قاضی حسین احمد پر بے جاتنقید کا جواب

سلیم صافی صاحب کاتعلق جنگ گروپ سے ہے۔وہ جیونیوزپرجرگہ کے نام سے ایک پروگرام بھی کرتے ہیںجبکہ اسی ہی عنوان سے باقائدہ کالم بھی لکھتے ہیں۔ایک صحافی ہونے کے ناطے میں اپنے اس بھائی کی بہت عزت کرتاہوں۔گزشتہ دنوںروزنامہ جنگ میں ان کاایک کالم ”ملی یکجہتی کونسل یاشخصی سیاسی کونسل“کے عنوان سے نظروں سے گزرا۔اپنے اس مضمون میں صافی صاحب نے قومی اوربین الاقوامی سطح پراپنی پہچان رکھنے والی شخصیت محترم قاضی حسین احمدصاحب پرتابڑتوڑحملے کےے ہیں جوکہ ان کی صحافتی پیشہ کے شایان شان نہیں۔اس طرح کے حملے ایک سیاستدان تودوسرے سیاستدان پرکرسکتاہے لیکن ایک پیشہ ورانہ صحافی کویہ زیب نہیں دیتا۔ ان کے پورے کالم میں بات کاایک رخ دکھایاگیاہے اور پورازورقاضی حسین احمدپربے جاتنقیداور ملی یکجہتی کونسل کو بیکارپلیٹ فارم ثابت کرنے پرلگایاگیاہے۔ یہ سچ ہے کہ کسی پارٹی کی ایک روزہ کانفرنس کی بہت اچھے اندازمیں رپورٹنگ توکی جاسکتی ہے لیکن اس کوسمجھانہیں جاسکتا۔لوگ قاضی حسین احمدکومجاہدملت کے نام سے جانتے ہیں۔ان کی اسلام اورعالم اسلام کے لےے اہم ملی ودینی خدمات ہیں۔

صافی صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ دینی رہنماپاکستان کے مسائل کاذکرنہیں کرتے۔حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ پاکستان کے مسائل کاجتناذکردینی رہنماکرتے ہیں شایدہی کوئی سیاستدان کرتاہو لیکن چونکہ میڈیاپرزیادہ ترسیاستدانوں کوہی ٹاک شوزاورانٹرویوزمیں بلایاجاتاہے مذہبی اوردینی رہنماﺅںکووہ اہمیت نہیں دی جاتی اس لےے یہی محسوس ہوتاہے کہ شایددینی رہنما ملک کے مسائل پرچپ کاروزرکھے ہوئے ہیں۔پاکستان بننے کی بات ہویااس کی حفاظت کرنے کی،دینی رہنماﺅں کے کردارپرکسی کوشک نہیں ہوناچاہیے۔ ان کی بڑی خدمات ہیں۔اب بھی ملک کے دینی رہنما تقریروں،تحریروں،جمعہ کے خطبوں،جلسوں اورمظاہروں ہرجگہ اورہرفورم پرپاکستان کے مسائل کاروناروتے ہیں اورقوم کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں سلیم صافی جیسے صحافیوں کویہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔کراچی میں اب تک جتنے دینی رہنماٹارگٹ کلنگ کی نظرہوگئے ہیں اتنے صحافی بھی نہیں مارے گئے۔یہ بات درست ہے کہ میڈیاپاکستان کے مسائل اجاگرکرتارہتاہے کیونکہ یہ پیغام رسانی کابہت بڑاذریعہ ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بعض اوقات میڈیاملک کے مسائل میں اضافہ کابھی سبب بنتاہے اورغلط رپورٹنگ کی وجہ سے بیرونی دنیامیں ملک کے امیج کونقصان پہنچتاہے۔

