اصغر خان کیس سے کیا سبق ملتا ہے؟

پاکستان میں سول ملٹری اسٹبلشمنٹ گٹھ جوڑبہت پرانا ہے اوراس تعلق نے ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے ۔اصغرخان کیس میں سپریم کورٹ کافیصلہ آگیا کہ انتخابات میں فوج اورآئی ایس آئی نے جوکرداراداکیاوہ آئینی نہیں تھا۔بڑے پیمانے پر رقم ضائع کی گئی اوریہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کونسے تاجرتھے جنہوں نے اتنی خطیررقم جمع کرکے آئی ایس آئی کے قدموں تلے ڈھیرکردی کہ آئی جے آئی بنائی جائے۔تاحال کسی بھی تاجرنے اس پرکسی بھی قسم کے ردعمل کااظہارنہیں کیا۔ فوجی جرنیلوں پربھی تنقیدکی جارہی ہے لیکن کوئی یہ بات نہیں کررہا کہ سول ملٹری اسٹبلشمنٹ کے گٹھ جوڑاورسیاسی شطرنج سے ملک کونقصان کیوں پہنچا؟حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آج تک جتنے بھی مارشل لالگے ہیں ،آئین معطل ہوا،ملک دولخت ہوا،داخلی وخارجی سطح پرعدم استحکام پیداہوا،خارجہ پالیسی واشنگٹن میں بنتی رہی،سیاسی قتل ہوتے رہے،انتخابات میں دھاندلی ہوتی رہی ،معیشت مفلوج ہوتی رہی سب کچھ سیاستدانوں کی اپنی کمزوری،نااہلی اورحماقتوں کی وجہ سے ہے،اس میں فوج کاکوئی قصورنہیں چندجرنیل مجرم ضرورہیں ۔اگرشروع سے ہی ایوب خان کاراستہ روک دیاجاتا اورپھر 1965کے الیکشن میںجب مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کوسازش کے تحت الیکشن میں ہروایاگیااوردھاندلی کی گئی اس وقت کے سیاستدان اگر ایوب خان کاساتھ نہ دیتے بلکہ احتساب کرتے اورپھر یحیٰ خان تک،جنرل ضیاءالحق سے جنرل پرویزمشرف تک آئین پاکستان توڑنے والے تمام ڈکٹیٹروں کیخلاف کاروائی کی جاتی اورہمارے سیاستدان کبھی آئی جے آئی بناکراورکبھی کنگ پارٹی بناکران کی سپورٹ نہ کرتے توملک کے حالات اتنے گمبھیرنہ ہوتے۔

اصغرخان کیس میں ہمارے سیاستدانوں نے خودجمہوریت کاراستہ روکا اورجب تک سیاستدان جمہوریت کی خاطرایک نہیں ہونگے ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی اورہماری داخلہ وخارجہ پالیسی قومی اسمبلی کے بجائے واشنگٹن میں بنتی رہے گی،ڈرون حملے ہوتے رہیں گے اورذوالفقارعلی بھٹو،حکیم محمدسعید،جنرل ضیاءالحق،لیاقت علی خان،اوربے نظیربھٹوجیسے مقبول عوامی رہنما ﺅں کے سیاسی قتل ہوتے رہیں گے،میاں نوازشریف جیسے قومی رہنماباربارجلا وطن ہوتے رہیں گے۔پھرسانحہ کارگل،سانحہ ایبٹ آباد،سانحہ سلالہ چیک پوسٹ،سانحہ لال مسجدآپریشن ودیگرہوتے رہیں گے کیونکہ جب سیاستدان اوراسٹبلشمنٹ ایک دوسرے کے ساتھ مل کروہ کام کرتے ہیں جوان کرنے کا نہیں ہے توپھربیرونی عناصر اورایجنسیاں بھی اس ساری صورتحال کافائدہ اٹھاتی ہیں۔

بات1990 ءکی نہیں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی شروع سے ہی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال ہوتی رہی ہیں۔دونوں ہی اسٹبلشمنٹ کی آشیربادسے وجودمیں آئیںایک کوایوب خان اور یحیٰ خان کی سرپرستی حاصل رہی تودوسری کوجنرل ضیاءالحق نے سرآنکھوں پربٹھایا۔البتہ موجودہ دورمیں ان پر اسٹبلشمنٹ کے اثرات کم ضرورہوئے ہیں۔بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی اس غیرقانونی یونین کے اثرات سویلین صدرغلام اسحاق پربھی پڑے جنہوں نے میاں نوازشریف اورشہیدبے نظیربھٹو دونوں ہی کوبرطرف کیا ۔اسی طرح مرزااسلم بیگ نے بھی سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے دونوں پارٹیوں کی کشتی میں سواری کی تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کسی ایک کی سائیڈلی جارہی ہے۔جب 12اکتوبر1999کوجنرل پرویزمشرف فوجی بغاوت کے ذریعے سے اقتدارمیں آئے توبھی یہی منظردیکھنے کوملا۔جنرل مشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت ختم کرکے میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیربھٹوکوجلا وطنی پرمجبورکردیا۔90کی دھائی کی طرح 2002میں بھی ایک اورآئی جے آئی ”کنگ پارٹی“ کی صورت میں وجودمیں آئی جس کامقصداس وقت کی سب سے مقبول جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کاایوان اقتدارتک پہنچنے سے راستہ روکناتھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ 90ءمیں سول فوجی اسٹبلشمنٹ گٹھ جوڑ پیپلزپارٹی کونقصان پہنچارہاتھاجبکہ 1999ءمیں میاں نوازشریف اوران کی جماعت کونقصان پہنچایاگیا۔یہ خطرناک کھیل مزیدہولناک اس وقت ثابت ہواجب عوام کی سب سے مقبول لیڈرمحترمہ بے نظیربھٹوکو 2007میںشہیدکردیاگیا۔2002کے الیکشن کی بھی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور جنرل مشرف کے30اپریل 2002کے اپنے آپ کوصدربنوانے کے لیے کرائے گئے نام نہادریفرنڈم کی بھی عدالتی تحقیات ہونی چاہئیں اوراب تو2008کے انتخابات کی بھی عدالتی تحقیقات کرانے کامطالبہ سامنے آچکاہے اس کوبھی دیکھاجائے۔ قوم سارے حقائق جانناچاہتی ہے،اصغرخان کی طرح کوئی توعدالت کادروازکھٹکائے۔

