ملالہ کے ملزم حکمران یا طالبان؟

تم ایک ملالہ کو روتے ہوم یں نے کئی ملالہ دیکھی ہیں۔میں نے خون میں لت پت بچوں کی جانے کتنی نعشیں دیکھی ہیں۔میں نے اجڑی مانگیں دیکھی ہیں۔میں نے سونی گودیں دیکھی ہیں۔میں نے ظلم جبر ئے فرنگ سے سسکتی روحیں دیکھی ہیں۔میں نے اپنی دھرتی پہ اپنی ہی بوسیدہ نعشیں دیکھی ہیں۔میں نے بارودکی بارش دیکھی ہے ۔میں نے آگ کی لہریں دیکھی ہیں۔تم ایک ملالہ کو روتے ہو میں نے کئی ملالہ دیکھی ہیں۔

ملالہ یوسف زئی پر کیاجانے والا قاتلانہ حملہ واقع ہی جہاں ایک بہت بڑے دکھ کی بات ہے وہاں یہ واقعہ ایک سوالیہ نشان بھی ہے اور اس پر میڈیا کا اسے اتنے وسیع پیمانے پر کوریج دینا بھی جہاں قابل تحسین عمل ہے وہاں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ اس وطن کی پاک سر زمین پر صبح سے لے کر شام تک ناجانے کتنی ہی بے گناہ نعشیں گرتی ہیں،نہ جانے کتنی ہی ملالہ بے آبرو ہوتی ہیں، لٹتی ہیں، بکتی ہیں ،جلتی ہیں ،جھُلستی ہیں کوئی اپنے جذبات دل میںلئے توکوئی اپنے سنہرے خوابوں کی تعبیر نہ ہونے پر توکوئی حالات سے دلبرداشتہ ہو کرخود کشیا ں کر رہی ہیں نہ جانے کتنے ہی معصوم اب تک ڈرون حملوں میں شہید ہوچکے ہیں کتنی ہی گودیںسونی ہو چکی ہیں کتنے ہی یتیم ہوچکے ہیں اور کتنی ہی بیوہ ہو چکی ہیں اور کتنے ہی معذور ہوچکے ہیں جس پر نا ہی تو کبھی پاکستانی میڈیا نے توجہ دی نہ حکمرانوں نے اور نہ ہی عوام کی زبانوں پر اس قسم کا چرچا کبھی دیکھنے کو ملا ،آخر کیوں؟ملالہ واقع پر ہی کیوں امریکی عہدیداران کو بھی یاد آیا کہ ہم بھی یہ کہہ دیں کہ بچوں پراس قسم کے ظلم برداشت نہیں کرسکتے ،خود جب پاکستانی حدود میں گھس کر ڈرون حملوں سے بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیںاس وقت انہیں اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ یہ بھی تو بے گناہ ہیں،بچے ہیں اور معصوم ہیں؟کیا وہ کسی کے بچے نہیں ہوتے؟کیا ان کے اندر جان نہیں ہوتی ؟ ان کے ڈھانچہ میں 206ہڈیاں نہیں ہوتیں؟کیا وہ سانس نہیں لیتے ؟وہ کھاتے نہیں؟پیتے نہیں؟چلتے پھرتے نہیں ؟بول نہیں سکتے ؟پڑھ نہیں سکتے؟کیا وہ مسلمان نہیں یا انسان نہیں؟کیاانہیں رفع حاجت نہیں ہوتی؟ کیا وہ کسی کی اولاد نہیں؟ان کا کوئی ماں باپ نہیں؟ ؟یاپھروہ معصوم نہیںیاحسین نہیں؟آخر کیا کمی ہے ان میں جنہیں انتہائی بے رحمی سے شہید کیا جاتا ہے ؟اور کیوں؟ کیوں کہ ان کا آئیڈیل باراک اوبامہ نہیں ،ان کا آئیڈیل بینظیر بھٹو نہیں،وہ ہیلری کلٹن کو پسند نہیں کرتے وہ اپنی پاک سر زمین پر ہونے والے ناپاک عزائم کو پسند نہیں کرتے،ان کا آئیڈیل اسلام اور اسلامی تعلیمات ہیں،ان نعرہ لاالااللہ ہے وہ اپنی پاک سر زمین پرامریکی مفادات کو پروان چڑھتا نہیںدیکھ سکتے اسی ہی لئے تو جب انہیں تکلیف پہنچتی ہے توہیلی کاپٹر نہیں اترتے،اسی ہی لئے تو ان کی عیادت کیلئے رحمان ملک ،وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ وہاں نہیں پہنچتے اسی ہی لئے تو علاج کیلئے ان کو بیرون ممالک کے ویزے نہیں ملتے،اسی ہی لئے تو میڈیا ان پر تبصرے نہیں کرتی اوریہی وجہ ہے کہ ان کی تکالیف کی ذمہ داری طالبان قبول نہیں کرتے،مان لیا کہ ملالہ امن ایوارڈ یافتہ ہے ،اس لئے اسے اس قدر کوریج ملی اور اس لئے حکومت نے اتنی توجہ دی ،مگر اس ملک کے دیگرباسی کیا امن کے خواہاں نہیں،جو سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں مگر علاج تو دور کی بات ایک ڈسپرین ملنا بھی نا ممکن سی ہوجاتی ہے،میں اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوں کہ میرے اس کالم کے بعد کچھ ادارے اور کچھ لوگ میرے متعلق جانے کیسے کیسے پلان اور باتیں بنائیں گے، تھریٹ کریں گے،مگرمیرا ایمان ہے کہ جس وقت میرا اس دنیا سے کوچ کرجانے کا وقت آگیا اس وقت مجھے کوئی بچا نہ سکے گا تب تک کوئی مار نہیں سکتا،اب قارئین سوچیں گے کہ پوری ملکی میڈیا ایک طرف ہے اور اس نے نئے ہی انکشافات کرنے شروع کر دیئے ہیں،اسے کیا ہوا؟