کالم کااگلا نقطہ ہے کہ دینی رہنماکراچی میں رہتے ہوئے بھی کراچی کے حالات پربات نہیں کرتے اورشرپسندعناصرسے ڈرتے ہیں۔میراخیال ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں جتنے قتل دینی رہنماﺅں کے ہوئے ہیں شایدہی کسی اورکے ہوئے ہوں۔اس کے باجوددینی رہنما بے خوف وخطرڈٹے ہوئے ہیں۔کل کی خبرہے کہ مدرسہ احسن العلوم کے مہتمم شیخ الحدیث مولانامحمداسماعیل صاحب شہیدکردئےے گئے۔ولی خان بابرکے حوالے سے کھل کراگر کسی نے قاتلوں کانام لیاہے تووہ دینی رہنماہیںاوریہ ذمہ داری توہم صحافیوں کی بنتی ہے کہ ہم قاتلوں کوبے نقاب کرکے بریکنگ نیوزدیں۔میڈیاکے کئی اہم اداروں کے ہیڈآفس کراچی میں ہی ہیں۔
اس لیے میڈیاکوبھی کراچی میں رہتے ہوئے بغیرکسی خوف وخطراورمصلحت کے اپناکام جاری رکھناچاہےے اور کھل کر بھتہ خوروں اورٹارگٹ کلرزکانام لیناچاہےے۔ملی یکجہتی کونسل کی کانفرنس اتحادامت کے حوالے سے تھی۔یہ کانفرنس پاکستان کے مسائل کے حوالے سے نہیں بلائی گئی تھی کہ اس میں صرف پاکستان کے مسائل پربات کی جاتی لیکن اس کے باجوددیگررہنماﺅں نے کھل کرپاکستان کے مسائل پربات کی۔جماعت اسلامی کے امیرسیدمنورحسن کی توپوری تقریرہی ملکی مسائل،آئندہ انتخابات اوردہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے تھی۔جب قاضی صاحب کی پارٹی کے امیرنے اتنی تفصیل سے ملکی حالات پربات کی توقاضی صاحب دوبارہ وہی باتیں کیوں دھراتے۔پھربھی سلیم صافی اگرضرورت محسوس کرتے ہیں توقاضی صاحب سے اپنے پروگرام جرگہ میںبلاکرجتنی چاہیںمفصل گفتگوکرواسکتے ہیں۔ جب بات عالم اسلام کی ہورہی ہوتوپاکستان بھی تواس میں شامل ہے۔اس لےے قاضی صاحب نے اتحادامت کی بات کرکے کانفرنس کی روح کوبرقراررکھا۔ہم صحافی حضرات بھی تواکثراوقات گفتگوکرتے ہوئے اہم حقائق کاتذکرہ کرنا بھول جاتے ہیں ۔کوئی بھی انسان ایک ہی تقریرمیںساری باتیں نہیں کرسکتا۔جس طرح خبروں میں کئی اہم خبریں ہیڈلائنزکاحصہ نہیں بنتیں ایسے ہی ضروری تونہیں کہ ایک ہی تقریرمیں ساری باتیں سماجائیں۔

سلیم صافی صاحب آگے چل کرلکھتے ہیں کہ قاضی صاحب اپنی عمرکے جس حصے میں داخل ہوگئے ہیںوہ اپنی زندگی کوخطرے اورجماعت اسلامی کوآزمائش سے دوچارکررہیں۔انہیں اپنی عمرکے پیش نظراب سیاست سے رٹائرہوناچاہیے۔اگربقول سلیم صافی انسان کومحض اپنی عمرکی وجہ سے اپنی سرگرمیاں ترک کردینی چاہئیں تو سلیم صافی یہ مشورہ دنیائے صحافت کے دوعظیم ناموں میرشکیل الرحمن اورمجیدنظامی کوبھی دیں کیونکہ ان کی بھی توکافی عمرہوگئی ہے (اللہ تعالیٰ ان کوتندرستی وہزارسالہ زندگی دے آمین)۔آج یہ دونوں حضرات بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اپنے ادارے چلارہے ہیں۔اگرعمرانسان پراثراندازہوتی ہے توپھرسیدعلی گیلانی جیسے معمرشخص تحریک آزادی کشمیر میں روح کس طرح ڈالے ہوئے ہیں۔ سترسالہ ولادمیرپیوٹن کس طرح روس جیسے ملک کوچلارہاہے۔نیلسن منڈیلا نے ایک طویل سیاسی زندگی گزاری لیکن آج 90سال کی عمرمیں بھی وہ پہلے کی طرح متحرک ہیں۔بل کلنٹن سترسال،جارج ڈبلیوبش66سال،ٹونی بلیئرساٹھ سال، مہاتیرمحمد87 سال۔ یہ سب لوگ بظاہرسیاست سے کنارہ کش ہوگئے ہیں لیکن عملی طورپرآج بھی سیاسی سرگرمیوں میں ایکٹونظرآتے ہیں۔

