اظہار رائے آزادی،وکی لیکس اور امریکہ ویورپ۔۔تصویر کا دوسرا رخ

ویسے تودہشت گردی اورانتہاپسندی کی تمام صورتیں ہی خطرناک ہیں لیکن مذہب کے نام پرانتہاپسندی اور دہشت گردی حددرجہ ناقابل برداشت اورانسانیت کیخلاف گھناﺅنا جرم ہے۔مذہبی دہشت گردی کااسلام کے ساتھ توشروع سے ہی کوئی تعلق نہیں تھاکیونکہ اسلام جتنا قدیم ہے اس سے زیادہ کہیں جدیدبھی ہے اوراپنے پیروکاروں کوعدل وانصاف،اعتدال اورمیانہ روی کادرس دیتا ہے ہاں البتہ اگر کوئی مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کواپنی آنکھو ں کے ساتھ دیکھنا چاہے تووہ امریکہ ویورپ کے معاشروں کی طرف ایک نظردوڑائے جہا ں آجکل یہ جرائم یعنی انتہاپسندی اوردہشت گردی بام عروج پرہیں۔کسی زمانے میں یہ معاشرے بھی انتہائی مہذب کہلاتے تھے اوردوسروں کوعالمی امن،برداشت،عدل وانصاف کادرس دیتے تھے لیکن جب سے 9/11کاواقعہ ہواہے ایسے لگتا ہے جیسے امریکہ ویورپ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے ہیں اورمتمدن معاشرے سے وحشی معاشروں میں تبدیل ہوگئے ہیں،آپ چاہے جتنے ہی زورلگالو دلیل پے د لیل کیو ں نہ دولیکن مجال ہے جوآج کاامریکی،برطانوی،فرانسیسی یاجرمن اپنے آزادی اظہاررائے کے حق سے پیچھے ہٹے ،اس کے آگے یہ ساری دلیلیں بے کارثابت ہونگی ۔اس کی ایک معقول وجہ بھی ہے کہ امریکن اوریورپین معاشروں میں مذہب کاکوئی عمل دخل نہیں رہا،انہوں نے اپنے معاشروں سے ،سیاست ،معاشرت، معیشت ،تعلیم ،عدالتیں ہرجگہ سے خداوراس کے پیغمبروں کونکالاہواہے مذہب پربہت کم لوگ یقین رکھتے ہیں اورجدیدٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ اتنے آزادہوگئے ہیں کہ ہزاردلیلیں ہی کیوں نہ دے ڈالووہ نہیں مانیں گے ۔آپ اگرکسی امریکی عیسائی یایہودی سے یہ کہوکہ بائبل اورگوسپل میں بھی توہین مذہب کرنے والے کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی تواس پرپہلے تووہ لاعلمی ظاہرکرے گاپھرتھوڑی دیربعدکہے گامذہب ہرکسی کاپرائیویٹ مسئلہ ہے اس کی مرضی مانے یانہ مانے،اگرآپ یہ پوچھو کہ تم عیسائیت یایہودیت پریقین نہیں رکھتے اوربائبل اورگوسپل کی تعلیمات سے بھی انکاری ہوتوپھراپنے آپ کوعیسائی یایہودی کیوں کہلاتے ہو،اپنا نام عیسائیوں اوریہودیوں کے طرزپرکیو ں رکھتے ہوتووہ لاجواب ہوجائے گا صرف اتنا کہے گا کہ میں اپنی زندگی کاخودمالک ہوں میری مرضی ہے جس طرح گزاروں کسی کومیری پرسنل لائف میں مداخلت کرنے کااختیارہرگزنہیں ۔