عدلیہ سے پوچھنے کے بجائے اپنی حکومت سے پوچھو

پاکستان پیپلز پارٹی نے جس انداز سے محترمہ کی برسی منائی اور جس طرح کا پنڈال سجایا گیا اور جس طرح کے تقریریں کی گئی اس سے تو یہی لگتا تھا کہ یہ کوئی تعزیتی جلسہ نہیں بلکہ کسی کو کوئی خفیہ پیغام دینے کا کھلا اور واضح اشارہ تھا ایک بات جو چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی تقریر میں حیران کن اور غیر منطقی تھی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی حکومت کے بجائے عدلیہ سے اپنی والدہ کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی ڈیمانڈ کر دی کے ان کی والدہ کے قاتلوں کو سزا دلوائی جائے جو کہ قانون نافذ کر نے والے اداروں کی تحویل میں ہیں اور کیا ہی اچھا ہوتو کہ وہ عدلیہ سے یہ گلہ کرنے کے بجائے وہ اپنی حکومت کی محترمہ بی بی شہید کے قتل کی پیش رفت کے بارے میں ہونے والی کارکردگی کا ذکر کرتے تو بہتر ہوتا انھوں نے توتمام ملبہ عدلیہ پر ڈال کر اپنی حکومت کو ان سوالوں سے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں اور عوام کے ذہنوں میں ہیں بچانے کی کوشش کی ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکروں کے ذہنوں میں یہ سوالات پانچ سال سے موجود ہیں کہ اگر ہماری پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہوتے ہوئے محترمہ کے قتل کو بے نقاب نہیں کیا جاسکتا تو پھر دوسری حکومتوں سے اس معاملے میں کسی پیش رفت کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے جیالوں کے ذہنوں میں اب اس بات کا بھی ڈر پیدا ہو چلا ہے کہ قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کی طرح محترمہ کے قاتلوں کا سراغ بھی نہیں لگایا جا سکے گا جیالے اپنی محبوب قائد کے قاتلوں کو بے نقاب دیکھنا چاہتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ عدلیہ کو سی این جی اور دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہے لیکن محترمہ کے قاتلوں کو بے نقاب کون کرئے گا ان کو سزا کون دے گا اس بات کا عکاس ہے کہ ان کا اپنی حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے کیونکہ تمام تحقیقاتی ادارے ان کی حکومت ہونے کی وجہ سے ان کے کنٹرول میں ہیں وہ اس قتل کا سراغ لگوا سکتے ہیں اور قاتلوں کو بے نقاب کر کے ایک عام پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے کے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا جواب بھی دے سکتے ہیں عوام جانتے ہیں کہ محترمہ کے قتل کے سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے اور اس بات کے معترف عوام اور حکمران دونوں طبقات ہیں کہ بھٹو شہید کاکیس ری اوپن کر کے عدلیہ نے اپنی پوزیشن کافی حد تک واضح کر لی ہے اب اس کیس کو عدلیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے التواکا شکار کر کے اس کا الزام عدلیہ پر لگا دینا کسی صورت درست نہیں ہے سی این جی اور دال چینی کے بھاؤ کا اگر حکمران اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کو خیال نہیں تو عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے عدلیہ نے ان کا خیال کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے جس کا پورے پاکستان کے عوام عدلیہ کے شکر گزار ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بار پھر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے کیونکہ ان گزرے پانچ سالوں میں عوام روٹی کپڑے اور مکا ن سے اتنے دور کر دیے گئے ہیں کہ ان چیزوں کا حصول ان کے لئے ناممکن سا دیکھا ئی دیتا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چئیر مین بلاول بھٹو زرداری محترمہ کی اس برسی پر ان کے کیس سے متعلق عوامی خدشات کو مد نظر رکھتے اور اس پر بات کرتے کہ محترمہ کے قاتل کب بے نقاب ہوں گے کیس کی کیا صورت حال ہے اور اس میں پاکستان پیپلز پارٹی کیا کردار ادا کر رہی ہے لیکن انھوں نے نجانے کیوں اس کا سارا ملبہ عدلیہ پرڈالنے کی کوشش کی کیا وہ یہی بات جو عدلیہ سے کر رہے تھے اپنے والد آصف علی زرداری سے نہیں پوچھ سکتے تھے یہی بات وہ یوسف رضا گیلانی سے نہیں پو چھ سکتے تھے یہی بات وہ راجہ پرویز اشرف سے نہیں پوچھ سکتے تھے یہی بات وہ وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب سے نہیں پوچھ سکتے تھے کے ان کی والدہ کے قاتلوں کا کیا بنا ان کو سزا کیوں نہیں ہوئی لیکن چئیر مین بلاول بھٹو زرداری ایک عجیب سی سوچ تھی کہ یہ تمام سوالات جن کے جوابات ان کے اپنے پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے دینے تھے ان کے بجائے عدلیہ سے پوچھنا شروع کر دیے جو کہ اس بات کاغماز ہیں کہ وہ ابھی طفل مکتب ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ ساری باتیں ان کو لکھ کر دی گئی تھیں تاکہ آنے والے الیکشن میں انھیں پاکستان پیپلز پارٹی ایک نئے کارڈ کے طور پر استعمال کر سکے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اس کے سواء کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ وہ نوجوان چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کو میدان میں لے کر آئے بصورت دیگر ان گزرے پانچ سالوں میں جس طرح کے کارنامے انھوں نے سرانجام دیے تھے اس وجہ سے اب کی بار عوام کا ان کا ووٹ دینا مشکل تھا لیکن جس طرح آصف علی زرداری نئے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں نیا پتا کھیلا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ اگلی باری کے بارے میں ناصرف سوچ رہے ہیں بلکہ انھوں نے اس کے لیے ورق بھی شروع کر دیا ہے ایک بات اور جو بہت ہی اہم تھی کے اس بار عوام ،اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اراکین یہ توقع کر رہے تھے کہ آصف علی زرداری کے بارے میں دو عہدے رکھنے پر جو باتیں ہو رہی ہیں اس وجہ سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیر مین شب کو چھوڑ دیں گے لیکن یہاں انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سے ان قوتوں کو خاموش اشارہ ضرور دیا ہے کہ وہ اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ چاہیے وہ ان کے حق میں جائے یا ان کے خلاف دینے سے پہلے سوچ لیں مگر عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ موجودہ عدلیہ جو تاریخ میں پہلی بار آزاد عدلیہ کہلائی ہے وہ ناصرف میرٹ پر فیصلہ دے گی بلکہ اس کا دیا ہوا فیصلہ عوامی امنگوں کا ترجمان ہو گا اس لیے ان قوتوں کو خاموش اشارہ دینا بھی ان کے کسی کام نہ آسکے گا ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 209292 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More