اصول دین:توحید،رسالت،آخرت(قسط1)

تحریر: حافظ محمود حسن

دین اسلام اور تمام وہ اَدیان جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے اور جو اپنے اپنے وقت میں برحق اورقابل عمل تھے ان سب میں تین اصولی عقیدے برابر چلتے رہے ہیں اور ان تین اصولوں میں تمام آسمانی دین مشترک ہیں پھر چونکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری اور کامل و مکمل دین ہے اس لئے اِس میں ان تینوں اصولوں کے تمام پہلوئوں کو مکمل طور پر پوری تفصیل و تشریح سے بیان کر دیا گیا ہے اور ان میں خلل ڈالنے والے تمام شبہات کا قلع قمع کر دیا گیا ہے، یہ تین اصول درج ذیل ہیں:
۱۔ عقیدہ توحید
۲۔عقیدہ رسالت
۳۔عقیدہ آخرت

عقیدہ توحید
عقائد و ادیان کی بنیاد اور سب سے اہم دعوت عقیدئہ توحید ہے ، تمام انبیائ کرام کی دعوت اور جدوجہد کا سب سے بڑا مقصد، ملت ابراہیمی کا شعار اور خاتم الرسول کی دعوت کی بنیاد،دن رات کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ یہی عقیدہ توحید تھا، لوگوں کو عقیدئہ توحید پر لانا، اس کی حقیقت دلوں میں بٹھانا ،اس میں پیدا شدہ تمام خرابیوں کو دور کرنا، اس راہ میں مشقتوں اور تکالیف کا برداشت کرنا سب اسی عقیدہ توحید کی درستگی کے لئے تھا۔

حضرت مولانا منظوراحمدنعمانی(رح) لکھتے ہیں:
اللہ کی توحید کا مسئلہ ایسا ہے جس میں بہت سی قومیں گمراہ ہوئی ہیں، اسی لئے تمام انبیائ علیہم السلام کی دعوت اور تعلیم کا یہ خاص موضوع رہا ہے، اور قرآن مجید میں اور رسول اللہ کے ارشادات میں تو اس مسئلہ کی ایسی تکمیل اور تفصیل بیان کی گئی ہے کہ کوئی گوشہ نہیں چھوڑا گیا ہے، قرآن پاک میں اور رسول اللہ کی احادیث میں اس بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے پہلے ایک بات یہ سمجھ لینی چاہئے کہ شرک میں وہی شخص گرفتار ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا صحیح علم نہیں ہوتا اور جس کو صفاتِ الہیٰ کا صحیح علم ہو جائے، اس سے کبھی شرک نہیں ہو سکتا۔

مثلاً جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ،اللہ ہی پالنے والا ہے، اللہ ہی رزق دیتا ہے، اللہ ہی اولاد دیتا ہے، اللہ ہی مارتا اور جلاتا ہے، اللہ ہی تندرست اور بیمار کرتا ہے،اللہ ہی امیر یا غریب بناتا ہے، غرض اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے کرنے سے ہوتا ہے، سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا بھی محتاج نہیں ہے ،تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر یقین رکھتا ہو، ظاہر ہے وہ نہ اللہ کے سوا کسی سے اپنی حاجتیں مانگے گا، نہ کسی کی عبادت کرے گا، نہ کسی کو راضی اور خوش کرنے کے لئے نذریں اور منتیں مانے گا۔

بیان توحیدکا ایک طریقہ
اس لئے قرآن شریف میں اور اسی طرح رسول اللہ کی حدیثوں میں بھی توحید کو سمجھانے اور دل میں بٹھانے کے لئے ایک تویہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے تاکہ بندے یہ جان لیں، کہ جب اللہ کی ایسی شان ہے اور اس میں یہ سب کمال کی صفتیں موجود ہیں، تو بس وہی بندگی اور عبادت کے لائق ہے، قرآن شریف کے اس طریقہ تعلیم اور طریقہ بیان کو سب سے پہلے آپ سورئہ فاتحہ دیکھئے!.پہلے بندوں سے کہلوایا گیا:۔
’’الحمدللہ رب العلمین،الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین‘‘۔
ہر قسم کی حمدثنائ اسی اللہ کے لئے ہے جو ساری کائنات کا رب اور پروردگار ہے، بڑی رحمت والا اور مہربان ہے، انصاف کے دن کا مالک ہے، یعنی ایک آنے والے دن میں اصلی جزا اور سزا وہی دینے والا ہے،
اللہ تعالیٰ کی یہ صفات بیان کر اکے آگے کہلایا گیا، کہ:۔
’’ایاک نعبدوایاک نستعین‘‘

یعنی جب اللہ تعالیٰ ہی رب اور پالنے والا ہے اور ہماری زندگی کی ساری ضرورتیں وہی مہیا کرتا ہے اور وہ بڑی رحمت والا اور نہایت مہربان بھی ہے، اور ان صفات جمال کے ساتھ وہی آخرت والی زندگی میںجزااور سزا دینے والا صاحبِ جلال و جبروت حاکم بھی ہے، تو بس پھر اسی کی عبادت ہم کریں گے اور اپنی ضرورتوں میں صرف اسی سے مدد مانگیں گے۔

