مظلوموں کی آخری اُمید۔۔۔

26جولائی متحدہ قومی موومنٹ کے یوم تاسیس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا

پاکستان کے طول و عرض میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ ملک کس طرح ان بحرانوں سے باہر آسکے گا جو اسے درپیش ہیں۔ یوں تو وطن عزیز کو بحرانوں کی سرزمین کہاجائے تو غلط نہ ہوگا، ایک بحران ختم ہوتا ہے تو دوسرا سامنے، لیکن جو مسلسل بحران ہے وہ حقوق سے محروم عوام کے حقوق کے حصول کاہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں متعدد سیاسی جماعتیں دعویدار ہیں کہ وہ یہ حقوق عوام کو دلا سکتی ہیں لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی عوام تک رسائی کتنی ہے۔ وہ کس حد تک موروثی سیاست پر انحصار کر تے ہیں۔ پیسے کی ریل پیل ان کی کامیابی کی بنیاد ہے۔ بڑے سیاسی خانوادوں کی بنیاد پر انتخاب میں اترنا پاکستان کی سیاست میں اترنا ایک عام وتیرہ رہا ہے لیکن ان بنیادوں پر کامیابی ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔ ہر انتخاب کے بعد عوام کو کامیابی و ترقی کی نوید سنائی جاتی ہے لیکن انجام ایک ناکام حکومت پر ہی منتج ہوتاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بڑی بڑی شخصیات کے بل پر انتخاب لڑتی ہے۔ ایسے میں ایک سیاسی جماعت جو مظلوموں کی امیدوں کا محور ہے، وہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچا چکی ہے کہ وہ غریب اور متوسط طبقے کے عوام کو ایوانوں میں پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ ماضی کے تمام انتخابات میں ان لوگوں کو اعلیٰ ترین ایوانوں میں پہنچا چکی ہے جو غریب او رمتوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور نتائج بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف سامنے آئے۔ عوام نے دیکھا کہ ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوئے۔ ان کی آواز ایوانوں تک پہنچی اور یہی وہ تبدیلی ہے جس کا راستہ روکنے کی ہر سو کوشش کی جارہی ہے لیکن راستہ روکنے والوں کا مقدر بن رہی ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ اس تحریک کی قیادت ایک ایسی غیر متزلزل اور بے لوث قیادت ہے جس کو خریدنا، جھکانا، ممکن نہ ہوسکا۔ ماضی میں پیسوں سے اور طاقت سے اس قیادت کو جھکانے کی کوشش کی گئی۔ بھائی بھتیجے سمیت کارکنان شہید کیے گئے ، لیکن استقامت کی اعلیٰ مثال بن کر اپنی سیاسی جدوجہد کو قائد تحریک نے جاری و ساری رکھا اور یہ قربانیاں ہی اس بات کی دلیل ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ غریبوں اور مظلوموں کی آخری امید ہے۔

26جولائی کادن اس ضمن میں ایک سنہری تاریخ کی صورت اختیار کرگیا ہے اور یہ دن مظلوموں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
asad sheikh
About the Author: asad sheikh Read More Articles by asad sheikh: 22 Articles with 16067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.