دیکھے نہ اب آپ خودہی سوچیں کہ جن لوگوں نے ”معصوم مسلمان“ Innocence of Muslimsبناکرپوری دنیا کاامن خطرے میں ڈال دیا ہے ان کویہ بات کیوں نظرنہیں آتی کہ اسلام مسلمانوں کامذہب ہے اورحضرت محمدمسلمانوں کے نبی ہیں توپھروہ دوسروں کی پرائیویٹ لائف میں کبھی ان کے نبی کے گستاخانہ خاکے بناکراوراب فلمیں بناکرمسلسل مداخلت کیوں کیے جارہے ہیں جبکہ وہ خوداپنی پرسنل لائف میں کسی کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے تومسلمانوں کوان کی مرضی سے جینے کاحق کیوں چھیناجارہا ہے آج جرمنی ،فرانس،بیلجیم،ڈنمارک،اٹلی اوردیگریورپین ممالک میں حجاب پرپابندی لگاکرمسلمان عورت سے اس کے بنیادی حقوق کیوں چھینے گئے ہیں؟ کیایہ انتہاپسندی اورمعاشرتی دہشت گردی نہیںہے؟یعنی آپ اس چھوٹی سی چیزسے اندازہ کرلیں کہ جومعاشرے انسان سے اپنی مرضی کالباس پہننے کابنیادی حق چھین لیں اوراس کی پاداش میں بھری عدالتوں میں مسلمان خواتین کوگولی مارکرقتل کیاجائے توآگے چل کریہ معاشرے کیاکچھ نہیں کرسکتے۔بات بالکل سادہ سی ہے کہ 9/11 کے بعدپیداشدہ صورتحال خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کررہی ہے جس سے دنیاکاامن وسکون مکمل طورپر تباہ وبربادہوکررہے گا اورایساسب کچھ آزادی واظہاررائے کے غلط جگہ پراستعمال ہونے کی وجہ سے ہوگا،ایک دوسرے کے مذاہب پرکیچڑاچھالنے کی وجہ سے دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے آپ خودہی اندازہ کرلیں کہ جب سنہ 2005 میں پہلی دفعہ ڈنمارک کے ایک اخبار Jyllands-Postenنے نبیءآخرزماں کے گستاخانہ خاکے شائع کیے اورپھراب11 ستمبر2012کوامریکہ نے"Innocence of Muslims" (معصوم مسلمان )بناکر کس طرح نہ مسلم دنیا کااشتعال دلایاہے ۔امریکہ کیخلاف احتجاج تو پہلے بھی ہوتارہاہے لیکن شدیدردعمل پہلی دفعہ دیکھنے میں آیاہے کہ دنیاکاایساکوئی ملک نہیںجہاں پرامریکہ کیخلاف پرتشددمظاہرے نہ ہوئے ہوں اورامریکی حکومت نے بھی پہلی دفعہ اس ردعمل کومحسوس کیا۔اس فلم کے بننے سے پہلے دنیابھرکاسفارتی کام معمول پرتھاجلاﺅگھیراﺅاوراحتجاجی مظاہرے نہ ہونے کے برابرتھے ساری خرابی اسی مذموم فلم اورگستاخانہ خاکوں کی وجہ سے پیداہوئی جن میں دنیا کے سب سے جاندار،زندہ اورعمل کیے جانے والے مذہب اسلام پرحملہ کیاگیاہے اور اس کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی گئی ۔اگریہ گستاخانہ فلم اورخاکے نہ بنائے جاتے تو صورتحال یکسرمختلف ہوتی،نہ لبیامیں تعینات امریکی سفیرکرسٹوفرسٹیفن ماراجاتااورنہ دنیا بھرمیں امریکی سفارتخانوں اورقونصلیٹ پرحملے ہوتے۔ ان واقعات کادوسرابڑا افسوسناک پہلویہ ہے کہ جس طرح تحفظ اوربچاﺅ کے نام پرلڑی جانے والی نام نہاددہشت گردی کی جنگ اوراس کے نتیجے میں عراق اورافغانستان میں عبرتناک شکست سے امریکہ اورنیٹوافواج نے کوئی سبق نہیں سیکھا اسی طرح گستاخانہ فلم اورخاکے بنانے کے بعدپیداشدہ ساری صورتحال سے بھی امریکہ ویورپ کے تھنک ٹینکس نے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا۔کسی مغربی فلاسفر،دانشوراورسیاستدان کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کویہ باورکرائے کہ مذہبی جذبات کونہیں چھیڑنا چاہیے،آزادی اظہاررائے وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے دوسروں کی آزادی اورحقوق شروع ہوتے ہیں ۔وہ انہیں بتائیں کہ مذہبی معاملات کوتوڑمروڑکرپیش کرنے اورمقدس مذہبی کتابوںاورانبیاءکی توہین کرنے کانام آزادی اظہاررائے نہیں ہے بلکہ ایساکرنا خداکے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔

