جاگ گئے ہو تو ۔۔۔ جاگتے رہنا۔۔۔

حکومتوں کا کام اپنی عوام کو سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے نا کہ عذاب نازل کرنا۔اگر دیکھا جائے توہمارے حکمران اپنے سکون کی خاطر اپنے پیٹ کی خاطر اپنی جائیدادیں بنانے کی خاطر اپنے بنک بیلنس دو گناہ چار گنا ہ دس گناہ کی بجائے بیسیوں گناہ نہیں بلکہ ہزاروں گناہ کرنے کی خاطرعوام کی خواہشات اور ضروریات کو اپنے پاﺅں تلے روندتے رہے ہیں۔حکومتی بے حسی کی اتنی گندی اور ظالمانہ مثالیں گذشتہ حکومتوں سے نہیں ملتیں جتنی کہ موجودہ حکمرانوں نے قا ئم کر رکھی ہیں۔ مہنگائی بے روزگاری دہشتگردی اور انصاف کے حصول کے لیئے ماری ماری پھرتی عوام عرصہ دراز سے لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تنگ آ کر اگر سڑکوں پر نکل آئی ہے تو اُس سے کون سا ایسا جرم سر زد ہو گیا ہے جس کی سزا موت کے مترادف ہے۔اپنا حق مانگنے والوں پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ گولی مار کر موت کی نیند سلا دینے والے اُس معصوم بچے کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُس نے بجلی مانگ لی تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی بے گناہ بجلی کا حق مانگنے پر موت کو گلے لگا چکے ہیں۔اور حکومت ہے کہ عوام کا مطالبہ پورا کرنے کی بجائے اُلٹا عوام کو دھمکا رہی ہے۔بلکہ عملی طور پر بھی اُن مظاہرین پر تشدد کی انتہا کر دی گئی ہے جن کو باقاعدگی کے ساتھ بل ادا کرنے کے باوجود بھی چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔ عوام تو بڑے عرصہ سے غفلت کی نیند سوئی ہوئی تھی۔ اپنے اوپر کئے جانے والے سارے ظلم خاموشی سے سہے جا رہی تھی۔ اور حکومت عوام کی اسی بے حسی کا فائدہ اُٹھا رہی تھی ۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کادورانیہ دن بدن بڑھتا ہی جا ریا تھا۔ انڈسٹری تو پہلے ہی تباہ کی جا چکی ۔ اب تو چھوٹے درجے کے کاروبار بھی بند ہو چکے ہیں ۔ لوگ بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔اور جو زندہ ہیں وہ ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ غصہ چڑچڑا پن اور عدم برداشت جیسی بیماریاں عام ہوتی جا رہیں ہیں۔

ظلم اور نا انصافی کو بھی برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔جب یہ حد پار ہو جائے تو بارود میں چنگاری لگنے سے بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح لوگ گھروں سے باہر آتے ہیں اور اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو روندتے چلے جاتے ہیں۔غصہ ایک ایسا مرض ہے کہ اگر لاحق ہو جائے تو پھر اُس کے سامنے آنے والی دیواریں بھی گرتی چلی جاتی ہیں۔اس وقت عوام بہت غصے کے عالم میں ہے۔غصے سے بپھری ہوئی عوام اب سڑکوں اور بازاروں میں توڑ پھوڑ کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔سرکاری دفاتر بینک اے ٹی ایم مشینیں گاڑیاں جو کچھ بھی اُن کے سامنے آیا اُنہوں نے اپنا بھر پور طریقے سے غصہ اُتارا۔اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی تو اسمبلیوں میں بیٹھنے والے اور عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے والوں کی زندگیوں میں دخل اندازی کرنے لگ گئے۔اُن کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے کے بعد آگ بھی لگا دی گئی۔ کسی خاص آدمی کے گھر کو آگ کیا لگی کہ حکومت کے تن بدن میں ہی آگ لگ گئی۔جس کے بدلے میں تشدد کو مزید شدید کر دیا گیا اور کئی لوگوں کی جانیں بھی لے لی گئیں۔یہ قوم بھی بڑی عجیب قوم ہے اگر سوئی رہے تو صدیوں تک۔۔۔ اور اگر جاگ جائے تو پھر نہ آگ دیکھتی ہے اور نہ بارود۔ ۔۔اس سوئی ہوئی قوم کا جاگ جانا اس حکومت کے لئے بہت زیادہ خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔کیونکہ تحریکیں بھی اسی طرح جنم لیتی ہیں اور انقلاب بھی اسی طرح آتے ہیں۔انقلاب کی راہیں حکومت خود کھول رہی ہے۔ عوام کے غصے کو حکومت خود بڑھا رہی ہے۔جس کا گلا دبایا جائے وہ اگر آنکھیں نہ دکھائے تو اور کیا کرے۔۔حکومت اس وقت عوام کا گلا دبا رہی ہے جس کے رد عمل میں اُس کو آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں۔اور یہ آنکھیں اُس وقت تک دکھائی جاتی رہیں گی جب تک اُن کی گردنوں سے گرفت ڈھیلی نہ ہو جائے۔لیکن حکومت کی بدمعاشی اور ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ عوام کی گردنوں کے گرد گرفت بجائے کم ہونے کے زیادہ ہوتی جائے گی۔اور ایک وقت ایسا آجائے کہ عوام مرنے اور مارنے پر آ جائے گی جسے خونی انقلاب کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔اور اب یہ انقلاب آ ہی جانا چاہیئے۔کیونکہ اس سے مزید ظلم زیادتی اور نا انصافی زندہ اور جاگ جانے والی قومیں برداشت نہیں کرتیں۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100471 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.