کوئی تو آئے

شروع اﷲ کے نام سے جوبڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

پاکستان میں ہر چیز کا حصول اب مسئلہ بن گیا ہے۔ کسی بھی حکومت کا اولین کام ہر عام شہری کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔لیکن پاکستان میں ہر روز بے گناہوں کے سرِعام قتل ہونے کی وجہ سے حکومت اور اس کے سکیورٹی ادارے بالکل نا کام ہوں گئے ہیں۔آئے روز کی ہڑتالوں نے ملک کو معاشی طور پر بالکل کنگال کرکے رکھ دیا ہے۔بے روزگاری اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔پاکستان میں باہر سے نہیں بلکہ موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو خود پاکستان میں ہین نت نئے دہشت گرد بن رہے ہیں۔جس میں بے روزگاری،انصاف سے محروم، کرپشن سے تنگ،تعلیم سے محروم، زیادتی کے مارے ہر طرف ان صورت میں دہشت گرد ی کے مارے پھر رہے ہیں۔ کھلے عام لوگوں سے راہ چلتے موبائل چھین لیے جاتے ہیں، بچوں کو اغواءکر لیا جاتا ہے۔کوئی روکنے والا نہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہر جگہ دہشت کا سماں ہے۔کوئی پُرسان حال نہیں۔بے چارے غریب تھانوں کے چکر میں پڑنے کی بجائے چپ کو ہی بہتر سمجھتے ہیں۔کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ تھانے سے لے کر عدالت تک اور وہاں سے انصاف تک اس کی کتنی نسلیں ختم ہو جائیں گی لیکن نہ ہی مجرم پکڑا جانا ہے نہ ہی کوئی انصاف ملتا ہے بلکہ تاریخوں اور در در کے چکروں میں پڑنے کی بجائے اس بات پر ہی صبر کر لیتا ہے کہ یہی اﷲ کو منظور تھا۔جان بچی لاکھوں پائے۔انصاف کاحصول پاکستان میں کافی مشکل ہے۔گناہ گار مزے سے گھوم پھر رہا ہوتا ہے اور بے گناہ تھانوں، عدالتوں اور جیلوں میں قید ہو جاتا ہے۔امیر کے لئے قانون اس کے گھر پر دستیاب ہوتا ہے جبکہ غریب کے لئے انصاف متعلقہ جگہوں پر بھی میسر نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ ملک میںوفاقی حکومت کےلئے تو بجلی اور ضروریات زندگی کی ہر شے تو میسر ہے لیکن جو غریب عوام در بدر کے دھکے کھا رہے ہیں، روزانہ ہڑتالیں کرتے پھرتے ہیں،طالبعلموں کی تعلیم خاک میں مل گئی ہے بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ان حالات میں طالبعلم کیا کریں گے ان لیپ ٹاپ کا جب ان کو چلنے کےلئے بجلی ہی میسر نہیں ہو گی، جب روزگاری ہی نہیں ملے گا، جب روٹی ، کپڑا اور مکان ہی نہیں ہوگا تو کیا کریں گے وہ لیپ ٹاپ کو لے کر۔ سیدھی سی بات ہے وہ گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک دن بیچ ہی دیں گے۔بجلی اور گیس تو اب مسئلہ ہی نہیں رہا کیوں جو شے ہے ہی نہیں وہ کیا مسئلہ ہوگی۔ اب تومستقبل میں پانی بھی نہیں ملے گا۔جس طرح پانی کا ضائع ملک میں بدستور جاری ہے وہ دن دور نہیں جب پانی کے لئے ہڑتالیں ہوں گی۔اور بجلی و گیس نہ ہو تو کوئی بات نہیں لیکن پانی نہ ہوا تو کیا ہوگا؟اگر کالاباغ ڈیم بن جائے یا جاتا تو کیا کسی ایک علاقہ یا ایک صوبہ کو فائد ہ ہوتا؟ نہیں نہ تو ملک کے لئے سوچنا چاہیے۔ یہ تو بجلی اور گیس نہ ہونے پر بل اتنے آرہے ہیں اگر 24گھنٹے یہ سہولیتں میسر ہوتی تو بل تو ہزاروں اور لاکھو ں میں آتے اور پھر تو اﷲ ہی حافظ ہوتا اس عوام کا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے لوگوں کے پارے بھی چڑ گئے ہیں۔لیکن پھر بھی پٹرول وغیرہ ڈلوانے پر مجبور ہیں ۔وہ دن دور نہیں جب پٹرول پمپوں پر کیش کی بجائے، لوگ اپنے گھروں کی چیزیں رکھ کر پٹرول لیں گے۔ملک میں روزانہ قتل وغارت، لوٹ مار ایک عام سی خبریں بن گئی ہیں۔