ڈاکٹر قدیر کی قیادت میں اگر نواز اور عمران اکٹھے نہ ہوئے تو

تحریر : محمد اسلم لودھی

مولانا فضل الرحمان کی شخصیت اور زبان ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہی ہے لیکن کبھی کبھار وہ بہت پتے کی بات کہہ جاتے ہیں مشرف دور انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کو مسائلستان بنا کر رکھ دیا گیا ہے اس وقت واقعی مجھے اس بیان پر تحفظات تھے کیونکہ اس وقت پھر پاکستان اقتصادی اور معاشی ترقی کے اعتبار سے ایک باوقار ملک تھا نہ صرف لوگوں کو روزگار حاصل تھا بلکہ فیکٹریاں کارخانے ، سٹاک مارکیٹس ، کاروباری ادارے خوب چل رہے تھے لیکن جب روٹی کپڑا مکان کا جھوٹا نعرہ لگا کر غریب عوام سے ہر الیکشن میں ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی ہے اس نے اپنی نااہلی ، حد سے بڑھتی ہوئی کرپشن اور اقربا پروری کی بدولت نہ صرف کاروباری اداروں ، فیکٹریوں کارخانوں ، سٹاک مارکیٹوں میں صف ماتم بچھا دیا ہے بلکہ گھر گھر بدحالی ، غربت کی یکساں تقسیم کے ساتھ ساتھ خود کشیوں کے میڈل بھی تقسیم کردیئے ہیں ہر شخص ایسی ناکام ترین جمہوریت پر سو مرتبہ لعنت بھیجنے پر مجبور ہوچکا ہے اس پر وزیر اعظم سمیت پیپلز پارٹی کے وزراءفخریہ فرماتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر حکومتی ایوانوں میں واپس آئیں گے گویا وہ اپنے عوام کش اقدامات اور پالیسیوں کو بھی عوام کی خدمت ہی تصور کررہے ہیں ۔ ان کارکردگی کا پول انٹرنیشنل ٹرانسپرنسی کی رپورٹ تو کھول چکی ہے جس کے مطابق گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں گیارہ سو ارب کرپشن کی نظر ہو چکے ہیں لیکن نیب کا یہ دعوی کہ ملک میں روزانہ چھ سے سات ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے ، حقیقت حال کی عکاسی کررہا ہے۔اسی دن کے اخبارات میں ایک خبر یہ بھی شائع ہوئی ہے کہ300 ارکان پارلیمنٹ نے انکم ٹیکس ہی جمع نہیں کروایا جبکہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑ ے زمیندار اور جاگیردار تو پہلے ہی ٹیکس دینے سے انکار ی ہیں بااثر نادہندگان سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے ان لوگوں پر مزید ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کا بوجھ لاد یا جاتا ہے جو پہلے ہی ٹیکس ادا کررہے ہیں ۔ چند ماہ پہلے وزیر اعظم نے فرمایا تھاکہ اس مرتبہ سردیوں میں گھریلو صارفین کو بلا تعطل سپلائی یقینی بنائی جائے گی ۔افسوس تو اس بات ہے کہ وزیر اعظم کے بیان کے برعکس پہلے جو تھوڑی بہت گیس آتی تھی وہ بھی ختم ہوچکی ہے اب گھر یلو صارفین "جمہوریت کے حسن" کے حقیقی معنی یقینا سمجھ گئے ہوں گے اب کھانا کیسے پکایا جائے ، نہانے کے لیے گرم پانی کہاں سے لایا جائے حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔، لکڑیوں کے ٹال تو پہلے ہی ختم ہوچکے ہیں اس پر سلنڈروں میں بکنے والی گیس کی نرخ بھی اس قدر بڑھا دیئے گئے ہیں کہ ایک ہزار روپے کا سلنڈر بمشکل ایک ہفتہ بھی نہیں نکالتا گویا جہاں مشرف دور میں گیس کا جو بل چار پانچ سو روپے آتا تھا وہاں اب دو ہزار سے بھی تجاوز کرچکا ہے گیس پھر بھی میسر نہیں ۔ بل باقاعدگی سے آتا ہے حکومت اور اوگرا کی ملی بھگت سے سی این جی کے تین ہزار سے زیادہ اسٹیشن تین تین کروڑ روپے رشوت لے کر بنا تو دیئے گئے ہیں اور گیس سستی دیکھ کر لاکھوں افراد نے اپنی گاڑیوں کو سی این جی پر بھی منتقل کروا لیا ہے جس ملک میں روٹی پکانے کے لیے گیس میسر نہیں جہاں فیکٹریاں اور کارخانے گیس کی قلت کی وجہ سے بند ہوں وہاں امیر زادوں کی گاڑیوں کو سی این جی گیس فراہم کرنے کا جواز کیا بنتا ہے ۔