خادم اعلیٰ کے بڑے خادم سے ملاقات

انسان چاہے جتنا بھی بڑا آفیسر سیاستدان یا صحافی بن جائے اور جتنا چاہے خود کو بدلنے کی کوشش کر لے مگر چند ایک چیزیں ایسی ہیں جو کبھی نہیں بدل پاتی،وہ یہ کہ انسان ایک ضلع کا حاکم ہو ،ملازم ہو، آفیسر ہو،ڈویژن کاہو،صوبہ کا ہو یا ایک ریاست کا جب وہ ڈیوٹی پر ہوگا تو اس کا رویہ رہن سہن و چال چلن کچھ اور ہوگا لوگ جھک جھک کر سلام کر رہے ہونگے کئی ملاقات کیلئے بے قرار ہونگے کئی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہونگے تو کئی خوف کے مارے کانپ رہے ہونگے اور جب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہوگا تو خود بخود ہی تھوڑا تبدیل ہوجائے گا اور جب وہ اپنے گاﺅں قصبہ یا شہر میں ہوگا تو اس کی حالت کچھ اور ہوگی اور جب وہ اپنے گھر میں ہوگا تو مکمل طور پر ہی اس کے برعکس ہوگا یعنی کہ اگر وہ باہر شیر کی طرح دھاڑتا ہے تو گھر میں بلی کی طرح بولے گا وہ لوگو ں کیلئے تو دہشت کی علامت ہوگا مگر گھر میں کسی کا اِسے احترام کرنا ہوگا تو کوئی اس کیلئے دہشت کی علامت ہوگا اور کوئی اس کا احترام کرے گا مگر باہر سے ذرا ہٹ کے اور جب وہ اپنے بچپن کے دوستوں یا بزرگوں کے ساتھ ہوگا تو بھی ذرا مختلف ہی ہوگا کیونکہ وہ جو کچھ بھی ہوگا مگر اپنے اہل خانہ ، بچپن کے دوستوں اور اپنے بچپن کے بزرگوں کے لئے ویسا ہی ہوگا جیسا بچپن میں ان کے ساتھ رہا کرتا تھا اس لئے اس کے بچپن کے دوستوں یا برگوںکو جب وہ صحافی سیاست دان یا آفیسر مل جائے تب بغیر کسی ڈر خوف کے اپنا سارا دکھ سکھ پھولتے ہیں اور ساتھ یہ بھی بول دیتے ہیں کہ اگرمیرے محسن تونے کوئی ایسا ویسا کیا تو ڈانٹوں گا ،تو جو کچھ بھی ہے لوگوں کیلئے ہے مجھے ویسا ہی لگتا ہے جیسا بچپن میں تھا ،میں گزشتہ روز اپنے گاﺅں میںتھاکہ کچھ ایساہی میرے ساتھ بھی ہوگیامیری ملاقات اچانک میرے ایک انتہائی قابل احترام بزرگ سیاستدان(ویسے تو یہ جوان ہیںمگربزرگ کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ خود سے بڑے یا بڑوں کی طرح شفقت دینے والے بزرگ ہی ہوتے ہیں) مسلم لیگ نواز گروپ کے ممبر پنجاب اسمبلی سردار واجد علی ڈوگر سے ہو گئی وہ اپنے ساتھ مجھے ڈیرے پہ لے گئے ہماری باتیں ابھی شروع ہی ہوئی تھیں کہ مسلے مسائلوں سے دوچار لوگوں کو آنا جانا بھی شروع ہوگیاہر ایک کے بعد دوسرا آتا وہ جو کہتا کر دیا جاتا جبکہ کچھ کو مشورے دیئے جاتے رہے سردار صاحب چونکہ ایک دیہاتی حلقہ کے ایم پی تھے اس لئے ان کا زیادہ تر واسطہ دیہاتی اور سیدھے سادھے لوگو ں سے پڑ رہا تھا جو دیکھنے میں تو سیدھے سادھے ہوا کرتے تھے مگر بات پوچھتے یا کام کرواتے وقت بال کی کھال اتار کے رکھ دیتے تھے بال کی کھال اتارنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بہت بڑے دانشور تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاگل کر دیتے تھے اور پھرچھوٹی چھوٹی باتوں پر اظہار ناراضگی ،توبہ،اس دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ ان کی نسبت شہری علاقوں کی سیاست انتہائی آسان ہے کیونکہ کوئی بھی بات یہاں کے لوگوں کی نسبت شہری باسیوں کی سمجھ میں جلد آجاتی ہے جبکہ انہیں سمجھانا اور پھر آگے سے ان کی طرح طرح کی باتیں سننا انہیں برداشت کرناپھر ان کے کام اور ساتھ خاطر تواضع بھی کرنامجھے ایک پورا ملک چلانے کے برابراور بہت ہی زیادہ حوصلے اورذہانت کاکام لگ رہا تھایہ سب کرتے کرتے جب وہ اٹھ کر ایک کمرے کی طرف جانے لگے تو ایک صاحب نے آواز دی کہ ،سردار صاحب کِتھے پئے جاندے جے کوئی ساڈی وی سن لو تے کوئی ساڈا کم کیتی جاﺅ؟