رستہ تھوڑا ہی باقی ہے

ایک سراب ہے٬ خواب ہے یا کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک وسیع و عریض صحرا ہے اور زخموں سے چور چور ہماری قوم اس دشت میں بھٹکتی چلی جا رہی ہے۔ نامعلوم سمت کی جانب یہ سفر گزشتہ ساٹھ برس سے جاری ہے٬ رہبر ایک کے بعد ایک تبدیل ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن منزل کا ہنوز کہیں نام و نشان نہیں۔ وڈیروں٬ جاگیرداروں اور افسر شاہی سے سرتاپا عاجز عوام ایک مدت سے کسی مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن کوئی بھی ایسا معالج نہ مل سکا جو ان کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ کوئی تو ایسا ہو جو ان کی اشک بار آنکھوں کے آنسو پونچھ سکے٬ کوئی تو ہو جو ان کی داد فریاد پر کان دھرے٬ کوئی تو ہو جو ان کے درد کو اپنا درد سمجھے۔ لیکن افسوس کہ ہر گزرتے پل کے ساتھ ان کے پاؤں کے آبلوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کون جانے یہ کیسا قحط الرجال ہے۔ بلند و بانگ دعوے کرنے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے والے بہت کم۔۔۔۔۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جب مایوسی کے بادل چہار سمت چھائے ہوئے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے٬ کہیں چھت کے کسی کونے سے روشنی کی ہلکی سی لکیر بھی ضرور چھلک رہی ہے اور اجالے کی امید اپنی جگہ برقرار ہے٬ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی زندہ قوم کے لیے امید سے بڑا اثاثہ اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ انقلابات بھی تو آخر اسی زمین پر ہی آتے ہیں٬ وہ بھی تو آخر ہمارے جیسے انسان ہی تھے جنہوں نے قوموں کو ایک روشن منزل کی راہ دکھلا۔ ہر انقلاب اور تبدیلی سے پہلے حالات کچھ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں اور یہی وہ نامساعد حالات ہوتے ہیں جو کسی سوتی ہوئی قوم کو جھنجوڑنے کا باعث بنتے ہیں٬ ایسی ہی دشواریوں کا سامنا کرنے کے بعد قومیں کندن بنا کرتی ہیں اور اجلے راستوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں۔۔۔ آپ انقلاب فرانس’ انقلاب ایران یا روسی انقلاب سے پہلے کے حالات ملاحظہ فرما لیں۔ وہاں کے عوام بھی کچھ ایسی ہی تکلیف دہ صورتحال سے نبرد آزما تھے لیکن پھر جب تیز آندھی چلی توسب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔ حکمرانوں کے سر سے تاج اور پاؤں کے نیچے سے تخت کھینچ لیے گے۔

جی ہاں٬ روشنی کے آثار نمایاں ہیں۔ آس نہیں ٹوٹی٬ حوصلے پست نہیں ہوئے۔۔ امید کے ان دیوں کے جلتے رہنے میں دراصل اس شخص کا بہت بڑا کردار ہے جس نے آج سے دو برس قبل انکار کی روایت ڈال کر ایک ایسے نظام کو للکارا جس کی رگ رگ میں کرپشن٬ لاقانونیت اور نام نہاد نظریہ ضرورت سرایت کر چکا ہے۔ اس نظام کے گماشتوں کو یہ انکار اور جرات ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے اس شخص کو ناکام و نامراد بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ جھوٹ اور فریب پر مبنی الزامات در الزامات کی بارش شروع کر دی گی۔ لیکن چونکہ اللہ کی نصرت و حمایت اس کے ساتھ تھی چنانچہ آج ۲۳ ماہ گزرنے کے باوجود یہ تحریک اسی طرح برقرار اور تروتازہ ہے جس طرح پہلے دن تھی۔ عدلیہ سے مایوس عوام انصاف کی اہمیت اور افادیت سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں۔ وہ یہ جان چکے ہیں کہ انصاف ایک ایسی شے ہے جس کے بغیر نہ تو روٹی مل سکتی ہے٬ نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔ آج اگر ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے اور ہم ایک کے بعد دوسرے ملک سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی عدالتوں پر کسی کو اعتماد نہیں رہا۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں٬ کیا آپ کسی ایسے ملک میں اپنے پیسے انویسٹ کرنا چاہیں گے جہاں کا نظام انصاف پاکستان جیسا ہو۔

آج پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ وطن عزیز کے گرد ایک ایسا جال بن دیا گیا ہے جس کے ہر تار کے پیچھے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی اور سازش کارفرما ہے۔ دشمن تو خیر دشمن٬ لیکن اس کے ٹکروں پر پلنے والے کچھ اندرونی عناصر اس ملک کی رہی سہی جڑیں مزید کھوکھلی کرنے کے د ر پے ہیں ۔ ان عناصر کے ناپاک ارادوں کی را ہ میں آزاد عدلیہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی ساٹھ سالہ تاریخ میں اوپر سے نیچے تک ہر شخص اپنا سر اوپر سے نیچے کی طرف ہلاتا رہا٬ لیکن افتخار چوہدری نے اپنے سر کو دائیں سے بائیں جنبش دے کر پاکستان کے بدخواہوں کی پیٹھ میں ایسا چھرا گھونپا کے وہ ہر آن انتقام کے جذبے سے لبریز ہو کر آزاد عدلیہ کی اس جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے برسر پیکار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اب پاکستانی قوم بیدار ہو چکی ہے اور ان عناصر کے تمام منصوبے خاک میں ملتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک روشن صبح کی متلاشی یہ قوم بخوبی جانتی ہے کہ یہی وہ راستہ ہے جو اسے منزل تک لے کر جائے گا۔اگرچہ یہ راستہ دشوار گزار ہے لیکن عظیم مقاصد کی راہ میں صعوبتیں تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہیں۔ راستے میں سنگ جتنے زیادہ ہوں٬ منزل اتنی ہی دلکش ہوا کرتی ہے۔ تاج اترنے اور تخت گرنے کا دن قریب آ پہنچا۔ لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے۔۔۔اس صحرا میں دور کہیں پانی کی جھلک نظر آ رہی ہے اور اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اس بار یہ سراب نہیں ہوگا۔
Sardar Sajid Arif
About the Author: Sardar Sajid Arif Read More Articles by Sardar Sajid Arif: 2 Articles with 1379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.