ملک شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال؛امیدصبح نو

بسم اﷲالرحمن الرحیم

علامہ اقبال رحمة اﷲ علیہ نے کم و بیش ایک صدی قبل اقوام ایشیا کی بیداری کی پیشگوئی کردی تھی۔18دسمبر2010سے عرب ممالک میں جو عوامی بیداری کا سلسلہ مظاہروں کی صورت میںشروع ہواہے اسے قلمی دنیاکے یاروں نے” عرب انقلاب( Arab Revolution)“یا”بہارعرب(Arab Spring)“کانام دیاہے۔خود عرب پریس نے اس جاری سلسلے کو”التورات العربیہ“یا”عرب انتفاضہ“کانام دے رکھاہے۔تیونس،مصر،لیبیا،لبنان،یمن حتی کہ متحدہ عرب امارات کی بعض ریاستوں تک میں یہ سلسلہ چل نکلاہے اور عوام نے موروثی حکمرانوں کوللکارناشروع کر رکھاہے۔تا دم تحریر ان میں سے متعدد ممالک میں تبدیلی کی ٹھنڈی ہوائیں بادصباکی صورت میں چل پڑی ہیں اور باقی ممالک میں جدوجہداپنا ثمرہ لانے کی منتظر ہے۔جن ممالک سے اس طرح کی بیداری کی خبریں نہیں آ رہی ہیں وہاں ایسانہیں کہ عوام میں شعور کی کمی ہے بلکہ وہاں استبداد اس قدر طاقتور ہے کہ خبریں باہر نکل نہیں پا رہیں،بس کسی صباح ومساہ تبدیلی کے خوشگوار جھونکے وہاں سے بھی آنے لگیں گے کہ بقول کسے آمریت جب اپنے پنجے گاڑے براجمان ہوتی ہے توسمجھ نہیں آتاکہ یہ کیسے جائے گی اور جب آمریب رخصت ہوتی ہے تو حیرانی کا بحربیکراں چھوڑ جاتی ہے کہ یہ اتنا عرصہ کیسے ٹکی رہی۔جب حکمرانوں کی جڑیں عوام میںہونے کی بجائے غیرملکی افواج کے ناجائزتسلط میں پنہاںہوں تو انہیں محلات سے ہی نہیں ریاست کی سرحدوں سے ہی نکال باہر کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا،اور ماضی قریب کی تاریخ اس پرشاہد ہے۔

