قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل عشر

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ”اورکھیتی کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔“(سورة الانعام پارہ6آیت نمبر141)

زمیندار، کا شتکار حضرات فصل گندم کی کٹائی کے بعد غلہ ٹھکانے لگا کر فارغ ہو رہے ہیں ۔اس سال فصل گندم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پہلے کی بنسبت بہت بہتر ہوئی ہے ۔فصل کم ہو یا زیادہ ،کاروبار میں نفع ہو یا نقصان ،مومن ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کے حکم کا پابند اور فرمانِ مصطفےٰ ﷺ کا تابع ہوتا ہے اور وہ شرعی احکامات پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے ۔بلکہ دین و دنیا میں فوز و فلاح کا مستحق قرار پاتا ہے اور جو لوگ حکم خدا وندی اور فرمانِ مصطفوی ﷺ سے منہ موڑ کر شرعی احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔وہ دولت دنیا تو شاید وہ جمع کر لیتے ہوں گے لیکن اطمینان قلبی کی دولت سے وہ یکسر محروم کر دئے جاتے ہیں ۔ایسے لوگ خَسِرَ الدُّنیَا وَ الاٰخِرَةِ۔کے مصداق بن جاتے ہیں ۔مادیت کے اس گئے گزرے دور میں جہاں ایثار و ہمدردی کی جگہ مفاد پرستی اور خود غرضی نے لے لی۔ جذبہ انفاق فی سبیل اللہ کی جگہ طمع ،لالچ ،بخل و کنجوسی نے لے لی ۔کچھ مومنانہ صفت لوگ آج بھی موجود ہیں ۔جن کے سینوں میں جذبہ طاعت و تقویٰ پوری آب و تاب کیساتھ موجزن ہے ۔ان کا ہر ہر عمل اخلاص و للہیت کے رنگ میں رنگا ہوا ہوتا ہے ۔ان کی ہر سعی کا مقصود حصولِ رضائے الہٰی ہوتا ہے ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا کوئی فعل منشاءالہٰی کے خلاف نہ ہو ، انہی حضرات میں سے بعض عشر کے بارے میں مختلف سوالات کر رہے ہیں ۔مثلاً عشر کیا ہے ؟ اس کا نصاب کیا ہے ؟کس کس چیز میں عشر لازم ہو گا؟

بعض لوگ زمین حصہ پر دیتے ہیں عشر کس پہ ہو گا ،مالک زمین پر یا کاشتکار پر ؟ وغیرہ وغیرہ ۔فیصلہ کیا اس دفعہ درس قرآن اسی موضوع پر لکھوں اور اس انداز میں لکھوں کہ ان مختلف سوالات کا جواب بھی ہو جائے ۔

عشر زکوة کی طرح واجب ہے:مذکورہ بالا آیت کے تحت جمہور مفسرین کرام نے لکھا کہ اس آیت میں جس حق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد عشر یا نصف عشر ہے ۔چونکہ عشر کا وجوب زکوٰة کی طرح ہے اس لئے اسکا دوسرا نام ”زَکوٰةُ الزَّرُوعِ وَالشِّمَارِ“یعنی کھیتوں اور پھلوں کی زکوٰہ ہے ۔زکوٰة کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰة کے ہیں ۔یہاں تک کہ جیسے زکوٰة کی ادائیگی میں تملیک شرط ہے ۔ایسے عشر کی ادائیگی میں بھی تملیک یعنی (مالک بنانا) شرط ہے ۔حتیٰ کہ زکوٰة کی طرح عشر کو بھی رفاہِ عامہ کے کاموں میں لگانا یا تعمیر مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں۔

امام ابو بکر احمد بن علی الرازی الحنفی المتوفی 370ھ رقم طراز ہیں”حضرت ابن عباس ،جابر بن زید ،محمد بن حنفیہ،حسن بصری، سعید بن مسیب ،طاﺅس ،زید بن اسلم ،قتادہ اور ضحاک کا قول یہ ہے کہ اس حق سے مراد عشر یا نصف عشر ہے ۔یعنی زمین کی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ جن کی ادائیگی واجب ہے ۔“(احکام القرآن۔سورة الانعام تحت آیت 141)

دلیل وجوب:عشرکا وجوب متعدد آیات قرآنیہ اور فرمان مصطفوی ﷺ سے ہے ۔چنانچہ امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد المعروف امام عینی رحمة اللہ علیہ المتوفی 755ھ لکھتے ہیں :عشر کے واجب ہونے کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پاک ہے ”اور تم خرچ کرو اپنی پاکیزہ کمائی سے اور ان چیزوں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کیں۔“ مفسرین کرام نے فرمایا ! پاکیزہ کمائی سے خرچ کرنے سے مراد عشر کی ادائیگی ہے ۔نیز عشر کے واجب ہونے کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پاک بھی ہے :”تم کھیتی کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔“(البنایہ فی شرح ہدایہ )

احادیث مبارکہ:1:۔ ”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اس زمین کی پیداوار میں عشر ہے ۔جسے بارش سے یا چشموں سے یا بارش کے جمع شدہ پانی سے سیراب کیا گیا ہو اور جنہیں کنویں وغیرہ سے پانی کھینچ کر سیراب کیا گیا ہو اس میں نصف عشر ۔“(بخاری ، النسائی)

2:۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ! جس زمینی پیداوار کو نہروں اور بارش کا پانی سیراب کرے اس میں عشر ہے اور جس فصل کو راہٹ و کنویں سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے ۔“(مسلم باب مافیہ الزکوٰة من الاحوال)

خیال رہے اگر نہروں کے پانی کا آبیانہ ادا کیا جاتا ہو یا مشقت سے حاصل کیا جاتا ہو تو نصف عشر ہو گا ،اور اگر بغیر کسی خرچ اور مشقت سے حاصل کر کے کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہو تو پیداوار کا عشر یعنی دسواں حصہ ادا کیا جائے گا۔

وجوب عشر کا نصاب:چونکہ آیات قرآنیہ وجوب عشر کے بارے میں مطلق ہیں بغیر کسی تفصیل کے بر سبیل عموم فرمایا گیا۔”یعنی زمین سے ہم نے جو کچھ بھی پیدا کیا اس سے خرچ کرو۔“

اسی طرح:”اور فصل کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔“

اللہ تعالیٰ نے حکم انفاق کو کسی مقدار اور نصاب کیساتھ مقید نہیں فرمایا یعنی جتنی بھی فصل زمین سے حاصل ہو وہ کم ہو یا زیادہ اس سے عشر ادا کرو۔ اسی طرح احادیث مبارکہ بھی اس ضمن میں مطلق ہیں ان میں بھی کسی مقدار یا نصاب کا تعین نہیں کیا گیا بلکہ مطلق فرما دیا گیا ہے ۔

فقہاءاحناف کے نزدیک زمین سے حاصل ہونیوالی پیداوار کم ہو یا زیادہ بہر حال عشر واجب ہو گا۔

خلاصہ کلام:یہ کہ زمین سے جو بھی پیدا وار غلہ اناج پھل سبزیاں اور چارہ وغیرہ حاصل ہو اس میں عشر یا نصف عشر واجب ہے قطع نظر اس کے کہ وہ حاصل شدہ پیداوار کم ہے ۔یا زیادہ ۔حتیٰ کہ امام نخعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ساگ کے دس مٹھوں میں سے ایک مٹھا بطور عشر لازم ہے ۔

ضروری مسائل :1:۔ ہر ایسی پیداوار جیسے گندم ،جو ،باجرہ ،مکئی ،دالیں ،چاول بلکہ ہر قسم کا اناج اور پھل ،سبزیاں چارواور ایسے پھول جن سے نفع حاصل کیا جاتا ہو جیسے گل گلاب وغیرہ ان میں عشر یانصف عشر واجب ہے ۔

2:۔ کل پیداوار کا عشر لازم ہے یہ جائز نہیں کہ فصل کی بیجائی کٹائی اور دیگر اخراجات نکال کر باقی ماندہ پیداوار سے عشر ادا کیا جائے ۔

3:۔ اگر زمیندار نے مزارع کو حصے پر زمین دی دونوں پر اپنے اپنے حصے کا عشر لازم ہو گا ۔بلکہ بہتر ہے غلہ فصل کی تقسیم عشر کی ادائیگی کے بعد کی جائے ۔

4:۔ وجوب عشر کےلئے نہ تو نصاب کا مالک ہونا شرط ہے اور نہ زمین کا مالک ہونا ضروری ہے ۔البتہ پیدا وار کا مالک ہونا ضروری ہے ۔

5:۔ اسکے وجوب کے لئے سال گزرنا بھی شرط نہیں ۔پیداوار کا حاصل ہونا شرط ہے ۔لہٰذا اگر سال میں کئی بار فصل اُگتی ہو ہر بار عشر لازم ہے ۔

6:۔ اگر زمیندار نے زمین ٹھیکہ پر دے دی تو صاحبین کے قول کے مطابق عشر مزارع کے ذمہ ہو گا۔ جبکہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک عشر کی ادائیگی زمیندار کے ذمہ ہو گی ۔اکثر فقہاءکرام صاحبین کے قول پر ہی فتویٰ دیتے ہیں۔

7:۔ جانوروں کے لئے زمین میں جو چارہ کاشت کیا جاتا ہے ایک موسم میں اسے کئی بار کاٹا جاتا ہے ۔اس چارہ میں بھی عشر یانصف عشر واجب اور ہر بار واجب ہے ۔

8:۔ یہ ضروری نہیں کہ عشر کی ادائیگی میں فصلی پیداوار ہی دے ۔بلکہ حساب کر کے اس کی موجودہ قیمت بھی دے سکتا ہے ۔

9:۔ اس کے مستحقین وہی ہیں جو زکوٰة کے ہیں ۔یہ ضروری ہے کہ ان مستحقین کا تعلق مسلک حق اہلسنت و جماعت کیساتھ ہو۔ بصورت دیگر عشر و زکوٰة ادا نہ ہوں گے ۔

10:۔ بنو ہاشم کو کہ جن میں سادات حضرات بھی شامل ہیں عشر دینا جائز نہیں۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 620332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.