دسمبر فول

مولانا محمد الیاس گھمن
کچھ دنوں سے شنید ہے کہ فلاں تاریخ کو دنیا ختم ہوجائے گی ”مایا“ تہذیب میں جو کیلنڈر رائج ہے اس میں آخری تاریخ 21 دسمبر 2012 ہے اس سے آگے کی تاریخ کیلنڈر میں موجود نہیں ۔ اس لیے کچھ مایا نسٹ گھبرا گئے اور 21 دسمبر بوقت 11:11پر دنیا کی تباہی کا انتظار کرتے رہے لیکن جب آنکھیں کھولیں تو دنیا کو باقی پایا ۔

آپ کو یاد ہوگا 1999 کے آخری عشرے میں بھی ایک افواہ اڑائی گئی تھی کہ 2000 میں دنیا ختم ہوجائی گی چونکہ ساری دنیا کا ایٹمی نظام کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے اور 1999 کے بعد 2000 کا ہندسہ کمپیوٹر میں نہیں آرہا اس لیے 2000 میں دنیا کا وجود مٹ جائے گا ۔ سنا ہے کہ ہالی وڈ کے چند احمقوں نے اکٹھے ہوکر 2009 میں ایک فلم بھی ریلیزکی جس میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ 2012 میں دنیا اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی ۔

ہم نے تو ان باتوں کو محض کھیل تماشا سمجھا بلکہ” دسمبر فول“ کا نام دینا مناسب خیال کیا لیکن زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی بے بنیاد خبروں اور ویڈیوز نے کافی ”انسانیت“ کو متاثر کیا لوگ سہم گئے ، کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ، کمزور دل لوگ ہر آن مقررہ تاریخ…… 21 دسمبر 2012 …….پر آنکھیں موند کر موت کا انتظار کرنے لگے ۔ بچے اور خواتین خوفزدہ ہوکر گھروں میں محصور ہوکررہ گئے بلکہ ایک رپورٹ کےمطابق ایسے” افلاطون“ بھی نمودار ہونا شروع ہوئے جنہوں نے کہا کہ ہم نے موت سے بچاؤ کے لیے ایک ”محفوظ گھر “تیا ر کر لیا یعنی وہاں موت نہیں آئے گی ۔فیا للعجب
دسمبر ایک بار پھر الوداع کہہ کر ایک سال کے عرصے کے لیے ہم سے رخصت ہوا اور سالِ نو کی خوشیاں لیے جنوری آچکا ہے یہ چلا جائے گا فروری بھی حسب سابق بیت جائےگا مارچ اپریل الغرض تمام مہینے اپنے دنوں کی گنتی مکمل کر کے چلے جائیں گے قمری مہینے …….محرم صفر …….. یا شمسی مہینے ……… جنوری فروری وغیرہ …. یہ اللہ تعالی کی نشانیاں ہوتے ہیں جن کا تذکرہ اللہ رب العزت نے مختلف مقامات پر کیا ہے ۔ مثلا
ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب ۔
سورۃ یونس آیت 5
وجعلنا اللیل والنھار ایتین ………. لتعلموا عدد السنین والحساب
سورۃ اسراء آیت نمبر 12

اور اسی طرح سورۃ رحمان میں ارشاد باری ہے الشمس والقمر بحسبان
محولہ بالا تمام آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کے حکم سے اپنی منازل طے کرتے ہیں اور ان کے ذریعے دن اور رات کا حساب لگاکر تاریخیں معلوم کی جاتی ہیں ۔

سورج ، چاند ، ستارے ، سیارے ، اجرامِ فلکیہ ، اجسامِ سماویہ ، آسمان و زمین نہ تو خود بنے ہیں اور نہ ان کا نظام خود چلتا ہے بلکہ قادرِمطلق ذات نے ان کو وجود بخشا اور اپنے اپنے کام میں لگا دیا ہے اور یہ اس وقت تک اپنے کام میں لگے رہیں گے جب تک اسے کائتات کی بقاء مقصود ہوئی ۔

ہاں !جب اسے منظور ہوا تو پھر سورج کو لپیٹ دیا جائے گا ، ستارے بے نور ہوجائیں گے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے آسمان میں دراڑیں پڑ جائیں گی زمین ریزہ ریزہ ہو جائے گی یعنی وہ دن آجائے گا جسے قیامت کہتے ہیں اور دنیا نیست ونابود ہو جائے گی ۔

یہاں ایک امر ملحوظ خاطر رہے کہ ہم صرف اس سوچ وبچار میں اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو ضائع نہ کریں کہ دنیا کب ختم ہورہی ہے ؟قیامت یعنی اختتام دنیا کی نشانیاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلادیں ہیں کتب حدیث میں ان کو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے ۔ ہمیں تو اپنی فکر کرنا ہوگی کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے من مات فقد قامت قیامتہ ۔ جو مر گیا اس کی قیامت قائم ہوگئی ۔ وہ خواہ 21 دسمبر ہو خواہ کوئی بھی دن ۔

علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ”الجمع الجوامع“ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا ہے کہ ہرروز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اعلان کرتا ہے من استظاع ان یعمل خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر علیکم ابدا آج اگر کوئی نیک عمل کرسکتا ہے تو کر لے آج کے بعد میں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔

جھوٹے مذاہب کے پیروکاروں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی افواہوں سے دنیا ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کا حتمی اور یقینی علم صرف اور صرف اللہ جل مجدہ کے پاس ہے ۔

حدیث جبریل میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کب قائم ہوگی تو آپ نے فرمایا کہ ماالمسوول عنھا باعلم من السائل جیسے پوچھنے والے کو اس کے آنے کا حتمی اور یقینی علم نہیں ہے اسی طرح مجھے بھی اس کا علم نہیں ہاں البتہ اس کی چند نشانیاں ہیں ۔

جب فخر انسانیت کو اختتام دنیا کا حتمی علم نہیں سونپا گیا تو ننگ انسانیت کے اس بارے میں معین شدہ ایام کیا معنی رکھتے ہیں ؟

ہم مسلمان ہیں الحمد للہ پکے سچے مسلمان ہیں ہمیں اللہ اور اس کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کافی ہیں ۔ ہمیں اس طرح کی افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہییں خود بھی بچنا چاہیے اور باقی انسانیت کو بھی شریعت اسلامیہ قبول کرنے کی دعوت دینی چاہیے ۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو
جو یقیں کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرایا وہ قدم قدم پر بھٹک گئے
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 111132 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.