جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے

سولہ (16) مئی کے روزنامہ نوائے وقت میں ٓزاد کشمیر کے نامور اور سینئر صحافی جناب رشید ملک کا کالم آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کے خدشات © شائع ہوا ۔ جناب ملک نے فرمایا کہ سردار عتیق احمد خان نے جہلم میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاہے کہ موجودہ حکومت بھارت کو خوش کرنے کے لیے جلد ہی آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی سازش کر رہی ہے۔ اس انکشاف کے بعد سینئر کالم کار نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے حوالے سے تھوڑی قلم کشائی بھی کی کہ بھٹو مرحوم کی بھی یہی خواہش تھی مگر جناب مجاہد اول ان کے راستے میں حائل ہوکر ان کی خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔

موصوف سرادار عبدالقیوم خان اور ان کے خاندان سے خصوصی لگاﺅ رکھتے ہیں۔ ملک صاحب سرادر صاحب کی روحانیت کے بھی قائل ہیں اور انھیں ولی و مرشد کا درجہ دیتے ہیں۔ جناب نے سردار عبدالقیوم نے بھٹو کے حکم پر نظر بندی، جیل یاترا اور پھر پی این اے کی بھٹو تحریک جوئی کا ذکر بھی کیاہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ بھٹو نے ایک طرف تو کشمیر کے لیے ہزار سال جنگ کرنے کا عزم و ارادہ ظاہر کیا اور دوسری طرف شملہ مائدہ کی صورت میں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح سے اٹھا کر پنجائیت میں لے آئے۔

حیرت کی بات ہے کہ مجھ جیسے ادنیٰ قلم کار اور صحافت کے جونئر موسٹ طالب علم اس مسئلے پر کئی بار قلم و لب کشائی کر چکے ہیں کہ پاکستان میں این آر او برسر اقتدار حکومت این آر او کی پیداوارہے اور یہ این آر او برطانیہ اور امریکہ کا تیار کردہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسکے ہمارے حطہ زمین پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے پاکستان عوام کو جہاں بھو ک ، بیماری،غربت، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، کرپشن، ہٹ دھرمی اور بے حسی کے دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ وہی بھارت اور افغانستان کے درمیان زمینی راستے سے تجارت ، بھارت کو پاکستانیوں منڈیوں تک رسائی ، موسٹ فیورٹ نیشن کا خطاب دینے کا سہرا بھی اپنے سر سجایا ہے۔

این آر او کے پنوں پر کیا کیا لکھا ہے یہ ایک مخفی تحریر ہے جسے ان دیکھی سیاہی سے ہمارے سیاستددانوں کے قلب پر لکھ دیا گیا ہے۔ اسی فارموے کے تحت آذاد کشمیر میں وٹو فارمولے کے تحت جھرلو انتخابات ہوئے اور فرشتوں کے ووٹوں اور پاوئنڈوں کی قوت سے ایک جمہوری حکومت بنی جس نے پہلا کام ہی اپنی ہی عدالت کے فیصلے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے میں مدد کی اور بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن اور فری ٹریڈ کی بھی بھرپور حمائت کی۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم آزادکشمیر، سینئر وزیر اور سپیکر اسمبلی کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جنہیں آزادکشمیر کے کسی سیاساتدان اور لفافہ مارکہ صحافی نے چیلنج نہیں کیا کہ یہ یکطرفہ تماشہ ہمیں غلامی کی ایک اور زنجیر میں جھکڑنے والا ہے۔

میرے علاوہ برادرم انوار ایوب راجہ نے برطانیہ کے اردو اخباروں اور اردوپوائینٹ پر سلسلہ وار کالم لکھے اور جس خدشات کا اظہار آج عتیق خان اور رشید ملک کر رہے ہیں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ اردو پوائینٹ کے آر کائیو میں راجہ صاحب کا کالم ” میرا خواب “ آج بھی موجود ہے۔ جسے کشمیر ی طالب علم اور سیاسی کارکن پڑھ سکتے ہیں۔ انوار راجہ کی ہی کتاب ”سر زمین بے آئین “ میں کشمیر کے ماضی ، حال اور مستقبل کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے مگر دکھ ےہ ہے کہ آجکل کتاب پڑہنے کا رواج ہی نہیں رہا ۔ صحافی حضرات اطلاعات بھی سیاستدانوں کے منہ سے نکلے پھولوں اور انٹرنیٹ اطلاعات پر انحصار کرتے ہیں، جس سے حقائق پر پردہ پرا رہتا ہے۔ جہاں تک عتیق خان کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ موصوف خود اس سازش کا حصہ ہیں ورنہ جہلم کی بجائے وہ یہی بات اسمبلی کے فلور پر کرتے، خصوصی اجلاس بلاتے اور عوام کو اس سازش کے خلاف متحرک کرتے۔ سردار صاحب کو پریشانی یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جو سیٹ اپ سامنے آنے والا ہے اس میں سردار صاحب نہ گورنرہونگے، نہ وزیر اعلیٰ یا سینئر وزیر ۔ آنے والے سیٹ اپ کی ایڈوانس بکنگ ہو چکی ہے اور پاﺅنڈ مافیا ساری سیٹیں بک کروا چکا ہے۔

اگر سردار صاحب اور ان کے سابقہ ساتھی سکندر حیات اور انکے دیگر رفقاءواقعی کشمیری کاز سے مخلص ہیں تو سب سے پہلے گلگت بلتستان کا مقدمہ کراچی معائدے کی روشنی میں عدالت میں لے جائیں اور اپنے سابقہ بیانات اور مصلحت کوشی پر کشمیری عوام سے معافی مانگیں۔ آج کشمیر کی جو سیاسی حالت ہے اس کے ذمہ دار بھی جولی چیڑھ اور فتح پور کے سردار ہیں۔ اگر سردار عتیق چانکیائی چالیں نہ چلتے تو آج ان کی پارٹی متحد ہوتی اور آزاد کشمیر میں پاﺅنڈ مافیہ پوری قوت سے متحرک نہ ہوتا ۔ جہاں تک یہاں نواز شریف اور عمران خان کا تعلق ہے تو وہ بھی بھارت کی خوشنودی میں پیپلز پارٹی سے پیچھے نہیںبلکہ دو قدم آگے ہیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کو بھارت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ اور دونوں جماعتوں کے بھارت کنکشن کسی سے خفیہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن مفاد کی سیاست کرتے ہیں اور وہ اپنا فیصلہ عین وقت پر کرتے ہیں۔ ان کےلیے کشمیر اور کشمیریوں کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنا ان کا اور ان کی پارٹی کا مفاد ہے۔

دیکھا جائے تو آزادکشمیر میں برادری ازم ، پاﺅنڈمافیا اور سکندر عتیق جنگ نے اچھی اور صاف ستھری کیساتھ کشمیر کاز کو عملاً تباہ کر دیا ہے۔ کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بننا این آر او کے خفیہ اوراق پر لکھ دیا گیا ہے اور ہمارے سیاستدان برطانیہ ، امریکہ ، بھارت اور کچھ عرب بھائیوں کے سامنے حامی بھر چکے ہیں۔ جس میں آزادکشمیر کے سیاسی ڈیلر برابر کے شریک ہیں .
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 91122 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.