جب بھی کوئی ٹی وی چینل دیکھیں اس جیسی خبریں دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گی۔اب کراچی، کراچی نہیں رہا بلکہ کرچی کرچی ہو گیاہے۔ کب بند بوری میں لاشوں کا سلسلہ بند ہوگا؟لسانی، فرقہ پرستی، بول چال کی بناءپر کب تک قتل و غارت ہوتی رہے گی۔جب اس طرح کے حالات ہوں گے تو عوام مٹی کھائیں گے۔ جب نہ ٹرانسپورٹ ہو، نہ روزگار، نہ بجلی اور نہ ہی گیس، نہ پانی ہو تو پھر کیسے نظامِ زندگی چلے گی۔ حکومت کا تو خرچہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔کیا ہم سب اتنے بے بس ہوگئے ہیں کہ چور ہمارے سامنے سے ہماری چیز چوری کر کے لے جاتا ہے اور ہم صرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کاش کو ئی پولیس والا آجائے لیکن بے سود اور ہماری حسرتیں چکنا چور ہو جاتی ہیں۔اور آخر یہ سوچ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ خدا کو یہی منظور تھا۔سر کٹی لاشوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور حکومت کو یہ تک نہیں پتہ چل رہا کہ یہ سازش ہو کہاں سے رہی ہے ارے غریب کو اس بات سے کیا غرض کہ کیا کہاں سے سازش ہو رہی ہے غریب کو تو صرف مجرم چاہیے اور انصاف بس۔روزگار ختم ہو گئے ہیں لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔کسی کے جوان بیٹے کی جب لاش گھر آتی ہے توحکومت کا کیا قصور ہے، قصور تو اس غریب کا تھا جو روزگار، تعلیم وغیرہ کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا۔ہمارے علماءحکومتی دوڑ میں شامل ہونے کےلئے کوشش کررہے ہیں۔کوئی ترمیموں کے چکر میں سیاست کر رہا ہے، کوئی نیٹو سپلائی بندش کو آگے رکھ کر سیاست چمکا رہا ہے، کوئی آفیہ صدیقی کے کیس کو اپنی سیاست کار استہ بنانے کے چکر میں ہے، آخر میں ہر کوئی ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی کوشش میں ہے۔پر غریب کو تو دو وقت کی روٹی، کپڑا اور مکان چاہیے ۔پاکستان کو کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں قدرت نے معدنی وسائل نہ رکھے ہوں، ہر جگہ دوسرے لوگوں کی نظریں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ اثاثے ہمیں مل جائیں۔اگر حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے بند فیکٹریوں ، کارخانوں کو بجلی و گیس کی سہولت دی جائے تاکہ بے روزگاروں کو روزگار مل سکے، ملک کا معاشی نظام چل سکے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اگر ہم اپنے اندرونی حالات کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو ہم بیرونی حملوں کا کیسے مقابلہ کریں گے۔ بیرونی سازشوں کو کیسے کنٹرول کریں گے۔ ہمارے پولیس کے نوجوان دن رات ایک کر کے ان مجرموں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار تو ہیں لیکن مجرموں کی ذہینی صلاحتیں ان کی سیکھائی ہو ئی علم سے بہت اعلیٰ لگتا ہے۔ اعلیٰ قسم کا اسلحہ ان کے پاس موجودہوتا ہے اور ہمارے سکیورٹی ادارے وہی پرانے کے پرانے اسلحہ پر منحصر کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اگر مضبوط بننا ہے تو سب سے پہلے معاشی نظام کو بہتر کریں، روزگار مہیا کیا جائے ، توانائی کے شعبہ میں ترقی کی جائے، نظامی شمسی کی ٹیکنالوجی میں انوسٹمنٹ کرنی چاہیے، بڑی بڑی عمارتوں میں نظام شمسی کا نظام لگائے جائے تا کہ کچھ تو بجلی کی قلت میں کمی آئے۔لوٹ مار اور قتل و غارت کو کنٹرول کرنے کےلئے ایسا قانون بنایا جائے جس سے مجرم کو جلد ازجلد سزا ملنی چاہیے اور وہ بھی سرعام تک کہ وہ سزا دوسروں کے لئے عبرت کا نشاں بن جائے۔عدالتوں کو آزاد تو کہتے ہیں لیکن اس کے کئے گئے فیصلوں کو نہیں قبول کرتے۔ خداراہ عدالتوں سے عوام کی آخری امید لگی ہوئی لیکن اب عدالتیں بھی بے بس لگ رہی ہیں۔ جب ملک میں کوئی قانون نہ رہے گا تو ہر کوئی اپنی ضروریاتِ زندگی کو پور ا کرنے کےلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اور جب انسان جانور بن جائے تو جنگلی جانور بھی اس سے پناہ مانگتے ہیں۔اور انسان کو جب تک اس کی بنیادی ضروریات نہیں ملیں گی وہ خود کو کیسے خوشحال محسوس کرے گا۔ ہم نے دین اسلام کے راستے کو چھوڑ دیا ہے۔خدا اور اس کے نبیﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔حرام، کرپشن ہماری روزی روٹی بن گئی ہے۔خدا تعالیٰ کی بجائے لوگوں پر ہم سب نے امیدیں لگا رکھیں ہیں۔دوسروں کی امدادوں پر ہمارا انحصار ہے، خود کمانے کی جستجو ختم ہو گئی ہے۔گھنٹوں لائنوں میں لگ کر اور پورا پورا دن ضائع کر کے ہم کچھ کمانے کی بجائے دوسروں کی دی ہوئی امدادوں کو لینے کے لئے تو کھڑے رہتے ہیں لیکن اگر ہم خود کچھ مزدوری کر لیں تو ہم سب کو امداد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ فحاشی میں اضافہ، اور اخلاقی طور پر ہمارے معاشرے میں کمی آ چکی ہے۔ جھوٹ بولنے میں کوئی شرم نہیں محسوس ہوتی،امانت میں خیانت ہمارا کام رہ گیا ہے۔دھوکہ دہی اور غلط بیانی کی وجہ سے لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتبار اٹھا گیا ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل کے غلط استعمال کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل بلکل اخلاقی طور پر ختم ہو گئی ہے۔نہ چھوٹے اور بڑے میں کوئی تمیز رہی ہے۔اساتذہ ، طالبعلموں میںکوئی تمیز نہیں رہی۔اساتذہ اپنے احترام کروانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ جب ہم اسلامی اصولوں کو نظر انداز کر دیں گے تو پستی ہمارا مقدر بن جائے گی اور دوسرے لوگ ہم سب پر غلبہ کر لیں گے۔موجودہ دور میں ہم نے اپنی روایات کو بھولا دیا ہے اور مغرب کی تعلیمات کو اپنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ٹی وی اشتہارات نے عورت کے مقام کو جس طرح بد نام کر دیا ہے وہ مسلم معاشرہ کے لئے نہایت ہی مر مٹنے کا مقام بن چکا ہے۔ہم حکومت پر تو تنقید کرتے ہیں لیکن اپنے آپ پر کبھی توجہ نہیں دیتے۔ کیوں ہم پوری دنیا میں ذلیل ہو رہے ہیں، کیوں ہم پاکستانیوں کو ہر ائیر پورٹ پر ہی روک کر چیک کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہم میں ایمانداری ختم ہو گئی ہے۔ ہم نے دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ پاکستان میں تو ہم کو کوئی قانون نظر نہیں آتا جب کہ دوسرے ملکوں میں تو ایک ایک قانون یاد ہوتے ہیں فلاں جگہ پر نہیں روکنا، فلاں جگہ پر سگریٹ نوشی نہیں کرنی وغیرہ وغیرہ۔ اور جب موجودہ حالات بن جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ حکومت نے ہمیں کہیں کہ نہیں چھوڑا۔ ہم سب جب تک ایک ہو کر ملک و قوم کے لئے نہیں سوچیں گے اس وقت تک ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ اور آخر میں میرا تو یہی سوال ہے اپنے آپ سے اور دوسروں سے کہ اگر جب تک ہم خود کو اندرونی طور پر مضبوط نہیں کر سکتے، اندرونی طور پر دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو بیرونی طور پر کیسے دشمنوں سے مقابلہ کر سکیں گی، کیسے اپنی عوام کو محفوظ بنا سکیں گے؟ یا الہی کوئی تو آئے جو ہم کو موجودہ حالات سے نکالنے میں مدد دے۔۔۔۔۔۔۔۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90590 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.