بیان توحید کا دوسرا طریقہ
اور کہیں بیان توحید کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ پہلے توحیدکا ذکر کیا گیا اور یہ بیان فرمایا گیا کہ اللہ ہی عبادت اور بندگی کے لائق ہے اور بس وہی الہٰ اور معبود ہے اور اس کے بعد دلیل اور سند کے لئے اللہ کی شان اور صفات بیان کی گئی، مثلاً آیت الکرسی میں پہلے فرمایا گیا:۔’’اللّٰہ لا الہ الا ھو‘‘ ﴿اللہ کے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں﴾ اور آگے اس کی صفات اور اس کی شان کو اس طرح بیان فرمایا گیا:۔
’’الحی القیوم‘‘۔ یعنی وہی زندہ جاوید ہے اور اس کی زندگی اپنی ذاتی زندگی ہے اور اس کے سوا جن کو زندگی ملی ہے وہ اسی کی دی ہوئی ہے اور عارضی ہے، اور وہی زندئہ جاوید ہستی اس ساری کائنات کو تھامے ہوئے اور سنبھالے ہوئے ہے، ﴿الحی القیوم کا یہی مطلب ہے﴾

آگے فرمایا’’لاتاخذہ سنۃولانوم‘‘ نہ اسے اونگھ لگتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، یعنی وہ ہمہ وقت بیدار اور باخبر ہے، کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ اس کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لئے متوجہ ہو اور وہ اس وقت اپنے آرام میں اور اونگھ یا نیند کی حالت میں ہو، اونگھ یانیندجیسی چیزوں کا اس کے پاس گزرہی نہیں.

لہ مافی السموات وما فی الارض‘‘۔ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، وہی سب کا مالک و مختار ہے لہذا جس کو جو کچھ مانگنا ہو اس کے در پر ہاتھ پھیلائے.

آگے فرمایا گیا ہے:۔’’من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ‘‘ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش بھی کر سکے، یعنی کسی کی بھی یہ مجال نہیں.

’’یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یحیطون بشییِٔ من علمہ الا بما شائَ‘‘ جو کچھ بندوں کے سامنے اور حاضر ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور ان سے غائب اور اوجھل ہے وہ اس سے بھی واقف ہے اور مخلوقات اور بندوں کے علم کا حال یہ ہے اللہ کے بے نہایت علم میں سے وہ کسی ایک چیز کو بھی پوری طرح نہیں جان سکتے، الایہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دیناچاہئے، تو وہ بس اسی کو اور اس کے بتانے کے بقدر ہی جان سکتے ہیں.

آگے فرمایا گیا ہے’’ وسع کرسیہ السموات والارض ولایودہ حفظہما وھوالعلی العظیم‘‘ اس کا تخت حکومت زمین آسمان کی وسعتوں پر چھایا ہوا ہے اور ان کے تھامنے سے وہ تھکتا نہیں اور وہ اونچی شان والا،بڑی عظمت والا ہے۔

جیسا کہ آپ نے دیکھا اس آیت الکرسی میں پہلے توحید کا ذکر کیا گیا:۔﴿اللّٰہ لا الہ لاھو﴾ اور اس کے بعد اللہ کی وہ شان اور وہ صفتیں بیان کی گئیں جن کے جاننے کے بعد آدمی خود بخود اس نیتجہ پر پہنچتا ہے کہ صرف یہی ہستی الہٰ و معبود ہے اور عبادت اور بندگی اسی کا حق ہے۔

اسی طرح سورہ اخلاص میں پہلے اللہ تعالیٰ کی وحد ا نیت بیان فرمائی گئی:۔
’’قل ھو اللّٰہ احد‘‘ یعنی کہو اور اقرار کرو، کہ وہ اللہ ایک ہے، یکتا ہے اور اس کے بعد اس کی وہ صفات بیان کی گئیں جن کو جاننے کے بعد آدمی اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے، فرمایا گیا:۔ اللّٰہ الصمد یعنی اللہ بے نیاز ہے ، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اور اسکے علاوہ سارے موجودات اس کے محتاج ہیں۔’’لم یلدولم یولد‘‘ نہ کوئی اس کی اولاد، نہ وہ کسی کی اولاد:’’ولم یکن لہ کفوااحد‘‘ اور کوئی اس کے برابراور ہمسر نہیں۔

ان چھوٹے چھوٹے جملوں میں اللہ کی جو شان اور صفت بیان کی گئی ہے اسکو جاننے کے بعد آدمی خودبخود یہ سمجھ سکتا ہے کہ الہٰ اور معبود بننے کے لائق صرف یہی ذات ہے جسکی شان یہ ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اسکے محتاج ہیں، اور نہ کوئی اس کی جنس ہے اور نہ کوئی اس کے مانند اور ہمسر ہے۔

یہ ہم نے قرآن مجید کے بیانِ توحید کے متعلق ایک اصولی بات کہی ہے، اس سے توحید اور قرآن مجید کے توحیدی مضامین کو سمجھنے کیلئے ایک راستہ کھل جاتا ہے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 347246 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.