سہارا کا گرتا معیار

مکرمی !
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزنامہ ”راشٹریہ سہارا“چند برس ملک کا نمبر 1 روزنامہ رہا ہے ، اس کے ایڈیٹر محترم کہتے تھے کہ سہارا ایک تحریک ہے صرف کوئی اخبار نہیں ، سننے میں اچھا لگتا تھا ، مگر اب سہارا کا معیار بالکل گرگیا ہے ، اب نہ اس میں اچھے کالم ہوتے ہیں ، نہ ہی پروف ریٹنگ پر توجہ دی جاتی ہے ، نہ معیاری کالم نگاروں کو اہمیت دی جارہی ہے ، نہ پہلے کی طرح سیٹنگ ہوتی ہے ، نہ ہی اب دیدہ زیب لگتاہے ۔ہر طرف سے اس کا معیار گرتا جارہا ہے ۔

آئیے ! ذرا اس کے اسباب پر غوروفکر کریں کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ اس کی سب سے پہلی وجہ ہے کہ جو ابھی سہارا اردوکے سربراہ ہیں وہ بدزبان ہیں ، بات کرنے کی کوئی تمیز نہیں، تحقیز آمیز گفتگو کرنے کی عادت سہارا اردو پڑھنے سے روک رہی ہے ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اسدرضا ایک کالم نگارہے ، اس کے علاوہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ، وہ صرف کالم لکھنے کے ہی لائق نہیں، ایک بڑے ادارے کے سربراہ ہونے کے قطعاً لائق نہیں ہے ۔ اسدرضا کی کاہلی کا ہی نتیجہ ہے کہ آئے دن سہارا میں خبریں رپٹ ہوجاتی ہیں ، حتی کہ مخصوص کالم اور ادبی شہ پارے بھی سہارا میں ایک دفعہ نہیں کئی کئی بار لگ جاتاہے ۔ ظاہر بات ہے کہ جب سہار ا جیسے بڑے ادارے میں ایسی کاہلی ہوگی تو زوال کی طرف بڑھے گا ہی ۔ عزیز برنی خواہ کتنا ہی خراب ہو مگر وہ ایڈیٹر کے لائق تھے ، ان کی تحریر چشم کشاں ہوتی تھی ۔ قوم وملک کی بھلائی کے لئے اپنے قلم کو حرکت دیتے تھے ۔

ایک وجہ انقلاب کی بھی آمدہے ، اس کی مقبولیت کو دیکھ کر سہارا گروپ بوکھلا گیا ہے ، انقلاب ہر دلعزیز بنتا جارہا ہے ۔ ہر اردو قاری کی پہلی پسند انقلاب ہی پڑھنا ہوتا جارہاہے ۔ انقلاب کو جہان بہت سی باتیں ممتازکرتی ہیں وہیں یہ بات بھی ہے کہ مراسلات کے کالم نے بھی اسے لوگوں سے جوڑ دیا ہے ۔ کیونکہ سہارا میں ایک تو آئے غیر مسلم کالم نگاروں کو جگہ جگہ دے دے مراسلہ کا کالم ختم کیا جارہا ہے ، یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے اور سہار ا میں غیرمعروف فردکی تحریر چھپ ہی نہیں سکتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مراسلہ سے لے کر کالم تک ایسے ہی افراد لکھتے ہیں جو ممبر آ پارلمنٹ ہو یاکوئی وزیر یا کسی اچھے عہدے پر تعینیات فرد ۔ اس بات نے بھی سہار ا کو محدود کردیا ہے ۔ انقلا ب نے اس تعلق سے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے کہ چھوٹے موٹے لوگوں کو بھی حوصلہ دیتا ہے ۔

آپ کے موقر اخبار کے ذریعہ سہار شری سبرت سے رائے سے یہ کہنا ہے کہ اگر سہار ا کے معیار کو برقرار رکھنا ہوتو موجودہ ایڈیٹوریل ٹیم کو بدل کر پھر عزیز برنی کو لایئے ، ورنہ چند دنون بھی کہیں افسوس سے ہاتھ نہ ملنا پڑے ۔
انیس خان
جامعہ نگر نئی دہلی
Irshad Khan
About the Author: Irshad Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.