اصغرخان کیس سے تایخ نے ایک نئی کروٹ بدلی ہے۔عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کے ملکی تاریخ میں دوررس نتائج مرتب ہونگے۔ پیپلزپارٹی یان لیگ کواس فیصلہ سے کوئی فائدہ ہویانہ ہوملک کی ان جماعتوں کوفائدہ ضرورپہنچے گاجن کی سیاست خالصتاََ عوام کے لیے ہے اورجواسٹبلشمنٹ کے کھیل کاحصہ بننے کے بجائے براہ راست عوام کی طاقت سے سیاست کرتی رہیں گی۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ سیاست کرنااورملک چلاناسیاستدانوں اورسیاسی پارٹیوں کاکام ہے۔فوج کاکام صرف اورصرف ملک کادفاع کرنا ہے۔ بہم امریکہ،برطانیہ،جرمنی،فرانس کی اقتصادی ترقی وخوشحالی اورمضبوط جمہوریتوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن کبھی ہم نے غورکیا ہے ان ممالک کی بے مثال ترقی اورسیاسی استحکام کی اصل وجہ کیاہے؟جمہوریت صرف اورصرف جمہوریت۔وہاں پرفوج مداخلت نہیں کرتی۔سیاستدان اسٹبلشمنٹ کی چال بازیوں میں نہیں آتے۔ ورنہ ہندوستان میں توکبھی مارشل لالگے؟ کرپشن ،بھوک،بے روزگاری اوربدامنی وہاں بھی توہے پھرفوج جوازبناکرمداخلت کیوں نہیں کرتی؟حددرجہ مداخلت اورچپ کلش توکانگریس اوربھارتیہ جنتاپارٹی میں بھی پائی جاتی ہے اورایک دوسرے کے ایسے ہی دشمن ہیں جس طرح پیپلزپارٹی اورن لیگ لیکن ایک نقطہ پران کابھرپوراتفاق اوراتحادہے اوروہ ہے جمہوریت۔ جو پارٹی جیت جاتی ہے دوسری اسے کھلے دل سے تسلیم کرتی ہے اورپھرمیعاد پوری ہونے تک اس کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔کاش ہمارے ہاں بھی ایساہوتا اورشہیدبے نظیربھٹوکے قول کے مطابق کہ ”جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے“۔سیاسی پارٹیاں اتفاق واتحادکرکے جمہوریت کومضبوط کرتیں اوراسٹبلشمنٹ کے جال میں نہ پھنستیں اگران کوایک دوسرے سے شدیداختلاف پیداہوتاتوانتخابات میں ہراکرجمہوریت کے ذریعے بدلہ لیاجاتا لیکن اسٹبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ نہ کیاجاتا،یہ طریقہ کارنقصان دہ ہے۔

اصغرخان کیس سے ہمیں یہی سبق ملتاہے کہ ہم ماضی کی تلخیاں بھلا کرمیثاق پاکستان پردستخط کردیں۔تمام سیاسی جماعتیں نظریاتی طورپرایک نہ صحیح لیکن جمہوریت کے فروغ کے لیے توایک ہوجائیں اورایک دوسرے کوبرداشت کریں۔ فوج اپنی آئینی حدودمیں رہ کرکام کرے اورآئی ایس آئی اورایوان صدراپنے اپنے سیاسی سیل ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے سیاست سے دوررہیں۔اسٹبلشمنٹ قوم وملک کے بہترین مفادات کی خاطرہرآنے والی جمہوری حکومتوں کے ساتھ عوامی فلاح وبہبودکے کاموں میں خوب تعاون کرے اورجوڑتوڑمیں نہ آئے ۔اصغرخان کیس سے ہم اپنے آپ کو90 ءکی دھائی میں تونہیں لے جاسکتے اورہمیں ایساکرنابھی نہیں چاہیے جوہوگیاسوہوگیا۔اب توپاک فوج کاادارہ بھی آئین پاکستان پرعمل کرکے مضبوط اورتواناہوگیاہے اورسیاست سے کنارہ کش ہوگیاہے۔سال2013کے الیکشن کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ اصغرخان فیصلہ پرعمل کرتے ہوئے جرنیلوں سمیت تمام کرداروں کیخلاف کاروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی گھناﺅنی سازش کاحصہ نہ بن سکے۔ جس نے جتنی بھی رقم لی ہے وہ واپس قومی خزانے میں جمع کرائے اورتمام ذمہ داران کھلے دل سے قوم سے معافی مانگیں اورنئے دورکاآغازکردیں۔اگرہم ایسانہیں کرتے توپھراس ملک میں خونی انقلاب کوآنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔سول ملٹری اسٹبلشمنٹ کی سیاست کواب ہمیشہ کے لےے دفن کرنے کاوقت آگیاہے۔جس پارٹی میں دم ہے تووہ عوامی طاقت کے ذریعے میدان میں آئے الیکشن قریب ہیں۔
Shabbir Ahmed
About the Author: Shabbir Ahmed Read More Articles by Shabbir Ahmed: 7 Articles with 17148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.