سردارصاحب نے جواب دیا کہ محترم اجازت ہو تو ناشتہ کرلوں،یہ جملہ سن کے مجھے علم ہوا کہ سردار صاحب نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کھایا تھا کہ لوگو ںکے کاموں میں لگے ہوئے تھے اس سے مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ بھی تو سیاستدان ہی ہیں جو کھانا بھی اپنے ووٹرز کی اجازت سے اور کام کرکے کھاتے ہیںاور وہ بھی سیاستدان ہی ہیں جنہیں ڈھونڈنا ہی سمندر سے سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے جن کا ہر وقت ہی موبائل آف رہتا ہے جن کی زیارت بھی ووٹروں کو پانچ سال بعد الیکشن پر ہی ہوتی ہے ،جو لوگوں کو نوکریوں کا جھانسہ دے کر لاکھوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں،جو لوگوں پر جھوٹے مقدمے بنوا کر ان کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں،جو چوروں ڈکیتوں کی سر پرستیا ں کرتے ہیں،جو لوگوں کے گھروں میں ڈاکے ڈلواتے ہیں اورجو حج کروانے کے نام پر لوگوں کے لباس تک اتار کر انہیں دردر کا بھیکاری بنا دیتے ہیں پھر وہ الیکشن کیسے جیت جاتے ہیں؟یہ سوال کافی دیر تک میرے دماغ میں اُبلتا رہا اتنے میں سردار صاحب نے ناشتہ بھی کر لیااور پھر اسی ہی کام میں لگ گئے جس کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ سوال میں نے ان سے کردیا جس پر انہوں نے کہا آپ کے اس سوال کا جواب میں نہیں دے سکتا لہذا اس سوال کا جواب میرے حلقہ کے کسی دوسرے بندے سے پو چھیںکا کہتے ہوئے وہ پھر اپنے کام میں لگ گئے تو میں اٹھا اور یہی سوال اس ڈیرے کے سامنے روڈ پرپاس سے گزرتے ہوئے ایک معمر شخص سے کر دیا جس پر وہ ڈرتے ڈرتے بولا کہ بیٹاجن کے بارے میں آپ نے پوچھاوہ لوگوں کو بلیک میل کرکے ووٹ ڈلواتے ہیں جو کسی بھی طرح کی ہو سکتی ہے جس پر میں خاموشی سے واپس آکر بیٹھ گیااتنے میں سردار صاحب کے پاس سے بھی لوگو کا ہجوم کم ہوا تو ہم نے اپنی باتیں شروع کردی جو سب کی سب یہاں بتاناتو ناممکن ہیں مگر ان میں سے جتنی بھی ہوسکیں اپنے قارئین کو ضرور بتاﺅں گا خیر بہت سے سوالات ہوئے اور بہت سے جوابات ملے اس دوران ان کا کہنا تھا کہ وفاق نے ہماری مقبولیت کا جنازہ نکالنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے اور کر رہا ہے میں نے کہا وہ کیسے تو انہوں نے بتایا جتنے بھی محکمے وفاق کے انڈر ہیں ان میں ہماری نہیں سنی جاتی بلکہ وہاں وہی کیاجاتا ہے جس کا وفاق کی جانب سے حکم ملتا ہے اور وفاق محض اس بات پہ ڈٹا ہوا ہے کہ ملکی معیشیت کی تباہی کی کوئی بات نہیں جیسے بھی ہو اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرواس دوران انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ میں اپنے حلقہ میں گیس اور گراﺅنڈ کیلئے تین بار وزیر اعظم کے پاس جا چکا ہوں مگر تا حال کوئی مثبت جواب نہیں مل پایا میری اس کوشش کے باوجود میرے حلقہ کے بہت سے لوگ مجھ سے ناراض ہیںوہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس نے کوشش نہیں اگر کی ہوتی تو مل جاتا مگر میں اس لئے بے بس کہ مسلم لیگی ہوں اورجو مجھے ملا وہ صوبائی حکومت کی جانب سے ملا وہ میں نے اپنے حلقہ پے صرف کردیا خیر باتیں تو بہت ہوئیں مگر میںبات ختم کرتا ہوںاس وضاحت کے ساتھ کہ میں نے متذکرہ بالا جو تحریر کیا یہ نامیں نے ذاتی تعلق داری کی بنا پر کیا اور ناہی اس میں کسی بھی قسم کا کوئی لالچ شامل ہے یہ وہ میں نے لکھا جو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اس لئے کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے اگریقین نا آئے تو خود وہاں جا کے دیکھا اور سناجا سکتا ہے ۔
Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 38568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.