ریمنڈ ڈیوس بمقابلہ صدر پاکستان

کیا ہم ریمنڈ ڈیوس کا مقابلہ ایک معمولی اور ایک بھکاری ملک کے صدر سے کر سکتے ہیں؟؟؟کیا ریمنڈ ڈیوس کا مقام اعلیٰ ہے یا کہ ہمارے ملک کے صدر کا؟؟؟جو جو استثنائیں ریمنڈ ڈیوس کو حاصل ہیں کیا وہی استثنائیں ہمارے ملک کے کسی صدر کسی وزیراعظم یا کسی بھی اعلیٰ عہد دار کو حاصل ہو سکتی ہیں؟؟؟ میرے خیال سے نہیں ہر گز نہیں۔۔۔کیوں کہ ریمنڈنہ تو کسی ملک کا صدر ہے نہ ہی وزیر اعظم اور نہ ہی کوئی اعلیٰ عہد دار ۔۔۔ وہ محض ایک جاسوس ہے جو امریکہ کی طرف سے پاکستان پر جاسوسی کے فرائض انجام دینے کے لیئے تعینات کیا گیا تھا جس نے اپنا پیچھا کرنے کے جرم میں دو بے گناہ پاکستانیوں کا سر عام قتل کیا وہ بھی بڑی بہادری سے اور سینہ تان کر۔۔۔اُسے گرفتار کر کے جیل تو بھیج دیا گیا لیکن جب تک وہ وی آئی پی قید میں رہا ہماری حکومت کی ٹانگیں کانپتی رہیں اور اُسے رہا کرنے کے ہزاروں حیلے بہانے بنائے جاتے رہے اور آخر کار اُسے ایک سفارت کار کا سرٹیفیکیٹ پیش کر کے با عزت طور پر بلکہ مودبانہ طور پر اسے ایک سپیشل طیارے کے ذریعے اُس کے وطن واپس بھیج دیا گیا۔۔۔ یہ ایک معمولی سے جاسوس کو حاصل ہونے والی استثنا ہے اور اگر وہ کوئی حقیقت میں سفارت کارہوتا تو اُس کی شان میں گستاخی ہمارے لیئے کس قدر غضب ناک ثابت ہوتی ۔۔۔اس کا اندازہ ہم سلالہ چیک پوست پر اپنے فوجی جوانوں پر ہونے والے حملے سے لگا سکتے ہیںجس کی ابھی تک امریکہ نے ہم سے معافی تو دور کی بات ایک بار بھی افسوس کا اظہار بھی نہیں کیاجس کے بدلے میں ہم نے بڑی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیٹو سپلائی بند کرنے کی گستاخی کی اور جسے تھوڑے ہی عرصے کے بعد ایک معمولی سی زبان کی جنبش پر بڑی خوشی سے کھول دیا گیا اور اُس پر اپنی کامیابی کی بڑی خوشیاں منائیں کہ امریکہ یعنی کہ ایک سپر پاور نے ہم سے معافی مانگ لی ہے۔اب یہ بات عوام تو نہیں نہ جانتی کہ امریکہ نے معافی کس انداز سے مانگی ہے۔۔۔۔ معافی مانگنے کا ایک انداز مرحوم سلطان راہی صاحب کا بھی ہوا کرتا تھا وہ اپنی ہیروئن سے اُس کے ناراض ہو جانے پر بڑے رعب سے اور بڑھک مار کر معافی مانگا کرتے تھے۔۔۔ایسی خوفناک بڑھک سُن کر ہیروئن کی کیا جرات کہ وہ اپنے ہیرو کو معاف نہ کرے ۔۔۔ بلکہ وہ اُلٹا سلطان راہی سے معافی مانگ لیتی تھی۔۔۔

وے سونیا تو مینو ں معاف کر دے میتھو ں غلطی ہو گئی ۔میں تے ایویں ای تیرے نال ناراض ہو گئی آں(اے میرے ہیرو مجھے معاف کر دو مجھ سے غلطی ہو گئی ہے کہ میں تجھ سے ناراض ہو گئی ہوں)۔۔۔یعنی کہ ناراض ہونے والا خود اپنی ناراضگی کی معاف مانگ رہا ہے۔۔۔ یہی حال ہمارا ہے اگر ہم امریکہ کو معاف نہ کرتے تو اُس کا غصہ اور بڑھ جاتا ۔۔۔ اور اگر امریکہ کا غصہ بڑھ جائے تو پھر سلالہ چیک پوسٹ جیسے کئی واقعات پیش آ سکتے ہیں اور بے شمار ریمنڈ ڈیوس اس ملک میں بے گناہ لوگوں کو سر عام قتل کر سکتے ہیں لیکن ہم سوائے انہیں معاف کرنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔۔۔۔

بات ہو رہی تھی ریمنڈ ڈیوس کی استثناءکی ۔۔۔ ریمنڈ ڈیوس کی یاد مجھے گورنر پنجاب جناب لطیف کھوسہ صاحب نے دلائی ہے۔ اُنہوں نے اپنے ایک تازہ بیان میں فرمایا ہے کہ امریکہ نے اگر ریمنڈ ڈیوس کا تحفظ کیا ہے تو ہم اپنے صدر کا تحفظ کیوں نہیں کر سکتے۔۔۔ جناب !!! ہم اپنے صدر کا تحفظ ہی تو کر رہے ہیں گذشتہ چار ساڑھے چال سالوں سے۔۔۔ ایک بہت بھاری مینڈیٹ والے وزیراعظم کی قربانی صدر کے تحفظ کے لیئے ہی تھی نا کہ بھوک سے مرتے ہوئے عوام کے تحفظ کے لیئے۔اور ابھی دوسرا وزیراعظم بھی قربانی کا بکرا بننے کے لیئے بالکل تیار ہے وہ بھی صدر کو ہی تحفظ دینے کے لیئے اپنی گردن پیش کر رہا ہے نا کہ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیئے۔پوری پارلیمنٹ نے جو توہین عدالت کا بل خوشی خوشی پاس کیا ہے وہ بھی صدر کو ہی تحفظ دینے کے لیئے کیا ہے۔ اس کے بعد سینٹ نے بھی صدر کو تحفظ دینے کے لیئے اپنے فرائض انجام دیئے ہیں۔ ساڑھے چار سالوں سے صدر کو ہی تحفظ دیا جا رہا ہے باقی تو کوئی انسان ہی ہے اس ملک میں ۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100494 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.