ماں اور عدلیہ

میری عمر اس وقت شائد بارہ یا تیرہ برس تھی جب میں گردن توڑ بخار کا شکار ہوگیا، ڈاکٹروں نے میرے والد مرحوم کو کہا کہ ہم دوا دے رہے ہیں لیکن آپ دعا پر زیادہ زور دیں۔ میں کم و بیش بیس روز ہسپتال میں داخل رہا، پہلے کچھ دن تقریباً نیم بیہوشی چھائی رہی اور جب بھی تھوڑا سا ہوش آتا تھا میری پکار ہوتی تھی امی.... امی....! حالانکہ میرے والد محترم نے اس دوران ایک ایک لمحہ میرے پاس گزارا، یہاں تک کہ اللہ سے یہ منت بھی مانی کہ میرے بیٹے کو صحت دیدے تو میں اسے تیرے گھر یعنی خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے لے کر حاضر ہوں گا اور انہوں نے میری صحتیابی کے بعد اس منت کوپورا بھی کیا۔ ماں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خاص محبت رکھی ہے جو کسی بھی اور محبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو بچے کو اس کائنات میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے، ماں ہی کے قدموں تلے جنت رکھی گئی۔ اللہ کے آخری پیغمبر، ہمارے آقا و مرشد حضرت محمد ﷺ کا فرمان ایک ماں کو فرش سے عرش تک پہنچانے کے لئے کافی ہے جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا (مفہوم) کہ اگر میری والدہ زندہ ہوتیں، میں رات کو نماز پڑھ رہا ہوتا اور میری والدہ مجھے آواز دیتیں تو میں نماز توڑ کر انکے پاس پہنچ جاتا....! یہ اس نبی برحق کا ارشاد ہے جو اللہ کے بعد سب سے زیادہ لائق تعظیم ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی اتاری اور فرمایا کہ میرا نبی وحی کے بغیر کوئی بات نہیں کرتا۔ ایک بچہ جب ابھی بول نہیں سکتا، اپنی تکلیف یا خواہش بتا نہیں سکتاتب بھی ماں ہی ایسی واحد ہستی ہوتی ہے جو اس کی بات کو سمجھتی بھی ہے اور تکلیف کو رفع کرنے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ ایک عورت چاہے دس بچوں کی ماں ہو، سب کے ساتھ یکساں محبت رکھتی ہے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سب کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ عمر میں بڑے بچے، بیٹے ہوں یا بیٹیاں، اپنی ماﺅں سے ایک شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں کو ان پر ترجیح دیتی ہیں اور ان کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ عمومی طور پر ایسا ہوتا نظر بھی آتا ہے لیکن شائد بڑے بچے یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑے بچے بھی جب اس (چھوٹے بچوں کی)عمر کے ہوتے تھے تو ماں ان کا بھی اتنا ہی خیال رکھا کرتی تھی اور ایسے ہی محبت کیا کرتی تھی....!پوری دنیا میں گذشتہ کچھ عرصے سے آج کے دن کو”ماﺅں کے عالمی دن“ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر دن ماں کا دن ہے، ہر لمحہ ماں کا لمحہ ہے۔ یہ دن وہاں منانا شروع ہوا تھا جہاں بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچنے والے ماں اور باپ کو اولڈ ہاﺅس میں ”جمع“ کرا دیا جاتا ہے، اللہ نہ کرے کہ ہمارے ہاں بھی ایسی روایات جڑ پکڑ جائیں۔ جو کسی حد تک شروع ہوچکی ہیں ان کی مذمت کرنی چاہئے اور ایسے سلسلے کو روکا جانا چاہئے۔