بل کلنٹن نے حال ہی میں اوباما کے دوبارہ صدرمنتخب ہونے میں اہم رول اداکیااوران کی الیکشن مہم چلائی۔نیلسن منڈیلاعمررسیدہ ہونے کے باجودایڈزکیخلاف مہم چلارہے ہیں۔گورڈن براﺅن اورٹونی بلیئررٹائرمنٹ کے بعداقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کام کررہے ہیں۔پاکستان کے عبدالستارایدھی کوہی دیکھ لیں، جن کاانسانی خدمت کے حوالے سے ایک نام ہے ،ایک پہچان ہے۔کیاان کوبھی خدمت انسانی کے کام سے رٹائرہوناچاہےے۔چیف الیکشن کمشنرفخرالدین جی ابراھیم اوردیگرجج حضرات اوروکلاءکی ایک بڑی کھیپ بھی عمررسیدہ ہے لیکن تجربہ کارہے پھران کوبھی رٹائڑہوناچاہےے۔ آپ الطاف حسین، ولی خان،میاں نوازشریف،چوہدری شجاعت حسین،پرویزالٰہی ،آصف زرداری ،شاہ محمودقریشی،خورشیدقصوری کوہی دیکھ لیں وہ آج بھی سیاست میں متحرک ہیں، ان کوبھی مشورہ دیں کہ وہ سیاست سے رٹائرہوجائیں کیونکہ ان کی سیاست سے ملک کواب تک توکوئی فائدہ نہیں پہنچا۔آپ یہ مشورہ عمران خان اورجاویدہاشمی کوبھی دیں وہ بھی تواب نوجوان نہیں رہے لیکن قاضی صاحب کی طرح نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں ۔

دوسری بات آپ نے یہ کہی ہے کہ قاضی صاحب کوجماعت اسلامی کی بنیادی رکنیت سے بھی استعفی دے دینا چاہےے۔یہ ایک مضحکہ خیزبات کی ہے۔جماعت اسلامی دینی اورسیاسی تحریک ہے جوکہ علامہ اقبالؒ کے فلسفہ کی طرح دین کوسیاست سے الگ نہیں سمجھتی۔خود حضورنبی کریم نے سیاست کی،قرآن پاک کی صورت میں آئین دیا،قوم بنائی ،ریاست کی بنیاد رکھی اورحکومت کی۔اگردین سیاست سے جداہوجائے توپھرچنگیزی ہی رھ جاتی ہے۔ جس طرح صحافت سے اگرغیرجانبداری کونکال دیا جائے توتمام صحافتی اصولوں کاجنازہ نکل جاتاہے ۔جماعت اسلامی قاضی صاحب کاگھرہے اورکوئی اپنے گھرکوکیسے چھوڑسکتاہے۔پھرقاضی صاحب اس جماعت سے استعفیٰ کیوں دیں جس نے ان کوقاضی حسین احمدبنایا۔ہاں البتہ اگران کے استعفیٰ دینے سے یہ امت متحدہوسکتی ہے توپھروہ جماعت اسلامی کی رکنیت چھوڑنے کے لےے تیارہیں۔نہیں خیال کہ اس سے کوئی فرق پڑے گا۔میری معلومات کے مطابق قاضی صاحب کے دل کے تین بائے پاس ہوچکے ہیںلیکن اس کے باجودآپ دیکھیں وہ ملک وملت کے لےے کام کررہے ہیں اوربہت ایکٹوہیں۔ان پرجب خودکش حملہ کیاگیاتووہ گھبراکر الٹے پاﺅں واپس نہیں گئے اسی جگہ ڈٹے رہے اورانہوں نے جس پروگرام میں شرکت کرناتھی وہاں اس واقعہ کے باجودگئے۔کیاپاکستان میں ایساکوئی لیڈرہے جس پرخودکش دھماکہ ہواوروہ پھربھی اپنی جگہ ڈٹارہے،وہاں سے ایک انچ تک نہ ہلے۔سلیم صافی آگے لکھتے ہیں کہ قاضی صاحب نے اپنی تقریر میں کراچی،بلوچستان،دہشت گردی اوروزیرستان کاذکرنہیں کیا۔کیایہ ضروری ہے کہ ایک کانفرنس جس کاموضوع ہی اتحادامت کانفرنس ہواورجہاں پرپوری اسلامی دنیاسے مندوبین شریک ہوں وہیں پرہم موضوع سے ہٹ کرکوئی اوربات کریں؟ صافی صاحب کوشایدجلدی بھول جانے کی عادت ہے۔میں ان کی توجہ اس امورکی طرف دلانا چاہتاہوں کہ کراچی،بلوچستان،وزیرستان اوردہشت گردی کی جنگ میں جتنا قاضی حسین احمد اوران کی پارٹی جماعت اسلامی بولی ہے شاید ہی کسی اورپارٹی نے اس طرح کا رول اداکیاہو۔قاضی حسین احمدنے اسی سال9ستمبرکوجماعت اسلامی کراچی غربی کے امیرمحمداسحاق خان اورامیرالعظیم کے ہمراہ کراچی کے حالات پر لاہورپریس کلب میں خصوصی طورپرپریس کانفرنس کی۔جس میں انہوں نے صرف کراچی کے حوالے سے بات کی ۔اس کے بعدانہوں نے کراچی کادورہ بھی کیا۔