اب ہم آزادی اظہار رائے کے موضوع پرامریکہ ومغرب کے دوہرے معیار اورمنافقت کی طرف آتے ہیں اوردلیل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ آزادی اظہاررائے کاحق امریکیوں اوریورپین کے لیے ایک معنی جبکہ مسلم دنیا کے لیے دوسری معنی رکھتاہے ۔وکی لیکس WikiLeaksکے بارے توسب ہی جانتے ہیں اوریہ بھی جانتے ہیں کہ اس کابانی جولین اسانج آجکل برطانیہ میں قائم ایک غیرملکی سفارتخانہ میں پناہ لینے پرمجبورہے اورامریکہ اورسویڈن کی حکومت کومجرم کے طورپرمطلوب ہیں ۔اسانج کا جرم صرف یہ ہے کہ ان کے ادارے وکی لیکس نے آزادی اظہاررائے کااستعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی رازو ں سے پردہ اٹھاناشروع کیااورایک عام آدمی کی اس طرح کی معلومات تک رسائی کوممکن بنایاجس کوہمیشہ بڑی طاقتیں یاحکومتیں خفیہ رکھتی ہیں۔انہوں نے اپریل 2010میں واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں ایک ویڈیودکھائی جس میں 2007میں عراق کے شہربغدادمیں ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹرسے بارہ عراقی شہریوں کوہلاک کرتے ہوئے دکھایاگیاتھا جن میں رائٹرزکے دوصحافی بھی شامل تھے۔اس کے بعدایک قدم مزیدآگے بڑھتے ہوئے وکی لیکس نے جولائی2010میں افغانستان کی جنگ پر77ہزارامریکی فوج کے دستاویزات اورعراق جنگ پرچارلاکھ خفیہ دستاویزات بھی شائع کیے مگر علم پھیلانے اوراپنی رائے کااظہارکرنے کے اس عمل پرامریکہ بہادرنے اپنے شدیدغصے کااظہارکیا اورجولین اسانج پرجاسوسی کے تحت مقدمہ چلانے کااعلان کردیا ہے۔ہم پوچھتے ہیں کہ جولین کوآزادی اظہاررائے کے حق سے کیوں محروم کیاجارہاہے؟ فرض کریں اگروہ یہ ساراکام امریکی خوشنودی کے لیے مسلم دنیا اوراس کے حکمرانوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتاپھرتواس کایہ حق تسلیم کیاجاتا لیکن چونکہ امریکی جنگی جرائم سے پردہ اٹھانا آزادی اظہاررائے کی زدمیں نہیں اس لیے آسکتا جولین پرپابندی عائدکردی گئی ہے اوروہ اپنی جان بچانے کے لیے ایک سفارت خانے میں قیدہوکررہ گیا ہے۔اسی طرح حال ہی میں امریکی فوج سے ریٹائرڈہونے والے افسرمارک اوون Mark Oven جوکہ اسامہ بن لادن کیخلاف کی جانے والی ایبٹ آباداپریشن کابھی ایک اہم حصہ رہا ہے نے جب اپنی کتاب "No Easy Day"لکھ کراپنی آزادی اظہاررائے کااظہارکیا توامریکی حکومت نے اس کیخلاف بھی قانونی کاروائی کرنے کافیصلہ کیا۔