمی کی اس طرح کی فضا ہی دونوں بڑی جماعتوں کی ضرورت ہے تاکہ ان پارٹیوں سے اوازار لوگ جو دونوں جماعتوں سے ہی مایوس ہیں اور ان کی پالیسیوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور جو آنے والے الیکشن میں عمران خان کو آزمانے کی سنجیدہ سوچ رکھتے ہیں، ان لوگوں کو یہ گرما گرمی دکھا کر اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر واپس اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے جو میاں شریف مرحوم کے بارے میں ایسی نازیبا بات سنے گا اس کو مسلم لیگ اور شریف برادران سے ہمدردی ہوگی اور جو بھٹو کے خلاف ایسے ریمارکس سنے گا اس کو پیپلز پارٹی کی یاد ستائے گی۔ صدر زرداری کا آج کا بیان یہ ہے کہ شریفوں کی گردنوں میں ”سریا“ بھی میرا دیا ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ کیسے نکالنا ہے۔ یقینا شریفوں کی گردنوں میں سریا ہے لیکن زرداری صاحب کا دیا ہوا نہیں بلکہ عوام کی بیوقوفیوں اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے ہے، شخصیت پرستی کی وجہ سے ہے اور ایسا ہی سریا صدر زرداری کی گردن میں بھی موجود ہے، اس مرتبہ اللہ کرے کہ عوام کچھ سمجھداری کا مظاہرہ کرے، اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرے اور کسی وژن کے تحت الیکشن میں ووٹ دے دے تو دونوں کی گردنوں میں جو کئی کئی کلومیٹرکے سرئےے ہیں، انشاءاللہ وہ نکل جائیں گے ....!

جہاں بات سریوں کی چل نکلی ہے تو سر کی قیمت اور سروں کی فصل کی بات بھی کرلی جائے۔ حافظ سعید کے خلاف امریکی اقدام کے بعد مذہبی جماعتیں، مذہبی قیادت اور کارکن تو مشتعل ہیں ہی لیکن عوام بھی کچھ کم اشتعال میں نہیں ہیں۔ میرے ایک بہت پیارے وکیل دوست ہیں جو اکثر مذہبی جماعتوں کی سیاست اور جہادی سرگرمیوں پر نالاں رہتے ہیں اور شدید تنقید کرتے ہیں، جب ان سے اس معاملہ پر تھوڑی سی گفتگو ہوئی تو نہ صرف ان کا لہجہ بدلا ہوا محسوس ہوا بلکہ انہوں نے کہا کہ آج کا جمعہ ہم جامع قادسیہ میں حافظ سعید صاحب کی امامت میں پڑھیں گے۔ چنانچہ ہم جمعہ کی نماز کے لئے وہاں چلے گئے۔ راستے میں وہ دوست کہنے لگے کہ جب پاکستان کی عدالتوں نے حافظ صاحب کو با عزت بری کردیا ہے اور جبکہ ہندوستان و امریکہ کے پاس حافظ صاحب کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے تو یہ امریکہ کی دیدہ دلیری اور خباثت ہے کہ اس نے اس طرح کا اعلان کیا۔ اب وہی امریکہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف یہ کہہ رہا ہے کہ یہ حافظ سعید کے سر کی قیمت نہیں بلکہ ان کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی قیمت ہے۔ اگر کوئی ثبوت موجود ہوتے تو کیا ہندوستان امریکہ کو یا پاکستان کو فراہم نہ کرتا جبکہ انہیں یہ علم بھی ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت امریکہ کے سامنے ایک منٹ میں گھٹنے ٹیک دیتی ہے، مسلمانوں کے خلاف اور بالخصوص پاکستانیوں کے خلاف امریکہ اس لئے زہر اگلتا رہتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے بنک بیلنس بڑھانے کے لئے قرضے لے لے کر اس قوم کا بال بال رہن رکھ دیا ہوا ہے، اگر ہم معاشی طور پر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوتے تو کیا امریکہ سمیت کسی بھی ملک کی ایسی جرات ہوسکتی تھی؟یہ جہاں پاکستان کے عوام کی توہین ہے وہیں یہ ہماری عدلیہ کی توہین اور اس پر امریکہ کا عدم اعتماد ہے۔

جب ہم جامع قادسیہ پہنچے تو وہاں اتنا رش تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے ہم رمضان المبارک کا آخری جمعہ پڑھنے آئے ہیں (یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ صرف رمضان کے مہینے میں مسجدوں میں زیادہ لوگ پہنچتے ہیں باقی گیارہ ماہ صرف کام کاج ہی ہوتا ہے) یوں لگتا تھا جیسے پورا لاہور چوبرجی پہنچ گیا ہے، وہاں سب مدرسوں کے طالب علم نہیں تھے، نہ ہی ان سب کا حافظ سعید کے مکتبہ فکر سے کوئی تعلق تھا، نہ ہی سارے پکے نمازی تھے یا جہاد کے لئے جانا چاہتے تھے، صرف یہ بات تھی کہ امریکہ نے ایک پاکستانی عالم دین کے خلاف ایسی حرکت کی ہے جس کی کسی قانون، کسی اخلاقیات ، کسی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں۔ وہاں جمعہ میں ایسا لگ رہا تھا کہ وہاں کوئی اہلحدیث، کوئی بریلوی، کوئی دیوبندی یا شیعہ نہیں بلکہ سب کے سب صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ حافظ صاحب کا خطبہ بھی جہاد کے موضوع پر تھا جس میں انہوں نے کھل کر کہا کہ جہاد اسلام کا ایک رکن ہے اور وہ جہاد کریں گے جس کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، جس کی تعلیم ہمیں نبی آخرالزمان ﷺ نے دی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر ڈرون حملوں کی مذمت کی اور خود کش دھماکوں کی بھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر لگی ہیں اسی لئے امریکہ اور ہندوستان وہاں علیحدگی کی تحریکوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کو نکلنا ہوگا اور یہ کہ امریکہ اگر اس خطے سے نکل جائے تو یہاں امن ہی امن ہوگا۔ وہاں آئے تو لوگ جمعہ کی ادائیگی کے لئے تھے لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ کم از کم جو لوگ مسجد میں موجود تھے ان کے دلوں میں کہیں نہ کہیں ایمان کی چنگاریاں موجود تھیں، وہ اسلام کی سربلندی کے لئے کمر باندھنا چاہتے ہیں، یوں لگ رہا تھا جیسے سروں کی فصلیں پک چکی ہیں، کھیتیاں تیار ہوچکی ہیں، جیسے کچھ ہونے والا ہے، عنقریب....! ایک طرف ہمارے صدر صاحب ہیں، شریف برادران ہیں اور دیگر سیاسی اکابرین ہیں جو امریکہ کی گارنٹیوں پر چل رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دنیاوی لحاظ سے کم مائیگی رکھتے ہیں، جو سارا دن محنت کرتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں تو ان کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں لیکن وہ ایک جذبے کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری میں ہیں۔ مجھے یوں لگا کہ لوگوں کا پیمانہ صبر تقریباً لبریز ہوچکا ہے، ایک آدھ مزید جھٹکے کی ضرورت ہے، لوگ امریکی غلامی سے نکلنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار نظر آئے، نہ صرف خود امریکی غلامی سے نکلنے کے لئے بلکہ اپنے حکمرانوں کو نکالنے کے لئے بھی....! کیا اگر کوئی شخص یا جماعت اپنی جان اللہ کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست دے سکتی ہے....؟ میرا ایمان ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ مرنا تو سب نے ہی ہے لیکن کیا شہادت کی موت کا کوئی نعم البدل ہوسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207407 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.