...اور ریاست بچانے والے سیاست کی نذر ہوئے۔

علامہ طاہر القادری صاحب کے ریاست بچانے کے نعر ے بھی سیاسی نکلے۔اور آخر الامر اپنی سیاسی پارٹی پاکستان عوامی تحریک کو ووٹ دینے کا عہد لے کر چلتا بن گئے۔ جب پہلے دن وہ یہ نعر ہ لگا رہے تھے تو کچھ لوگوں کو تشویش ہوئی تھی۔کہ علامہ صاحب بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر کام کرنے آئے ہیں۔اور شائد میں نے بھی لکھا تھا کہ بیرونی عناصر کو اپنی سکرپٹ پر پرفارم کرنے کے لیے ایک ادا کا ر کی ضرورت ہے۔مگر میر ی پیشن گوئی صحیح نہیں نکلی،دراصل وہ اندرونی عناصر کی سکرپٹ پر کام کررہے تھے۔اسی لیے لوگ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب کی سوچ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے سب کی سوچ ختم ہوجائی ہے۔

پہلے قادری صاحب کے مطالبات اور نعروں کی بات کرتے ہیں کہ وہ کیا کیا کہتے رہے اورکیاکیا ہوتا گیا؟کینیڈاسے لاہور پہنچتے ہی انہوں نے جو لانگ مارچ کے لئے وقت مقرر کیا ۔انکی پہلی تقریراور لانگ مارچ کے دن میں تقریبا پونے مہینہ کا فاصلہ تھا۔ اسی دوران وہ پاکستان بچانے کے لیے اُس پارٹی کے پاس گئے جس نے پاکستان کی معاشی حب کی جان نکالی ہوئی ہے۔اور جس کا لیڈر غیر پاکستانی ہے اور ملک دشمن عناصر کے آلہ کار رہے ہیں۔۔مگر وہ بھی سمجھے کہ شائد اس کام میں کوئی پاکستان کا بھلا ہے لہذا وہ بھی نو دو گیارہ ہوگئے۔۔ دراصل قادری صاحب الطاف حسین کو اپنا اصل ایجنڈا سمجھانے میں ناکام رہے۔۔ لانگ مارچ کے لئے وہ جن مطالبات کو لے کر آئے تھے وہ یہ تھے کہ پاکستان میں الیکڑورل ریفارمز ہو۔اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو ہو۔ مگر جب ڈی چوک اسلام آباد پہنچ گئے اور انقلاب کے خواہشمندوں کا ٹھاٹھیں مارتاہو ا سمندر نظر آیا تواُن کے مطالبے میں ایک اور بات بھی شامل ہوگئی ۔وہ یہ کہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل ہو اور نگران عبوری حکومت قائم کی جائے۔اُنہوں نے موجودہ حکومت کو سابقہ حکومت بھی کہہ ڈالا۔۔

دھرنے کے اگلے دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے رینٹل پاور پراجیکٹ کیس میں وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم دیاتو انہوں نے سجدہ شکر اد ا کیا اور شرکاءکو مبارک باد دی اور کہا کہ میری آدھی تقریر ختم ہوئی اور آدھا کام ہوگیا۔ آدھی تقریر کل ہوگی اور پورا کام ہوجائے گا۔۔ان تمام حالات میں کچھ باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں۔ایک تو وہ جلدی بازی میں تھے۔ دوسری بات یہ کہ دھرنے کے دوسرے دن وہ شرکاءکو بار بار تسلیاں بھی دے رہے تھے۔کہ اس دھرنے کے لیے انہیں ایک یا دو راتیں اور رکنا پڑے گا۔ یہ ان کو کیسے پتا تھا کہ ایک دو دن سے ذیادہ نہیں رکنا پڑے گا۔؟؟ کیا یہ سب پری پلان تھا؟؟تیسری بات حکومت کو لاکھوں لوگوں کے آنے سے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ صرف رحمان ملک کو یہ کام سونپا ہوا تھا کہ تم جو دل میں آئے کہتے رہو۔ اور وہ وہی کہتا رہا۔ کبھی کہا کہمولانا صاحب بڑے باعزت آدمی ہیں۔ کبھی مولوی قادری تم کچھ بھی نہیں ہو۔کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔اور عین آخری دن مذاکرات کے نام پر حکومتی نمائندوں کو بلایا گیا جس میں تمام پارٹیوں کے لوگ شامل تھے سوائے مسلم لیگ ن کے۔اور مذاکرات کیا ہوئے کہ مولانا صاحب سابقہ حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرکے نکل پڑے۔ جو اصل اُن کا مطالبہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ وہ 27تاریخ کو لاہور میں منہاج سیکرٹریٹ میں ہوگا۔ یہ سب کیا تماشہ تھا؟؟

لاکھوں لوگ جو پاکستان میں انقلاب چاہتے تھے انکی باتوں کی ہیرا پھیری کو ہی نہ سمجھ سکے اور چل پڑے ۔وہ تمام لوگ جو جرمنی ،فرانس ،انگلینڈ اور امریکہ سے پاکستان میں حقیقی انقلاب کےلئے جمع ہوئے اُن سب کویقینا مایوسی ہوئی ہوگی۔ ایک بات جو مجھے سمجھ آرہی ہے وہ یہ کہ قادری صاحب کو پنجاب میںن لیگ کے ووٹ بنک کو توڑنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔جس کا فائدہ پی پی پی کو تو نہ ہوگا مگر تحریک انصاف کو تو ضرور فائدہ ہوگا۔۔اور دوسری بات یہ کہ اگر قادری صاحب واقعی حقیقی انقلاب چاہتے تھے تو زرداری کی سیاست کی بُری طرح نذر ہوئے ہیں ۔ انہیں زرداری کی حواریوں سے مذاکرات کرنے اور اُن کی کسی بات پر یقین کرنے سے پہلے ضرور سوچنا چاہئے تھا کہ زرداری ایک اور معاہدہ نواز شریف کے ساتھ بھی بوربن میں کرچکے ہیں جس کاحشر اُنہوں نے خود بھی دیکھا ہوگا۔۔زرداری کے نزدیک وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔۔ بہرحال جو بھی ہے۔ تمام پاکستانیوں کو جو اُمیدیں طاہرالقادری سے تھیں اُن پر پانی پھر چکاہے۔اگر تو طاہر القادری کو ن لیگ کے خلاف استعمال کیا جانا ہے تو لوگوں کو زرداری کی اس چال کو سمجھنا ہوگا۔ اور اگر ایسی بات نہیں ہے توپھر یہ سچ ہے کہ علامہ صاحب بُری طرح ناکام ہوچکے ۔وہ انتہائی جلد ی بازی میں تھے۔ 27 تاریخ کو مذاکرات کا بھی کہا جارہا ہے اور دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ وہ 27 تاریخ کو دبئی جائیں گے اور28تاریخ کو دوبارہ ٹورنٹو کے لیے روانہ ہونگے۔ اس تمام حالات میں سوال صرف اتنا ہے کہ وہ کیا یہ بتاسکیں گے اس قوم کو کہ وہ اتنے بڑے لانگ مارچ اور دھرنے کے بعد ریاست بچاسکے یا سیاست۔؟؟ یا موجودہ سیاست نے انہیں بُری طرح پچھاڑدیا۔۔
habib ganchvi
About the Author: habib ganchvi Read More Articles by habib ganchvi: 23 Articles with 21458 views i am a media practitioner. and working in electronic media . i love to write on current affairs and social issues.. .. View More