کیاآزادی اظہاررائے صرف مسلمانوں کوبدنام کرنے کے لےے ہے ؟آپ ہولوکاسٹ Holocaustکے مسئلہ کوئی دیکھ لیں اس موضوع پرامریکہ سمیت پورے یورپ میں بات کرنا،اپنی رائے کااظہارکرنا شجرممنوعہ کی طرح ہے اورجوایساکرتاہے اسے سخت سے سخت سزادی جاتی ہے بھاری جرمانہ،سلاخوں کے پیچھے حتیٰ کہ عمرقیدکی سزادینے سے بھی گریزنہیں کیاجاتا۔ہم اہل مغرب اورخاص طورپرہٹلرکے ظلم کی ستائی قوم سے پوچھتے ہیں کہ اگرفرض کریں جگہ جگہ ہٹلرکی تعریف میں مضامین اورکالم چھپناشروع ہوجائیں اوراس کے حق میں فلمیں بننا شروع ہوجائیں توکیا آزادی اظہاررائے کے طورپراس کوبرداشت کیاجائے گا؟کوئی اگرواشنگٹن پوسٹ ،نیویارک ٹائمز،ٹیلیگراف ،یااس طرح کے کسی مغربی اخباریاچینل پرکوئی پینٹاگان پرکھل کرتنقیدکرے،امریکی فوج کودہشت گردقراردے،نائن الیون کے واقعہ کوجھوٹ قراردے توکیااظہارآزادی کوتسلیم کرتے ہوئے ایساکرنے دیا جائے گا؟یقیناََجواب نفی میں ہوگا توپھرسوچنے کی باتب ہے کہ ساری سازشیں مسلم دنیا کیخلاف کیوں کی جارہی ہیں۔کیااظہاررائے آزادی صرف مسلمانوں کے نبی کی توہین کرنے کے لیے ہے؟امریکہ اورمغربی دنیا کاایک اوردہرامعیاردیکھ لیں۔وہ کہتے ہیں کہ فلموں ،ڈاکیومنٹریز اورڈراموں پرکوئی قدغن نہیں جوجیسے اورجس طرح کے سکرپٹ کے ساتھ بنائے ،کوئی پابندی نہیں۔ یہ سب بھی سراسرجھوٹ ہے۔امریکہ میں اہم قومی ایشوزپربنائے جانے والے تمام ڈراموں،فلموں اور ڈاکیومینٹریز کو پینٹاگان اورلائبریری آف کانگرس سنسرکرتے ہیں اورکوئی بھی چیزبنانے سے پہلے آپ نے ان دونوں اداروں سے سکرپٹ کومنظورکراناہوتا ہے اورخاص طورپرنائن الیون کے موضوع پرتوکوئی بھی چیزشروع کرنے سے پہلے سکرپٹ بارباران اداروں کوچیک کراناپڑتاہے۔ہم امریکی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ گستاخانہ فلم Innocence of Muslimsکوپینٹاگان اورلائبریری آف کانگرس نے سنسرکیوں نہ کیااداتنے بڑے نقصان اورفسادکے باوجود نفرت انگیزفلم کویوٹیوب سے ہٹایاکیوں نہیں گیا؟آخرمزیدکتنافسادکرانامطلوب ہے؟ بات جب آپ کے اپنے ملک کے قومی مفادات کیخلاف آتی ہے تواس وقت آزادی اظہاررائے کے سارے دعوے دم توڑ جاتے ہیں لیکن جب اسلام کیخلاف کوئی فلم بناناہوتواس کوآزادی اظہاررائے کہاجاتاہے۔کتنانہ منافقانہ رویہ ہے یہ؟امریکی یایورپین میڈیامیں کسی یہودی کومڑی ہوئی ناک سگارلےے اورپیسے گنتے ہوئے کارٹونوں کی شکل میں نہیں دکھایاجاسکتا کیونکہ یہاں بھی اظہاررائے کاحق دم توڑجاتاہے اگرآپ یہودیوں کواسی شکل میں دکھاﺅ گے توپھرسارامیڈیاآپ کابائیکاٹ کرے گاآپ کیخلاف ادارئےے لکھے جائیں گے اورآپ پرنسل پرستی کے الزام لگائے جائیں گے۔دنیا کے مسلمان پوچھتے ہیں کہ آپ اگرایک عام یہودی کے کارٹو ن نہیں بناسکتے توپھردنیاکی سب سے معززترین ہستی ،رحمتہ للعٰلمین، حضرت محمدمصطفیٰ کے کارٹون بنانے کی ناپاک جسارت کیوں کرتے ہو؟