خودکش حملوں پرقاضی صاحب اس سے پہلے بھی اوراب جب حال ہی میں ان پرحملہ ہواتھا لب کشائی کرچکے ہیں۔کیاباربارایک ہی موضوع پربات کرنا کالم لکھنایاپروگرام کرنااچھالگتاہے اوروہ بھی ان لوگوں کے سامنے جوپہلے سے سب کچھ جانتے ہوں۔آپ نے کہا کہ کانفرنس میں فرقہ واریت کے خاتمہ کے حوالے سے بات ہونی چاہےے تھی ۔کانفرنس کااعلامیہ شایدسلیم بھائی کی نظرسے نہیں گزرا۔گزارش ہے کہ اس کامطالعہ کیاجائے۔جب ہم لفظ ”اتحاد“اور”یکجہتی“بولتے ہیں توان کامطلب کیاہے۔؟اتحادتب ہی ممکن ہے جب فرقہ واریت کاپرچارنہ ہو۔جب اتحادہوگاتوفرقہ واریت ازخودختم ہوجائے گی۔سلیم صافی صاحب ایک منجھے ہوئے صحافی ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں شیعہ سنی کاکوئی جھگڑانہیں ،صرف ہمارے دشمن ہمیں لڑارہے ہیں۔اس محرم الحرام کوہی دیکھ لیں کہ کس طرح سنیوں نے اپنے شیعہ بھائیوں کوویلکم کیااوران کواپنے مسلک کے مطابق محرم الحرام کاعشرہ منانے میں مدددی۔

آپ نے کہا کہ امریکی زندگی سے پیارکرتے ہیںوہ خودکش حملے نہیں کرسکتے ۔درست کہاآپ نے۔امریکی خودکش حملے کرتے نہیں بلکہ کرواتے ہیں۔ امریکیوں کوپیارصرف اپنی زندگی سے ہے دوسروں کی زندگی سے نہیں ۔ڈرون حملوں میں معصوم عورتوں اوربچوں کومارکرامریکہ قتل عمد کامرتکب نہیں ہورہا تو اور کیا کررہا ہے؟ کیاامریکہ نے عراق،افغانستان اورویت نام میں انسانون کاخون نہیں بہایا۔ہیروشمااورناگاساکی پرایٹم بم کس نے برسایا؟ کیاامریکی ڈرون طیارے خودکش بمباربن کرقبائلیوں کوقتل نہیں کررہے؟حقیقت یہ کہ امریکی اگرخودبنفس نفیس یہ کاروائی نہیں کررہے لیکن وہ ہم ہی میں سے خودکش بمباروں کوتیارکرکے اکساکرہمارے اوپرحملے کروارہے ہیں۔اورجس طرح میرجعفراورمیرصادق کی طرح غدارہرجگہ مل جاتے ہیں ایسے ہی امریکہ کوخودکش بمباربھی باآسانی مل جاتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ سارے ہی امریکی زندگی سے پیارنہیں کرتے ۔امریکہ میںبھی ایک بڑی تعدادایسے لوگوں کی ہے جوزندگی سے حددرجہ بیزارہوچکے ہیں اورچھوٹی چھوٹی باتوں پرخودکشیاں کرلیتے ہیں اس لےے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارے ہی امریکی ہی زندگی سے پیارکرتے ہیں۔خودمغربی تہذیب روبہ زوال ہے اوراپنے خنجرسے آپ خودکشی کررہی ہے۔ملی یکجہتی کونسل مولانافضل الرحمن کے ایم ایم اے بحال کرنے کے فیصلے سے بہت پہلے بحال ہوچکی تھی ۔ایم ایم اے توٹھیک طرح سے تاحال بحال نہیں ہوسکی۔مولانافضل الرحمن صاحب کی چنددن قبل ہی بیان آیاہے کہ ابھی مجلس عمل بحال نہیں ہوئی کسی کاانتظارہورہاہے۔ ملی یکجہتی کونسل میں ایک مسلک کی نہیں بلکہ تمام مسالک کارنگ نظرآتاہے۔کونسل کے جس پروگرام میں بھی جائیں وہاں ہمیں یکجہتی ہی یکجہتی نظرآتی ہے ۔