ملک شام میں رات کی تاریکی اپنے وجود کی آخری جنگ لڑ رہی ہے اور صبح نوکاسورج بس طلوع ہوا چاہتاہے۔تازہ”بہارعرب“ کا جھونکا15مارچ2011کوشام میں بھی آن پہنچااورایک بہت بڑامظاہرہ ہواجوآج ریاست میں جاری خانہ جنگی کی بنیادگیاہے۔عوام کاجائزمطابہ تھاکہ نصف صدی سے زائد کا بعث پارٹی کااستبدادی و ظالمانہ اقتدارختم کیاجائے اورغیرقانونی اور غیراخلاقی صدر بشار الاسدریاست کے سب سے بڑے منصب سے مستعفی ہو جائیں۔عوامی مظاہروں میں آنے والی بے پناہ شدت کے باعث” سیکولرازم“کے پروردہ حکمرانوںنے شام کے تمام بڑے شہروں میں اسرائیل سے شکست خوردہ افواج کو تعینات کیااور حکم دیا کہ اپنی عوام پر کھلے عام گولیاں چلاؤ۔یہ سیکولرازم کا پڑھایاہوا سبق ہے جومسلمانوں کے سیکولرحکمران اپنی قوم پرآزماتے ہیں۔مغربی استعمارکی تربیت یافتہ افواج جوآج بھی مسلمان ممالک میںدورغلامی کی باقیات کی صورت میں موجود ہیں،ان تمام افواج کی یہ قدر مشترک ہے کہ دشمن کے سامنے ہتھیارڈال کر ہاتھ اٹھادیتے ہیںاور اپنی ہی اقوام پر بندوقیں تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہم وطنوں کے کشتوں پر پشتے لگاکر جشن فتح مناتے ہیں۔شام میں بھی وہاں کی سرکاری افواج تادم تحریراپنا یہی شرمناک کردار اداکررہی ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگرآزاد ذرائع کے مطابق اب تک شام کا ”سیکولر“حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے پچیس ہزار سے زائد ہم وطن افراد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکاہے اورابھی خون کی ہولی جاری ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک ڈیڑھ ملین شہریوں کو ملک بدر بھی کیاجا چکاہے۔ملک سے نکالے جانے والے شہریوں کی اتنی بڑی تعدادنے اپنے قریب ترین ممالک عراقی کردستان،اردن،لبنان اور ترکی کی سرحدوں پر مہاجرین کی حیثیت سے پناہ لے رکھی ہے اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے دن گزاررہے ہیں۔قابل ذکربات یہ ہے کہ امریکی حمایت یافتہ عراقی حکمرانوں نے مہاجرین پر اپنے دروازے بندکررکھے ہیں۔جب کہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق تمام رکن ممالک مہاجرین کو پناہ دینے کے پابندہیں۔ظلم و ستم کے اس گھناؤنے کاروبار کے بعد بھی شام کے حکمران کی تسلی نہیں ہوئی اور ہزارہا مظاہرین کو حکومت نے اپنی جیلوں میں ٹھونس رکھاہے اور صبح و شام ان پر بے پناہ مظالم توڑے جا رہے ہیں،ان میں سے کتنے بقیدحیات ہیں اور کتنوں کواس عالم فانی سے رخصت کردیاگیاہے ؟؟کوئی نہیں جانتا۔ظلم و بربریت اور سرکاری لاقانونیت کے اس قدر وسیع تجربے کے باعث اب عالمی ادارے اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے تیزی سے شام کا رخ کررہے ہیں اوراس طرح شام کا یہ ناعاقبت اندیش حکمران اپنے ہی ہاتھوں دشمن قوتوں کو اپنی ریاست کا راستہ سدھارہاہے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ تصویرکادوسرارخ بھی کوئی اتنا امیدافزانہیں ہے۔معاملہ جب تک تو مظاہرین اور سیاسی قوتوں کاتھاتوامیدکاستارہ چمکتارہالیکن اب مظاہروں نے عسکری تناؤ کی شکل اختیارکرلی ہے اور باقائدہ سے ریاست میںخانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔حکومت کے خلاف جو قوت عسکری میدان میں سرگرم عمل ہے اسے ”آزادعساکرشام(Free Syrian Army)“کانام دیاگیاہے۔29جولائی 2011کواس عسکری تحریک کاآغاز ہوااوراس میں جہاں عوام کی نمائندگی موجود ہے وہاں زیادہ ترافرادشامی افواج کے ریٹائرڈاورباغی فوجی شامل ہیں۔”کرنل ریاض موسی الاسد“اس عسکری گروہ کا سرغنہ ہے۔کرنل ریاض شام کی فضائیہ میں بحیثیت کرنل کے فرائض سرانجام دے رہاتھا کہ 4جولائی 2011کو سرکاری منصب سے مستعفی ہو کر 29جولائی کو” آزادعساکرشام“ کی اس نے بنیادرکھی۔بعض اطلاعات کے مطابق اس ساری کاروائی میں ترکی افواج کی راہنمائی اسے حاصل رہی بلکہ ترکی کی خفیہ ایجنسیاں بھی کرنل ریاض کی ممدومعاون ومحافظ بھی رہی ہیں۔لیبیاکی قومی کونسل نے ترکی کے راستے اپنے فوجی ماہرین بھیجے ہیںجو” آزادعساکرشام“ کوتربیت فراہم کریں گے،فروری 2012میں برطانیہ نے انہیں رابطے کے آلات فراہم کیے ہیں،خلیج تعاون کونسل نے ” آزادعساکرشام“ کوشام کی عوام کانمائندہ ماننے کا عندیہ ظاہر کردیاہے،یکم مارچ2012کوکویت کی پارلیمان نے ” آزادعساکرشام“ کی مددکافیصلہ کرلیاہے،اقوام متحدہ کے معتمدعام کوفی عنان کے کرنل ریاض کے امن منصوبے کی حمایت اورروس کے ساتھ خفیہ رابطے جیسی اطلاعات اور فیصلہ کن بات یہ کہ جولائی 2012کی ایک اطلاع کے مطابق امریکہ کی حکومت نے ” آزادعساکرشام“ کو رقومات کی فراہمی کے لیے این او سی جاری کردیاہے،ان حقائق سے خدشہ ہے کہ عوام کی قربانیوں سے آنے والاانقلاب اس ”فوجی افسر“کے ہاتھوں اغوا ہی نہ ہوجائے کیونکہ عالمی طاقتیں فوجیوں کو بڑی آسانی سے اپنے شیشے میں اتارلیتی ہیں۔اگرچہ اس خدشے کوزائل کرنے کے لیے کرنل ریاض نے متعدد بار یہ کہاہے کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیںاور وہ صرف بشارالاسدکو برخواست کرناچاہتے ہیںلیکن کسی” فوجی افسر“کاکیااعتبار؟؟۔اس وقت ایک اندازے کے مطابق پچیس ہزارسے زائد تربیت یافتہ افراد کرنل ریاض کی قیادت میں جمع ہیں جو کہ ایک بہت بڑی قوت ہے۔