ڈنمارک کے اسی ہی اخبارکے مالکان کو جنہوں نے سب سے پہلے گستاخانہ خاکے شائع کےے تھے جب کہا گیا کہ آپ حضرت عیسیٰ کے خاکے بھی بناﺅ توانہوں نے کانوں پرہاتھ رکھ کرتوبہ توبہ کی ہم ایسابالکل بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے کرسچن ورلڈہمارے کیخلاف ہوجائے گی۔اب آپ یورپ کی منافقانہ پالیسی اوردوہرے معیارکاخودہی اندازہ کرلیں کہ آزادی اظہاررائے کامسلمانوں کے معاملوں میں کیامطلب ہے؟۔اسی طرح امریکہ میں بننے والی فلم "The Pawnbroker (1964)کوبھی محض اس لیے سنسرکیاگیا کہ مذکورہ فلم امریکی معاشرتی اقدارکیخلاف بنائی گئی تھی اور1990میں امریکی فٹاگریفررابرٹ ماپل تھورپ کوتصویری نمائش کرنے سے روک دیا گیا کیونکہ اس کی تصاویرمیں بعض تصاویرامریکی معاشرے پرکیچڑاچھالتی تھیں۔اسی ہی سال مائیک ڈیانانامی ایک خاتون آرٹسٹ کواپنے فن پاروں کی نمائش کرنے سے روک دیا گیا،اس کی اظہاررائے پرپابندی لگادی گئی کیونکہ ان فن پاروں میں بے ہودہ اورفحش موادتھا۔جبکہ دوسری جانب اسلام اورمسلمانوں کیخلاف بنائی جانے والی فلمیں ”ڈیلٹافورس“، ”انتقام“، ”آسمان کی چوری“،”حصار“، ”حقیقی جھوٹ“اورنائن الیون پربنائے گئے ڈراموں کوکھلے عام چھوٹ دی گئی کہ وہ جس طرح چاہیں اسلام اورمسلمانوں کوپیش کریں کوئی سنسرشپ نہیں لگے گی۔ہم پوچھتے ہیں کہ جب بات امریکی مفادات کی آتی ہے تووہاں آزادی اظہاررائے کے حق کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اسی نام نہادحق کی آڑمیں دنیابھرکے مسلمانوں کی دل آزاری کیوں کی جارہی ہے؟اگربرطانیہ کے شہزادہ ولیم اورکیٹ مڈلٹن فرانسیسی میگزین میں اپنی ناپسندیدہ تصاویر دیکھ کرسیخ پاہوسکتے ہیں اورمیگزین کیخلاف فوری طورپرقانونی کاروائی کی جاتی ہے توپھرکروڑوں مسلمانوں کے نبی کے خاکے اورگستاخانہ فلم کیوں بنائی جاتی ہے؟کیاہمارے نبی اکرم ایک عام انسان تھے؟ کیاوہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبراورآخری نبی نہیں تھے؟اگرکوئی عام شہری امریکی صدرکوننگی گالیاں دے،اس کے ننگے کارٹون یافلمیں بنائے توکیااس وقت بھی آزادی اظہاررائے کاحوالہ دے کرچب سادھ لی جائے گی؟25نومبر2011 کوروس کے سرکاری ٹی وی پرٹیٹالیمانووانامی ایک نیوزکاسٹرکوجاب سے محض اس لیے فارغ کردیاگیاکیوں کہ اس نے لائیوصدراوباما کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیااوراس اظہاررائے کوبرداشت نہیں کیاگیا حالانہ وہ کئی سالوں سے اس جاب پرفائزتھی اورعوام میں بے حدمقبول تھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی دنیاروزربروزپھلتے پھولتے مذہب اسلام سے بے حدخوفزدہ ہے،نائن الیون کے بعداب تک ہزاروں کی تعدادمیںلوگ مسلمان ہوچکے ہیںاوریہ سلسلہ تیزی کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ڈنمارک،کئنیڈااوردیگرممالک میں جاری ہے ۔