ہم بھی مستحق ہیں۔۔۔

جناب صدر آصف علی زرداری صاحب نے اپنے دورہ بھارت کے دوران حاتم طائی کی قبر کو ٹُھڈا مار کر اُن کو گہری نیند سے جگا دیا ہے اور حاتم طائی صاحب اُس وقت سے لے کر اب تک کروٹیں بدل بدل کر سونے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹر الگ پریشان ہیں اور فرشتے الگ۔ آخری بریکنگ نیوز یہ آئی ہے کہ نیند کی گولیاں بھی ناکام ہو گئی ہیں۔ وہ نیند کی گولیاں اصلی تھیں یا جعلی اس کا فیصلہ بھی چند دنوں میں منظر عام پر آ جائے گا کیونکہ اُن دواﺅں کے سیمپل لبارٹری ٹیسٹ کے لیئے برطانیہ بھجوا دیئے گئے ہیں۔

دس لاکھ ڈالر کی رقم کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی جو اُنہوں نے اجمیر شریف میں نذرانے کے طور پر پیش کی ہے یا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر پاکستانی کرنسی کا حساب لگائیں تو تقریباًنو کروڑ روپیہ بنتا ہے اور اگر یہ پیسے ایک ایک لاکھ فی گھر کے حساب سے بانٹے جائیں تو نو سو گھروں کی لاٹری نکل سکتی ہے۔ لیکن ایسی قسمت ہم غریبوں کی کہاں۔۔۔ہمیں تو روٹی کپڑا اور مکان کے لارے ہی ملتے آئے ہیں ابھی تک۔ یااگر ملا ہے تو اُن وعدوں کا انتظار جن کو یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا کہ یہ کون سے قرآن و حدیث ہیں۔ زرداری صاحب نے یہ رقم اپنی جیب سے دی ہے یا ہماری جیب سے کاٹی ہے یہ ایک الگ بات ہے اور اگر ہماری جیب بھی کاٹ لی گئی ہو گی تو بھی ہم کیا کر سکتے ہیں سوائے حسبِ معمول لا حاصل رونے اور دھونے کے۔

زرداری صاحب دولت کے حساب سے پاکستان کے دوسرے بڑے امیر آدمی ہیں (ماشااللہ) اور جلد ہی پہلے نمبر پر آنے والے ہیں (انشااللہ)۔اس لیئے وہ دس لاکھ تو کیا دس کروڑ ڈالر بھی نذرانہ دے سکتے ہیں۔اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ یہ نذرانہ صرف اور صرف اجمیر شریف میں جا کر دیں وہ یہ نذرانہ اس ملک کے تمام بے روزگار نوجوانوں کو بھی دے سکتے ہیں۔ہسپتال بھی بنوا سکتے ہیں جہاں غریب اور نادار مریضوں کو مفت علاج کی سہولت میسر ہو گی۔وہ بے گھرعوام کو مفت گھر بھی بنا کر دے سکتے ہیں۔وہ اس ملک کا قرضہ بھی چکا سکتے ہیں۔وہ اس ملک کے لیئے سستی بجلی کا بھی بندو بست کر سکتے ہیں۔ روزگار کے مواقع بھی پیدا کیئے جا سکتے ہیں۔ وہ اگر کرنا چاہیں تو اس ملک کی انڈسٹری کو بھی زندہ کر سکتے ہیں۔ جناب اگر چاہیں تو اس ملک کو اور بھی بہت سارے بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔۔۔ اکیلے زرداری صاحب نہ سہی چند اور زرداری مل کر یہ سب کام کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے وہ اس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیئے ایک پائی بھی نذرانہ نہیں دیں گے کیونکہ یہ بحران ہی تو اس ملک کی زینت ہیں انہی بحرانوں کے بل بوتے پر ہی تو سیاست ہوتی ہے ۔ اگر یہ بحران نہ ہوں گے تو لوگ خوش حال ہو جائیں گے اور اگر لوگ خوش حال ہوں گے تو حکمران بے حال ہو جائیں گے ۔حکمران اس لیئے بے حال ہوجائیں گے کیونکہ خوشحالی کے ہونے سے لوگوں کی سوچ کام کرنے لگ جاتی ہے اور لوگوں کی سوچ نے کام کرنا شروع کر دیا تو ان حکمرانوں کا کام بند ہو جائے گا۔ لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہو جائے گا۔ ہر نتھو خیرا حکومتی کام میں مداخلت کرنا شروع کر دے گا جس سے اک عجیب و غریب سی بد نظمی پیدا ہو جائے گی۔ چھوٹے اور بڑے کا فرق ختم ہو جائے گا۔غریب آدمی امیر آدمی کا محتاج نہیں رہے گا۔ اور نہ ہی امیر آدمی کا غریب آدمی پر کوئی رعب اور دبدبہ رہے گا۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں گے ریاض اور فیاض ۔۔۔نہ کوئی بندہ رہے گا نہ کوئی بندہ نواز۔

اگر اس ملک سے غریب ختم ہو گئے تو امیروں کی غلامی کون کرے گا ۔غریبوں کے بچے بھی اچھی تعلیم حاصل کر لیں گے اور اگر غریبوں کے بچے بھی امیروں کے بچوں کی طرح انگلش میڈیم اور اچھے سکولوں میں پڑھنے لگ گئے تو پھر سب کے لیئے تعلیم کا معیار ایک جیسا ہو جائے گاجس کا امیر طبقے کو بے حد نقصان ہو گا۔ نقصان یہ ہو گا کہ مقابلے کے امتحان میں ہمیشہ محنتی بچے ہی کامےاب ہوتے ہیں اور ان محنتی بچوں میں اکثریت غریب بچوں کی ہی ہوتی ہے۔اس لیئے ضروری ہے کہ اس ملک میں تعلیم کا معیار ہر طبقے کے لیئے الگ الگ ہو تاکہ کوئی بھی غریب کا بال امیر کے لال کے مدِ مقابل نہ آ سکے۔۔۔

ان سب طبقاتی اونچ نیچ کا اگر خاتمہ کر دیا جائے تو یہ ملک بھی کسی ترقی یافتہ ملک سے کم نہ ہو۔ان طبقاتی اونچ نیچ کو ختم کرنے کا سب سے پہلا مرحلہ یکساں نظام تعلیم ہے۔ہماری ان تمام زرداریوں سے گذارش ہے جن کے ہاتھوں میں اس پیارے ملک کا اس عوام کا حال اور مستقبل ہے کہ کچھ نہ سہی تو کم از کم ہمیں ایک یکساں نظام تعلیم ہی دے دیا جائے کیوں کہ اس بے مثال نذرانے کے ہم بھی مستحق ہیں۔۔۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100492 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.