مایوسی کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ اسلام پسند اور امت کے خیرخواہ بھی خاموش تماشائی نہیں ہیں۔کچھ صالح فکر کے لوگ ان میں موجود ہیں ،شاید اسی کے باعث اخباری اطلاعات کے مطابق ایمن الظواہری نے ایک وڈیوکے اندر ” آزادعساکرشام“کی حمایت کی ہے،مئی2012میں لبنان سے جہاداسلامی نامی تنظیم کے تین سوتربیت یافتہ نوجوانوں نے ” آزادعساکرشام“میں شمولیت اختیارکی ہے۔ ” آزادعساکرشام“کے ایک کمانڈر نے پریس کو بتایاہے کہ وہ اس جدوجہدکو عین اسلامی جہاد تصورکرتے ہیں اور سیکولرحکومت کے خلاف ایک دینی جنگ لڑ رہے ہیں۔”مہیمن المیض“جو شام کی حکومت مخالف تحریک کے صف اول کے رہنماتصورہوتے ہیں مسلسل امریکہ کے خلاف بیانات دے رہے ہیںتاکہ امریکہ اس تحریک کے مقاصد پراثراندازہونے کی کوششیں ترک کردے۔جولائی 2012میں کچھ برطانوی صحافی ایک ہفتہ تک اس مزاحمتی تحریک کے اسلامی جہادی کیمپوں میں بھی رہے،ان جہادیوں کو شک تھا کہ یہ صحافی نہیں بلکہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے مخبرہیںلیکن تصدیق کے بعد ان صحافیوں کو آزادکردیاگیا۔بعد میں برطانوی صحافیOerlemansنے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ لوگ شام میں اسلامی قانون نافذکرنا چاہتے ہیں۔یہ حقائق بتاتے ہیں کہ مزاحمتی تحریک میں ہرطرح کے عناصرموجود ہیں لیکن ایک بات فیصلہ کن ہے کہ شامی عوام ایک سیکولرحکمران کو آزماکردوسراسیکولرحکمران ہرگزبرداشت نہیں کریں گے۔

شام کے حالات ابھی بھی دوراہے پر ہیں اور لگتاہے مصر،ترکی اور لیبیاکے تجربے کے بعد امریکی قیادت بڑی زیرک اورباریک بینی سے شام کے معاملات کولے کرچل رہی ہے کیونکہ شام کے تجربے میں تھوڑی سی غلطی کی گنجائش اس لیے بھی نہیں ہے کہ اس سے اسرائیل کی ریاست براہ راست متاثرہوگی اور امریکہ اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔اب یہ اسلامی قوتوں کو امتحان ہے کہ انہیں یہاں بیک وقت بیرونی دشمن سمیت اندرونی منافقین سے بھی نبردآزماہوناہے کہ پانچویں کالم کے لوگ مدنی دورسے اس امت میں موجودرہے ہیں۔سقوطکابل کے بعد سے مسلسل حالت جنگ میں امت مسلمہ کی قیادت نے اب تک استعمارکے اعصاب شل کردیے ہیں،یہ نوشتہ دیوارہے کہ امریکہ اور اس کے حواری شام کے اندراپنی اور اسرائیل کے بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں،مقدس کتب کی پیشین گوئیاں بھی اس کی طرف اشارہ کناں ہیں کہ یہیں سے پانسہ پلٹناہے اور شکست کادھبہ استعماری قوتوں کا مقدر ہوچکاہے ،اب تو معمولی دانست کا حامل بھی مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو بخوبی دیکھ سکتاہے۔پس وہ دن دور نہیں جب اس دنیاپر ازشرق تاغرب ختم نبوتﷺ کا پرچم لہرائے گا،انشاءاﷲ تعالٰی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 529074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.