ملا کی اذاں اور ہے

سناتھا کہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری عام مولویوں سے مختلف عالم دین ہیں جنہیں بیک وقت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے وہ ایک لمبے عرصے سے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں انکے چاہنے والوں میں ہر سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنما و کارکن شامل ہیںموصوف سیاسی محاذ پر بھی سرگرم رہے ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ انکی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے بڑے زور وشور سے انتخابات میں حصہ لیا تب شاید علامہ صاحب کو پاکستان میں رائج انتخابی سسٹم کی خرابیوں کا پوری طرح سے ادراک نہ تھا ان دنوںپرویز مشرف نے آج کے ایک اور انقلابی عمران خان ،میا ں اظہر اور علامہ صاحب کے لئے شیروانیوں کا آرڈر اپنے شاہی درزی کو دیا تھا اور کمال یہ ہوا کہ تیار شیروانیا ں دھری کی دھری رہ گئی تھیں اور وزارت عظمیٰ کوئی اور چرا لے گیا تھااس واردات کے بعد مستعفی ہو کرعلامہ صاحب ایسے غائب ہوئے کہ ماسوائے ایک نجی ٹی وی کے کہیں اور دکھائی نہیں پڑتے تھے پرویز مشرف نے جوکہ ریفرنڈم میں ان کی حمایت سے اپنی کرسی پکی کرنے میں کامیاب ہوئے تھے پاکستانی قوم پر کیا کیا ستم نہ ڈھائے مگر علامہ ایسے کینیڈا سدھارے کہ پھر واپس نہیں آئے عدلیہ پابند سلاسل ہوئی،لال مسجد معصوم بچے بچیوں کے خون سے تربتر ہوئی، اکبر بگٹی جیسے محب وطن سردار کو للکار کر مارا گیاعدلیہ کی بحالی کے لئے وکلاءاور سیاسی کارکن کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل آئے مگر علامہ کوکسی روٹھے ہوئے بلما کی طرح نہ آنا تھا نہ آئے مدت بیت گئی کوئی سیاسی سرگرمی نہیںریمنڈڈیوس کو لے جانے والے سہرا باندھ کر لے گئے عافیہ صدیقی کی بہن کسی مسیحا کو تلاش کرتی پھرتی رہی لاپتہ افراد کے لواحقین کے آنسو ختم اور گلے رندھ گئے آصف زرداری کی اندھیر نگری مچی اور پھر بام عروج کو پہنچی فیکٹریاں بندہوئیں روزگار ختم ہواچھینا جھپٹی لوٹ مار کا بازار گرم ہواآٹامہنگا اور جسم سستے ہو ئے اور لو گ نوالوں کے لئے ترسنے لگے ،عورتیں بجلی کے بل ہاتھ میں لے کر عصمتیں بیچنے نکل آئیں حالات کے تھپیڑوں سے ہار مان کر کئی ماﺅں نے کلیجے کے ٹکڑوں کو اپنے ہاتھوں سے ابدی نیند سلا کر خود بھی موت کو گلے لگا لیالوڈشیڈنگ اسقدر بڑھی کہ مزدور ،کسان ،صنعتکار اور تاجر سب یک زبان ہو کر بلکنے لگے لیکن کسی مجبور پاکستانی کی صدا میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ کینیڈا میں بیٹھے قوم کے اس مسیحا کے کا نوں تک پہنچ پاتی سو ظلم کی رات طویل ہوتی گئی بالآخر زرداری راج کا وقت پورا ہونے کو آیانئے الیکشن کی تیاریاں شروع ہوئیں تو عوام میںایک امید جاگی انہیں فیصلے کا حق پھر ملے گاوہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے درست فیصلہ کر سکیں گے،دنیابھر میں جہاں جہاں جمہوری نظام قائم ہے وہاں ایسے ہی ہوتا ہے حکومتیں اپنی مدت پوری کرتی ہیں اور اسکے بعد سیاسی جماعتیں ایک بار پھر عوام میں جاتی ہیںیہ عوام پہ منحصرہوتا ہے کہ وہ کسے ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں،پاکستان میں پردے کے پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلانے والوں کی اپنی ہی منطق پہ مبنی یہ سوچ ہے کہ یہاں کی جمہوریت دوسرے ملکوں سے مختلف ہے اور عوام بھی اس قابل نہیں کہ وہ کوئی درست فیصلہ کر سکیں یہاں عملی طور پر کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کی ناقابل فہم ا صطلاح متعارف کرانے اور اسے رائج کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ،یہ حلقے ہر الیکشن سے قبل اپنی مرضی کا انتخابی ڈیزائن ترتیب دیتے