جو لوگ پندرہ بیس لاکھ روپے کی گاڑی خرید سکتے وہ دو سو روپے لیٹر بھی پٹرول خرید بھی سکتے ہیں۔سی این جی کے ناقص سلنڈر موت بانٹے کا فریضہ الگ انجام دے رہے ہیں جن کے پھٹنے سے بسوں اور ویگنوں میں سوار لوگ زندہ جلنے کی اذیت ناک موت مرر ہے ہیں لیکن جمہوریت ہی بہترین انتقام کانعرہ لگانے والے حکمرانوں کو کسی بھی طرح رحم نہیں آتا۔اس سے برا وقت اور کیا آئے گا کہ میرے دونوں بیٹے بجلی اور گیس کی بندش کی وجہ سے فیکٹریاں بند ہونے کی بنا پر بے روزگار ہوکر گھر واپس آ چکے ہیں جن کو دیکھ کر کلیجہ مونہہ کو آتا ہے کہ اب گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے اور پیٹ کی آگ کیسے بجھے گی مجھے تو پہلے بھی بے روزگاروں کے مسائل اور پریشانیوں کا ادراک تھا لیکن اب میں بھی خون کے آنسو رو نے والوں میں شامل ہوگیا ہوں ۔ بے رحم پاکستانی حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہزاروں لوگ خودکشی کریں یا لاکھوںبے روزگار ہوکر گھر بیٹھ جائیں وہ تو اب بھی فخریہ انداز میں جمہوریت بہترین انتقام کا راگ الاپ رہے ہیں ۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بات بالکل صحیح ہے کہ اگر محب وطن سیاسی جماعتوں نے اتحاد نہ کیا تو پیپلز پارٹی ایک بار پھر 16 فیصد ووٹ لے کر پاکستانی قوم کو ذبح کرنے کے لیے برسراقتدار آجائے گی افسوس تو اس بات کا ہے کہ نواز شریف ، عمران خان کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں اور عمران ، نواز شریف کو پچھاڑنے کا عزم رکھتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ دونوں دانشمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ( یہ ایسی غیر متنازعہ اور محب وطن شخصیت ہیںجن کا عمران اور نواز شریف دونوں ہی اعتراف کرتے ہیں)کی قیادت میں اکٹھے ہوجائیں اگر جماعت اسلامی بھی اپنا وزن شامل کردیتی ہے تو پاکستان کو کم سے کم پیپلز پارٹی کے عذاب سے نجات دلائی جاسکتی ہے ۔ وگرنہ واقعی پیپلز پارٹی کے اگلے دور میں انسانوں کو گھاس بھی کھانے کو نہیں ملے گی۔ پیپلز پارٹی کے خود ساختہ سنہرے دور میں 55 روپے لیٹر بکنے والا پٹرول 102روپے ، امریکی ڈالر 53سے 96 روپے ، بجلی چھ روپے سے 13 روپے فی یونٹ ، آٹا 11 روپے سے 36 روپے فی کلو ، گھی 60 روپے سے 180 روپے کلو ، چاول 60روپے سے130 روپے کلو تک پہنچ چکے ہیں جبکہ بجلی کا بل چار سو سے چار ہزار روپے تک ، گیس کا بل ( جو اب آتی ہی نہیں ) پانچ سو سے دو ہزار روپے ماہانہ تک پہنچ چکا ہے باقی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اس نام نہاد جمہوری دور میں 300 فیصد اضافہ حکومت خود تسلیم کرتی ہے اب جبکہ ہر جانب ہاہاکار اور بے روزگاری ، غربت کی وجہ سے خود کشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ عروج پر ہے تب مولانا فضل الرحمان کی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان کو نااہل ،کرپٹ حکمرانوں نے مسائلستان بنا کے رکھ دیا ہے بلکہ رہی سہی کسر نکالنے کے لیے متوقع الیکشن میں پھر برسراقتدار آنے کے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 115343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.