کسی بھی ملک کی عدلیہ بھی اس ملک اور وہاں کے باسیوں کے لئے ایک ماں کا ہی درجہ رکھتی ہے۔ عدلیہ کے سامنے قوم کا ہر شخص برابر حیثیت رکھتا ہے، قانون کی دیوی کی آنکھوں کی جگہ پر کالی پٹی اسی لئے باندھی جاتی ہے کہ کوئی عدالت کسی کا مرتبہ اور اس کی حیثیت دیکھ کر فیصلہ نہ کرے بلکہ جو بھی قانون کی زد میں آئے اس کے ساتھ قانون کے مطابق عدل و انصاف ہو۔ لیکن نہائت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا،عام آدمی اور با حیثیت لوگوں کے لئے قانون کا دہرا معیار قائم ہوچکا ہے۔ ایک بچے کو محض اس لئے مہینہ مہینہ حوالات اور جیل میں گذارنا پڑتا ہے کہ اس نے پتنگ بازی کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پتنگ پکڑنے کی کوشش کی، ایک عام آدمی کو چھوٹی سے چھوٹی چوری کے جرم میں مہینوں جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی ایک عدالت میں ایسا کیس دیکھنے میں آیا جس میں صرف ساڑھے چھ سو روپے کی چوری کے الزام میں ایک نوجوان کی ایک مہینے کے بعد درخواست ضمانت منظور کی گئی، اس کی کہانی آئندہ کسی کالم میں عرض کروں گا، جبکہ دوسری طرف جب باحیثیت لوگ اپنی حیثیت کے مطابق بڑے سے بڑا جرم کرتے ہیں تو انہیں محض چند سیکنڈ کی سزا سنا دی جاتی ہے اور اس میں بھی کافی مغالطہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیا زرداری ٹولے کا کوئی ایک بھی شخص آج تک سرے محل کی کوئی وضاحت پیش کر سکا ہے جس کی بابت پہلے کہا جاتا تھا کہ اس کے ساتھ آصف زرداری یا ان کی فیملی کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، کیا پیپلز پارٹی کا کوئی لیڈر یا کارکن سوئس بنکوں میں لوٹ مار کی دولت کی کوئی توجیح پیش کرسکا ہے، بات ہورہی ہے تو صرف اور صرف آئین کے آرٹیکل 248 کی، کہ جس کے مطابق صدر مملکت کو استثنیٰ حاصل ہے، یعنی جیسے بھی جرائم ہوں آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے پیچھے چھپ کر مزید لوٹ ماری جاری رکھی جائے۔ جن لوگوں کو سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں گناہگار قرار دیا، ان کو وزارتوں سے نواز دیا گیا اور سپریم کورٹ دیکھتی رہ گئی۔ میرا تو خیال ہے کہ ایسی صورتحال کہ جس میں عدلیہ کا کوئی حکم نہ مانا جاتا ہو، ججوں کو احتجاجاً مستعفی ہوجانا چاہئے یا ان پر عملدرآمد کا کوئی طریقہ وضع کرنا چاہئے۔ انہیں ہرگز یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان کے فیصلے کی صورت میں کوئی ہیرو بنتا ہے یا ولن، سیاسی شہید بنتاہے، غازی قرار پاتا ہے یا پھر جہنم واصل ہوتا ہے، انہیں آئین ، قانون اور سب سے بڑھ کر اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے صادر کرنے چاہئیں اور ہر صورت میں ان پر عمل بھی کرانا چاہئے۔ اگر عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ کے نزدیک پاکستان کے تمام شہری برابری کی حیثیت رکھتے ہیںتو یہ دہرا معیار ختم کرنا ہوگا، سپریم کورٹ کو اس قوم کی ماں کا کردار ادا کرنا ہوگا کہ جس کے نزدیک اس کے سارے بچے برابر ہوتے ہیں۔ بچوں کی برابری میں صرف ایک استثنیٰ ہوتا ہے کہ جو بچہ ماں باپ کا زیادہ خیال رکھتا ہے، ان کے احکامات کی تابعداری کرتا ہے اور ان کی توہین نہیں کرتا، وہ بچہ والدین کو بھی یقینا زیادہ پیارا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ والدین کی طرف سے زیادہ محبت کا اظہار کیا جاتا ہے ، اس قوم نے عدلیہ بحالی تحریک چلا کر اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ یہاں کے عام لوگ، بڑے لوگوں کی نسبت اپنی عدالتوں سے زیادہ محبت رکھتے ہیں اور ان کے احکامات کی زیادہ پاسداری کرتے ہیں، سپریم کورٹ اور عدلیہ کو بھی ان کے ساتھ خصوصی محبت و شفقت کا اظہار کرنا چاہئے۔ جب بچے کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ اپنی ماں کو پکارتا ہے، نہ بھی پکارے تو ماں سب سے پہلے اس کی مدد کو دوڑتی ہے، اسی طرح جب سپریم کورٹ از خود نوٹس لینے کا اختیار استعمال کررہی ہے تو اس کو روز بروز بڑھتی مہنگائی اور ضروریات زندگی کی عدم فراہمی پر اور تیئس تیئس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پر بھی نوٹس لینے چاہئیں اور ان حکمرانوں کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہئے جنہوں نے غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے ، جنہوں نے غیروں کے آلہ کار بن کر سونا اگلتی زمینوں کو بنجر اور صنعتوں کے پہیوں کو بند ہونے دیا۔

کیا ہی اچھا ہوتااگر کم از کم وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کے تفصیلی فیصلے میں ہی ان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے نااہل قرار دے کر صدر کو ریفرنس بھیجا جاتا کہ نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرایا جائے تاکہ عوام کی کسی حد تک تو اشک شوئی ہوتی اور وہ اس بات پر یقین کرنے پر مجبور ہوجاتے کہ کم از کم اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ تو ہمارے حقوق کے تحفظ کے لئے کوشاں ہے۔ کیا اس مرتبہ ماﺅں کے عالمی دن پر سپریم کورٹ پاکستان کے عوام کو یہ باور کراسکتی ہے کہ وہ ایک ماں کی طرح اس قوم کا دھیان رکھ رہی ہے اور ان کے حقوق ان کو دلوا کر ہی دم لے گی، بالکل ایک ماں کی طرح جو اپنے چھوٹے بچوں کو اپنے دامن میں چھپا کر، ساری دنیا سے بچا کر رکھتی ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207464 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.