ہیں،وہ کبھی آئی جے آئی کی شکل میں سامنے آتا ہے،کبھی ایم ایم اے توکبھی این آر اوکے انتظام کی صورت میں، ظالمو قاضی آرہا ہے ،سب سے پہلے پاکستان،پہلے احتساب پھر انتخاب اور نہ جانے کون کون سے نعرے اور سپانسرڈ پروگرام ہیں جوریاست بچانے کے نام پر متعارف کرائے جاتے رہے ہیں اور اب سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کا نیا نعرہ سامنے آیا ہے اور اس نعرے کی ہنڈیا چڑھانے کی ذمہ داری علامہ صاحب کو سونپی گئی ہے سونے پہ سہاگہ بلکہ چیخیں نکلوادینے والی بات یہ کہ اس ہنڈیا کو ایم کیوایم کا تڑکہ بھی لگایا جارہا ہے کم از کم میر ی اپنی تو یہ کیفیت ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں پندرہ سال سے مسلسل بر سر اقتدار رہنے والی ایم کیو ایم جس پر12مئی کو کراچی میں چیف جسٹس کے استقبال کے لئے نکال جانے والی ریلی کو خون سے رنگین کر دینے کے ساتھ ساتھ بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین الزامات ہیں کی جانب سے موجودہ نظام کو برا بھلا کہنے اور انقلاب کی باتوں پر قہقہے لگا کر ہنسوں یا وطن عزیز کے کسی غریب مزدور ،دہقان کے گلے لگ کے اس کی بد نصیبی کے دن اور طویل ہوتے دیکھ کر دھاڑیں ما رمار کر رﺅں،مجھے افسوس ایم کیو ایم کے مسلح طرز سیاست پر بھی ہے اور پیپلز پارٹی کی جمہوریت کی دعوے دار قیادت کے ہاتھوں میثاق جمہوریت کی بے حرمتی پر بھی کہ اگر اس پر کچھ نہ کچھ عملدرآمد ہوتا رہتا توملک کے ازلی حاکموں کی شرارتیں شاید کچھ حدود وقیود میں رہتیں،چوہدریوں کی مٹی پاﺅ اور اصولوں کو پیروں تلے روندتی سیاست پر بھی دکھ ہے کہ آئے دن قافلے کا سالار بدلتے ہوئے ان کا ضمیربھی انہیں ذرہ برابر ملامت نہیںکرتا لیکن سچ جانیں تو مجھے دلی رنج دین کے ان وارثوں کی خفیہ سودے بازیوں، پلٹوں اور منافقت کی سیاست پر ہے جنہیںملک پر40 سال حکومت کرنے والے ڈکٹیٹروں کے بارے میں ایک لفظ تک منہ سے نکالنے کی توفیق نہیں،جن کا تازہ نسخہ جمہوریت کے کاغذمیں آمریت کی پھکی ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے جب کتاب کے نام پر عوام سے ووٹ سمیٹ کر مولانا فضل الرحمن نے شاہ کی خدمت کی غرض سے ایوان صدرکے خفیہ راستوں کے ذریعے ہونے والی ملاقاتوں کے لئے مولانا غفور حیدری کی مستقل ڈیوٹی لگا رکھی تھی،ہر دور میں ملا ملٹری الائینس نے اپنا کام دکھایاہے اور اب کی بار طاہر القادر ی صاحب کی آنکھ عین اس وقت کھلی ہے جب عام انتخابات سر پر آگئے ہیں، آئین کی دہائی دینے والا ملاحکومت اور اپوزیشن کو نگران حکومت کے قیام کے لئے حاصل آئینی حق کو دو جماعتوں کا باہمی گٹھ جوڑ قرار دے کر ہڑپ کر جانے کے در پہ ہے با وجود اسکے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ یہ الیکشن ایک مکمل آزاد عدلیہ اور ایک آزاد و متفقہ الیکشن کمیشن کے تحت ہونے جا رہے ہیں،اپنے آپکو عقل کل کا مالک سمجھنے والی قوتوں کو آنے والے انتخابات کے یہ انتظامات ایک آنکھ نہیں بھا رہے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو من مانیوں اور پسندیدہ نتایئج حاصل کر نے کی خواہش فقط حسرت ہی رہ جائے گی سو کینیڈا میں بیٹھے علامہ صاحب کی خدمات کا سودا طے پا گیا ہے مارکیٹ کیا رخ اختیار کرتی ہے اسکا اندازہ اگلے چند دنوں میں ہو جائے گا، پاکستان میںریاست بچانے کے نام پر جمہوریت کا خون ہوا تو ذمہ دارکینیڈا اور برطانیہ کی وفاداری کا دم بھرنے اور حلف اٹھانے والے یہی دو اصحاب ہو ں گے ،طاہر القادری کی آوازمجاہد کی اذاں نہیں ملا کی وہ پر فریب صدا ہے جس میں لوگوں کی فلاح کی بجائے حق تلفی ،فساد ، قتل و غارت اور تباہی کا پیغام پنہاں ہے۔
Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 68608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.