اس کابدلہ اب مغربی میڈیا جدیدٹیکنالوجی کی مددسے اسلام اورمسلمانوں کوبدنام کرکے لے رہا ہے۔سب سے پہلے ہمیں بنیادپرست (Fundamentalist)کہہ کرپکاراگیا،اس کے بعد انتاپسندExtremist) )کا لقب دیاگیا پھردہشت گرد (Terrorist)اور اب وحشی یادرندہ (Savage)کے طورپرپیش کیاجارہاہے حالانکہ یہ بات ان کے بھی علم میں ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے،یہ کسی بے گناہ انسان کے قتل کوپوری انسانیت کے قتل کے مترادف قراردیتا ہے،ہمارے نبی اکرم نے یہودیوں،عیسائیوں،مجوسیوں،مشرکوں سب کوان کے حقوق دئےے اورجزیہ دینے کی صورت میں اسلامی ریاست نے ان کے جان ومال کوتحفظ فراہم کیا۔دنیا میں اٹھاواسلامی ریاستیں ہیں لیکن کسی مسلمان ملک کے اخباریاٹی وی چینل نے گستاخانے خاکے اورفلمیں نہیں بنائیں،کسی مسلمان آرٹسٹ نے حضرت عیسیٰ،حضرت موسی،حضرت سلمان یاکسی اورپیغبرکے کارٹون نہیں بنائے کیونکہ ان برگزیدہ ہستیوں پر ایمان لائے بغیرایک مسلمان کاایمان مکمل نہیں ہوسکتا،اٹھاون اسلامی ریاستوں میں کسی جگہ عیسائیوں، ہندوﺅں، یہودیوں اوردیگرمذاہب کے پیروکاروں کی مقدس کتابیں نہیں جلائی گئیں لیکن گوانتانامے بے،ابوغریب جیل،بغداد،کابل اورخودامریکہ کے اندرقرآن پاک کی باربار بے حرمتی کی گئی اورقرآنی اوراق جلائے گئے اورجس طرح امریکہ پوری دنیا میںدندناتاپھررہا ہے اورہرملک کے معاملات میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتاہے اسی طرح وہ اب مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں بھی مداخلت کرنے سے گریزنہیں کرتا۔ مسلمان تمام مذاہب کااحترام کرتے ہیں اورسابقہ تمام پیغمبروں پرایمان لاتے ہیں ان کی عزت وتوقیرکرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ امریکہ ویورپ اپنے پیغمبروں کی عزت نہیں کرسکتے لیکن ہم توان کے پیغمبروں کی بھی عزت کرتے ہیں اورکرتے رہیں گے کیونکہ وہ سارے خداکی طرف سے بھیجے گئے سچے رسول تھے۔ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ ویورپ کواپنے دوہرے اورمنافقاہ معیارترک کرکے عدل وانصاف کی روش اختیار کرنا پڑے گی،تمام ممالک توہین انبیاءاورتوہین مذہب کاقانون بین الاقوامی طورپرپاس کروائیں اوراس کی پاسداری کو یقینی بنائیںاورذرائع ابلاغ کواس چیزکاپابندکیاجائے کہ مذہبی آزاری پرمبنی کوئی فلم،انبیاءکے کارٹون نہیںبنائے جائیں گے اورایساکرنے والے کوقانون کے مطابق قرارواقع سزادی جائے گی تاکہ دنیا کاامن وسکون برقراررہ سکے اورتمام مذاہب میں ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کاحوصلہ بھی اپنی جگہ قائم رہے۔
Shabbir Ahmed
About the Author: Shabbir Ahmed Read More Articles by Shabbir Ahmed: 7 Articles with 17151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.