سلیم صافی صاحب معلومات میں اضافہ کی غرض سے عرض ہے کہ جماعت اسلامی کی ایسی کوئی روایت نہیں کہ سابق امیرفراغت کے بعدمکمل طورپرلاتعلق ہوجاتاہے ۔ایساہرگزنہیں ہے۔جماعت کاامیرصرف اپنی امارت سے لاتعلق ہوجاتاہے اورجماعتی فیصلوں پراثراندازنہیں ہوسکتاالبتہ جماعت کی باقی ماندہ سرگرمیوں میں وہ پہلے کی طرح ایکٹورہتاہے ۔شوریٰ کے اجلاس میں رہنمائی کے لیے اسے بلایاجاتاہے،مختلف مقامی جماعتیں اپنے پروگرامات میں شرکت کے لےے اسے بلاتی ہیں۔وہ جماعتی انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالتاہے۔مرکزی اورصوبائی شوریٰ کے لیے اپناووٹ کاسٹ کرتاہے۔

صافی صاحب سیاستدان بننے کی کوشش نہ کریں،صحافی ہی رہیں توبہترہے۔کسی کی ذات پرحملے اورانہیں یہ مشورہ دینا کہ وہ سیاست چھوڑدیں،جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں ،جہادوقتال کی تعبیروتشہیرکریں،یہ کریں وہ کریںوغیرہ ایک صحافی کوزیب نہیں دیتا۔ ہرشخص اپنے آپ کوبہت اچھی طرح جانتاہے۔ویسے بھی قاضی صاحب کوشہرت کاکوئی شوق نہیں۔انہوں نے بذات خودجماعت اسلامی کے دوبارہ امیرمنتخب ہونے کے پروسیس میں حصہ نہیں لیاتھا۔ملی یکجہتی کونسل اتحادامت اورفرقہ واریت کے خاتمہ کاایجنڈالے کرنکلی ہے اس کے علاوہ اس تنظیم کاکوئی مقصدنہیں ۔قاضی صاحب دوکشتیوں کی سواری نہیں کررہے وہ ایک ہی کشتی کے سوارہیں اوروہ کشتی ہے اسلام کی کشتی جواتحادامت کاایجنڈالےے اپناسفرجاری رکھے ہوئی ہے۔ملک میں اسلامی معاشرہ کے قیام کے لےے مختلف مراحل سے گزرناپڑتاہے۔دوکشتیوں کی سواری تووہ کرتے ہیں جوباربارپارٹیاں بدلتے ہوں۔زرداری صاحب توایک کشتی کے بجائے متعددکشتیوں پرسوارہیں،وہ کئی پارٹیوں کوساتھ لیے حکومت کررہے ہیں۔سلیم صافی جیسے صحافیوں کوچاہیے کہ اگروہ دینی جماعتوں کاساتھ نہیں دے سکتے توکم ازکم ان پربے جاتنقیدتونہ کریں۔
Shabir Ahmed
About the Author: Shabir Ahmed Read More Articles by Shabir Ahmed: 7 Articles with 17150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.