یہاں میں اس کی بھی وضاحت کر ہی دوںکہ میں کسی ادارے کا باﺅنڈ نہیں،نہ میں دولت کا پجاری ہوں،نہ ہی مجھے این جی اوزچلاتی ہیںنہ ہی ادارے اورنہ ہی میرا کسی سیاسی یاکسی مذہبی تنظیم یا پارٹی سے کوئی تعلق ہے،جب ملالہ کے ساتھ یہ واقع پیش آیا تو قسم ہے پیدا کرنے والے کی حد سے زیادہ دل کو تکلیف محسوس ہوئی مگر جب میں نے دوسری ملالہ اور بے بس قوم پر نظر دوڑائی تو یہ سوچ کر صبر کر گیا کہ یہ تو ہمارے حکمرانوں کا کھیل تماشا ہے وہ جب جسے چاہیں مروا دیں جس پر چاہیں حملہ کروا دیں اور جس کی نعش پر جب دل چاہے سیاست کر لیں،جبکہ ہماری میڈیا دولت کی پجاری ہے اور ہماری لکیر کی فقیرقوم اس پرآنکھیں بند کرکے یقین کر لیتی ہے اور جب اصل حقائق سامنے آتے ہیں تو سمجھنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا اور نا ہی کسی کو ندامت ہوتی ہے آج قوم کی اسی ہی بے وقوفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تو میڈیا کے چند ایک ادارے اور چند ایک صحافی حکومتیں چلانے بنانے اور گرانے کا دعوہ کئے بیٹھے ہیں اگرایسا نہیں تو پھر ملالہ کے ساتھ یہ واقع کیوں پیش آیاجب کہ ملالہ امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ہے تو اسے سیکیورٹی کیوں نہیں دی گئی ،خیر اسے بھی مان لیا کہ اچانک ہوگیامگر اب ہی اگر حکومت چاہے تو 48گھنٹوں کے اندر اندر ملالہ کے اصل ملزم ٹریس کر سکتی ہے مگرایسا ہونا نہ ممکن ہے کیونکہ اس سانحہ کے پیچھے بھی ضرور کوئی نہ کوئی اندرونی یا بیرونی سازش ہے اور ملزم وہ ہیں جنہیں ہم ہمارے لیڈرز اور ہماری میڈیادن رات پوجتی ہے جن کے اشاروںپر ملالہ نامی معصوم گڑیا کو استعمال کیا گیااور یہ سازش وہاں تیز ترین اور گرینڈ فوجی آپریشن کرکے مزید جانوں کا ضیا کے علاوہ عالمگیر دہشت گرد ملک امریکہ کی جانب سے کی جانے والی توہین رسالت سے امت مسلمہ کی توجہ ہٹانے کی بھی ہوسکتی ہے اگر ملالہ جیسا ہی ہمدردانا رویہ ہماری حکومت ِوقت ہمارا میڈیا اور عوام وہاں کے دیگر باسیوں اور ہر مظلوم سے بھی اپنالے ڈرون حملے کرنے والے جاسوس طیاروں کو مار گرانے کا عمل شروع کر دے اور امریکی تعلقات کو خیر باد کہ دے تو یقیناً ملک میںایک ایسی امن کی فضا قائم ہو گی کہ دوبارہ کبھی ملالہ جیسا واقع پیش نہیں آئے گا ہمارے ملک میں آج جو بھی ہورہا ہے وہ امریکی قربت اور اپنی سر زمین پر امریکی مفادات کو پروان چڑھانے کی وجہ سے ہورہا ہے جس کے اصل ذمہ دار حکمران ہیں اور ذمہ داری قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ، اسی ہی لئے تو اس واقع کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ، اور لگتا ہے اب پاکستان میں پچھلے65سال کی تباہی کی ذمہ داری بھی طالبان ہی قبول کریں گے؟ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن ،لوٹ مار ،مہنگائی ،تمام تر مارشل لا،کراچی میںقتل عام ،سندھ میں مشکوک بلدیاتی نظام ،حنا ربانی کھر اور بلاول کے معاشقے کی ذمہ دار ی بھی انہیں طالبان کو ہی قبول کرنا پڑے گی؟اور اگر مجھے کہیں کوئی عشق مُشک وغیرہ ہوگیاتو اس کا ذمہ میں تو خود طالبان کو ہی ٹھہراﺅں گابھئی ؟کیونکہ یہ لفظ کافی آسان ہے کہ طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی؟ اسی ہی لئے تو جب کسی سانحے یا حادثے کا کوئی اور جواب نہ ملے تو طالبان خود فون کرکے ذمہ داری قبول کرلیتے ہیںاور اس جدید ترین دور میں بھی ان کی کال پکڑی نہیں جا سکتی ؟جبکہ دیگر ہر چھوٹے پڑے کریمینل کو فون کال سے ٹریس کیا جا سکتا ہے ؟میرے خیال میں طالبان کے نام پہ اب تک بہت ہوچکا اب بس ہی کر جائیںتو بہتر ہوگا ،ورنہ کھو بیٹھیں گے ہم اپنی اس پاک سر زمین کو۔۔۔۔۔؟کھوج میںپاگل ہوئی میری قوم نادان؟کھا گئے میرے وطن کو طالبان یا حکمران؟ ۔
Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 38345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.